عشق ہمارا درپئے جاں ہے کیسی خصومت کرتا ہے
عشق ہمارا درپئے جاں ہے کیسی خصومت کرتا ہے
چین نہیں دیتا ہے ظالم جب تک عاشق مرتا ہے
شاید لمبے بال اس مہ کے بکھر گئے تھے باؤ چلے
دل تو پریشاں تھا ہی میرا رات سے جی بھی بکھرتا ہے
صورت اس کی دیدۂ تر میں پھرتی ہے ہر روز و شب
ہے نہ اچنبھا یہ بھی کہیں پانی میں نقش ابھرتا ہے
کیا دشوار گزر ہے طریق عشق مسافر کش یارو
جی سے اپنے گزر جاتا ہے جو اس راہ گزرتا ہے
حال کسو بے تہہ کا یاں مانا ہے حباب دریا سے
ٹک جو ہوا دنیا کی لگی تو یہ کم ظرف اپھرتا ہے
یاد خدا کو کر کے کہو ٹک پاس ہمارے ہو جاوے
صد سالہ غم دیکھے اس خوش چشم و رو کی بسرتا ہے
دامن دیدۂ تر کی وسعت دیکھے ہی بن آوے گی
ابر سیاہ و سفید جو ہو سو پانی ان کا بھرتا ہے
دل کی لاگ نہیں چھپتی ہے کوئی چھپاوے بہتیرا
زردیٔ عشق سے بے الفت یہ رنگ کسو کا نکھرتا ہے
کھینچ کے تیغہ اپنا ہر دم کیا لوگوں کو ڈراتے ہو
میرؔ جگر دار آدمی ہے وہ کب مرنے سے ڈرتا ہے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 5, Ghazal No- 1770
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.