Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بہادر شاہ ظفرؔ

شمسی مینائی

بہادر شاہ ظفرؔ

شمسی مینائی

MORE BYشمسی مینائی

    عشرت دہر سے واقف بھی تھا بیگانہ بھی

    تیری شاہی میں تھی اک شان فقیرانہ بھی

    زہد و پیری میں بھی اک جرأت رندانہ تھی

    سامنے موت کے تدبیر حریفانہ تھی

    تو نے خود اپنے وطن کو کبھی رسوا نہ کیا

    تو نے تو قوم کے ناموس کا سودا نہ کیا

    تو بھی احساس کو چاندی سے کچل سکتا تھا

    تو بھی موسم کی طرح رنگ بدل سکتا تھا

    تو بھی کیا بات تھی غیرت کی تجارت کرتا

    عیش کے واسطے ایمان کو غارت کرتا

    تو بھی کیا بات تھی فطرت کو خفا کر دیتا

    سنت جعفر و صادق بھی ادا کر دیتا

    تو مگر کب تھا کسی راج دلارے کی طرح

    آخری وقت میں ٹوٹا تو ستارے کی طرح

    سوز پنہاں کو طرب خیز بنایا تو نے

    ہر تباہی کو کلیجے سے لگایا تو نے

    ہر غم دہر کو مہمان کیا ہے تو نے

    پوری اک نسل کو قربان کیا ہے تو نے

    دشمن دیں نے کیے تیرے اثر کے ٹکڑے

    دار پر کھینچ دئے تیرے جگر کے ٹکڑے

    سارے عالم نے ترے شوق کا عالم دیکھا

    یعنی قربانیٔ پیہم کو مجسم دیکھا

    بارش نور تو گلشن میں رہی شام سے کیا

    زندگی رقص تو کرتی رہی انجام سے کیا

    کتنی وسعت ترے جذبے میں ترے خون میں ہے

    بزم دہلی میں تھی خلوت تری رنگون میں ہے

    تیرے انداز چلے ہیں سحر و شام کے ساتھ

    تیرے ارمان رہے گردش ایام کے ساتھ

    تیری بیتابیٔ دل پیکر گل تک پہنچی

    تیری آواز تھی جو بوس کے دل تک پہنچی

    تو نے دیوانوں کو اک جذبہ وحدت بخشا

    تیرے مرقد نے انہیں شوق شہادت بخشا

    یہ حقیقت بھی کھلی رہ گئی دنیا تکتی

    آدمی مرتا ہے تحریک نہیں مر سکتی

    تیرے انجام کا چرچا تو نہیں کر سکتا

    بد نصیبی کا میں شکوہ تو نہیں کر سکتا

    سلطنت رہ نہ گئی اس کا بھروسا کیا تھا

    جو ملی اوروں سے اس چیز کو سمجھا کیا تھا

    دین ہے تیرے لہو کی ترا فن قبضے میں

    آج بھی سلطنت شعر و سخن قبضے میں

    جنگ میں ہار کے بھی فن میں ظفرؔ کیا کہیے

    شب کے ہاتھوں سے یہ تنظیم سحر کیا کہیے

    تجھ کو اندھا تو کیا مٹ نہ سکا نور کلام

    اب بھی چونکاتا ہے انساں کو ترا سوز کلام

    راگنی خون میں اپنے ہی ڈبو کر رکھ دی

    زندگی شعر و سخن میں بھی سمو کر رکھ دی

    ذوقؔ سے بڑھ کے ترے شعر میں رعنائی ہے

    دردؔ سے بڑھ کے ترے درد میں گہرائی ہے

    حشر تک یاد رہے گا یہ ہے تقدیر تری

    صاحب دل کی نگاہوں میں ہے تصویر تری

    تیری سطوت پہ نہ شاہی پہ قلم اٹھا ہے

    ایک انساں کی تباہی پہ قلم اٹھا ہے

    مأخذ:

    Ruh-e-Sukhan (hisa dom) (Pg. 206 (e)208)

    • مصنف: سوامی دیال بسوانی
      • اشاعت: 1989
      • ناشر: مطبع نامی پریس، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1971

    موضوعات

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے