Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

احمد شناس کے اشعار

2K
Favorite

باعتبار

غرق کرتا ہے نہ دیتا ہے کنارہ ہی مجھے

اس نے میری ذات میں کیسا سمندر رکھ دیا

بس اس کی پہچان یہی ہے

آنکھ میں آنسو بھرنے والا

میں خود اپنے آپ سے ہوں بیگانہ سا

بستی کے انسان بھی میرے جیسے ہیں

بہت چھوٹا سفر تھا زندگی کا

میں اپنے گھر کے اندر تک نہ پہنچا

پھر اس کے بعد پتھر ہو گیا آنکھوں کا پانی

جب اپنے غم میں رونے سے کیا انکار میں نے

میں بات کرنے لگا تھا کہ لفظ گونگے ہوئے

لغت کے دشت میں کس کو صدا لگاؤں گا میں

لفظ جب اترا مری آنکھیں منور ہو گئیں

لفظ احمدؔ زندگی سے رابطے کی ڈور ہے

وہ میرے علاوہ مجھے چاہتا ہے

بڑی مختلف ہے کہانی کی صورت

میں اس کی پہچان ہوں یا وہ میری

کیا سمجھوں اور وہ سمجھائے کیا کیا

پس خیال ہوں کتنا ظہور کتنا ہوں

خبر نہیں کہ ابھی خود سے دور کتنا ہوں

خود کو پایا تھا نہ کھویا میں نے

بے کراں ذات کنارا تھا مجھے

چاند میں درویش ہے جگنو میں جوگی

کون ہے وہ اور کس کو کھوجتا ہے

شب و روز نخل وجود کو نیا ایک برگ انا دیا

ہمیں انحراف کا حوصلہ بھی دیا تو مثل دعا دیا

بغیر جسم بھی ہے جسم کا احساس زندہ

یہ خوشبو بانٹنے والی ہوائیں بھی قیامت

باہر انسانوں سے نفرت ہے لیکن

گھر میں ڈھیروں بچے پیدا کرتے ہیں

لفظوں کی دسترس میں مکمل نہیں ہوں میں

لکھی ہوئی کتاب کے باہر بھی سن مجھے

نوجوانوں کا قبیلہ اس کے پیچھے چل پڑا

جرم کر کے بھاگنے والا مثالی ہو گیا

میں نے بھی بچوں کو اپنی نسبت سے آزاد کیا

وہ بھی اپنے ہاتھوں سے انسان بنانا بھول گیا

پھول باہر ہے کہ اندر ہے مرے سینے میں

چاند روشن ہے کہ میں آپ ہی تابندہ ہوں

کون قطرے میں اٹھاتا ہے تلاطم

اور انتر آتما تک سینچتا ہے

پاپ دھماکے میں ہم بھکتی ڈھونڈ رہے ہیں

میڈونا کے خط و خال میں میرا دیکھیں

جانکاری کھیل لفظوں کا زباں کا شور ہے

جو بہت کم جانتا ہے وہ یہاں شہ زور ہے

رفتہ رفتہ لفظ گونگے ہو گئے

اور گہری ہو گئیں خاموشیاں

جسم بھوکا ہے تو ہے روح بھی پیاسی میری

کام ایسا ہے کہ دن رات کا کارندہ ہوں

میں اکتشاف کی ہجرت بہشت سے لایا

مری تلاش میں میرا مقام لکھا تھا

اللہ والا ایک قبیلہ میری نسبت

اور میں اپنے نام نسب سے ناواقف ہوں

ایک بچہ ذہن سے پیسہ کمانے کی مشین

دوسرا کمزور تھا سو یرغمالی ہو گیا

سات قلزم ہیں مرے سینے میں

ایک قطرے سے ابھارا تھا مجھے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے