احمد شناس کے اشعار
غرق کرتا ہے نہ دیتا ہے کنارہ ہی مجھے
اس نے میری ذات میں کیسا سمندر رکھ دیا
میں خود اپنے آپ سے ہوں بیگانہ سا
بستی کے انسان بھی میرے جیسے ہیں
بہت چھوٹا سفر تھا زندگی کا
میں اپنے گھر کے اندر تک نہ پہنچا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھر اس کے بعد پتھر ہو گیا آنکھوں کا پانی
جب اپنے غم میں رونے سے کیا انکار میں نے
میں بات کرنے لگا تھا کہ لفظ گونگے ہوئے
لغت کے دشت میں کس کو صدا لگاؤں گا میں
لفظ جب اترا مری آنکھیں منور ہو گئیں
لفظ احمدؔ زندگی سے رابطے کی ڈور ہے
میں اس کی پہچان ہوں یا وہ میری
کیا سمجھوں اور وہ سمجھائے کیا کیا
پس خیال ہوں کتنا ظہور کتنا ہوں
خبر نہیں کہ ابھی خود سے دور کتنا ہوں
خود کو پایا تھا نہ کھویا میں نے
بے کراں ذات کنارا تھا مجھے
چاند میں درویش ہے جگنو میں جوگی
کون ہے وہ اور کس کو کھوجتا ہے
شب و روز نخل وجود کو نیا ایک برگ انا دیا
ہمیں انحراف کا حوصلہ بھی دیا تو مثل دعا دیا
بغیر جسم بھی ہے جسم کا احساس زندہ
یہ خوشبو بانٹنے والی ہوائیں بھی قیامت
باہر انسانوں سے نفرت ہے لیکن
گھر میں ڈھیروں بچے پیدا کرتے ہیں
لفظوں کی دسترس میں مکمل نہیں ہوں میں
لکھی ہوئی کتاب کے باہر بھی سن مجھے
نوجوانوں کا قبیلہ اس کے پیچھے چل پڑا
جرم کر کے بھاگنے والا مثالی ہو گیا
میں نے بھی بچوں کو اپنی نسبت سے آزاد کیا
وہ بھی اپنے ہاتھوں سے انسان بنانا بھول گیا
پھول باہر ہے کہ اندر ہے مرے سینے میں
چاند روشن ہے کہ میں آپ ہی تابندہ ہوں
پاپ دھماکے میں ہم بھکتی ڈھونڈ رہے ہیں
میڈونا کے خط و خال میں میرا دیکھیں
جانکاری کھیل لفظوں کا زباں کا شور ہے
جو بہت کم جانتا ہے وہ یہاں شہ زور ہے
جسم بھوکا ہے تو ہے روح بھی پیاسی میری
کام ایسا ہے کہ دن رات کا کارندہ ہوں
میں اکتشاف کی ہجرت بہشت سے لایا
مری تلاش میں میرا مقام لکھا تھا
اللہ والا ایک قبیلہ میری نسبت
اور میں اپنے نام نسب سے ناواقف ہوں
ایک بچہ ذہن سے پیسہ کمانے کی مشین
دوسرا کمزور تھا سو یرغمالی ہو گیا