دلی کی گلیاں تین منظر
پہلا منظر
سن انیس سو اڑتیس ہے
سردی کی ٹھٹھری راتیں ہیں
رات کے کوئی آٹھ بجے ہیں
آج یہ سب گزری باتیں ہیں
موری دروازے کے باہر
نشے میں دھت فوجی گورے
انگریزی سرکار کے چھورے
تانگے والوں کو پیٹ رہے ہیں
تانگے والے گھبرا گھبرا کر
ادھر ادھر سب بھاگ رہے ہیں
اور سپاہی آنکھ چرا کر
دوسری جانب دیکھ رہے ہیں
چلتے چلتے راہ میں رک کر
میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں
دوسرا منظر
فتح پوری مسجد کے آگے
چاندنی چوک کا لمبا رستہ
لال قلعے تک لے جاتا ہے
ہاتھ میں تھامے اپنا بستہ
میں مکتب کی سمت رواں ہوں
شاہجہاں کے لال قلعے پر
گوروں کا پہرا بیٹھا ہے
چاندنی چوک میں دائیں بائیں
گلیوں کوچوں بازاروں میں
بجلی کے کھمبوں پر ہر سو
ڈھیروں لڑکے چڑھے ہوئے ہیں
اور تاروں کو کاٹ رہے ہیں
پولس گولی چلا رہی ہے
چلتے چلتے راہ میں رک کر
میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں
تیسرا منظر
گورے لندن چلے گئے ہیں
مانگیں پوری ہو گئیں آج
نیتا راہنما سب خوش ہیں
ملک نے پایا ہے سوراج
لال قلعے پر آزادی کا
سہہ رنگا پرچم لہرایا
دلی کی گلیوں میں سب نے
آزادی کا جشن منایا
لیکن ایکا ایکی جیسے
پردہ اٹھا منظر بدلا
دھند سی چھائی ہے ہر جانب
جو کچھ ہے سب گدلا گدلا
کوئی نہیں سنتا ہے کسی کی
ہو گئے لوگ اچانک بہرے
ریلوں میں بے سر کی لاشیں
سڑکوں پر بے دھڑ کے چہرے
ہریجن بستی کی کٹیا میں
خون سے لت پت لہولہان
کٹیا جیسے اک شمشان
گاندھی جی کی لاش پڑی ہے
آزادی کچھ دور کھڑی ہے
مأخذ:
Kulliyat-e-Akhtaruliman (Pg. 433)
- مصنف: Baidar Bakht
-
- اشاعت: 2006
- ناشر: Educational Publishing House
- سن اشاعت: 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.