اخلاق احمد کے افسانے
ایک کہانی کا بوجھ
بہت دنوں سے ایک کہانی کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوں۔ عرفی چچا کی کہانی کا بوجھ۔! عام طور پر کہانیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ لکھنے والوں کے لئے تو وہ ایک نشہ ہوتی ہیں۔ ایک سرور۔ ایک خواب کی سی کیفیت جس میں اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صبح شام، کوئی خیال پرورش
اچھے ماموں کا چائے خانہ
اچھے ماموں ایک چائے خانے میں رہتے تھے اور ہمارے غریب، شریف خاندان کی بدنامی کا واحد سبب تھے۔ ویسے تو پندرہ بیس برس قبل چائے خانے میں گھنٹوں گزارنا کوئی بہت زیادہ معیوب بات نہیں ہوسکتی تھی۔ لیکن چوبیس گھنٹے ایک چائے خانے میں رہنا کچھ ناقابل یقین سا
ایک، دو، تین، چار
سیٹھ لطیف کانجی کا نام اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ کراچی کی پرانی تاریخ سے وابستہ کچھ لوگ شاید ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں کچھ نہ کچھ یاد آ جائے۔ مگر ایسے لوگ بھی اب کتنے رہ گئے ہیں۔ خود کراچی بھی اب وہ کراچی کہاں رہا ہے۔ یہاں کس کے پاس اتنی فرصت ہے
رئیس کیوں چپ ہے؟
رئیس کچھ دنوں سے چپ ہے۔ اب یہ مت سمجھ لیجئےگا کہ رئیس نے بولنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ وہ بولتا تو ہے مگر بس، ضرورت کے مطابق۔ ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔ دفتر میں ساتھیوں کی خیریت بھی دریافت کرتا ہے۔ بچوں سے اور بیوی سے گفتگو بھی کرتا ہے۔ رات گئے گھر آنے والے
کہانی ایک کردار کی
ایک رات عجیب واقعہ پیش آیا۔ مشہور ادیب عابد شہباز کا تخلیق کردہ مقبول کردار شکیل رات کے ڈھائی بجے زندہ ہو گیا۔! زندہ کیا ہو گیا، یوں سمجھئے کہ جیسے ہوش میں آگیا۔ اب خدا کے واسطے یہ مت کہہ دیجئے گا کہ آپ نہ عابد شہباز سے واقف ہیں اور نہ اس کے
کھویا ہوا آدمی
باہر سیاٹل کی رات تھی۔ یخ ہوا ہر چیز کے آرپار گزر جاتی تھی۔ اوورکوٹ، دستانے، ونڈبریکر جیکٹس، چربی، ہڈیاں، سب کے درمیان سے گزر جاتی تھی۔ انگلیوں کی پوریں اور ناک جیسے بے حس، بےجان ہونے لگتی تھیں۔ صرف تین منٹ تک انور اس خوفناک سردی کو برداشت کر
بنجر، بے رنگ زندگی والا
یہ کہانی میں بہت جلدی میں لکھ رہا ہوں۔ اور اگر آپ نے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ اس جلدی کی وجہ کیا ہے، تو میں آپ کا سر توڑ دوں گا۔ مجھے ایسے پڑھنے والے زہر لگتے ہیں جو ہر چیز کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ ہر کردار، ہر واقعے، ہر صورتحال کے پس منظر میں چھپی
مہرو ماہ اور اختر، آسماں انہی سے ہے
تنویر نے بٹن دبایا تو اپارٹمنٹ کے اندر دور کہیں گھنٹی بجی۔ ریلیکس۔۔۔ ابوجی ہمیشہ کہتے تھے۔ دروازے کے پیچھے نہ جانے کون ہوگا۔ اس کی پہلی نظر تم پر پڑے تو تم مطمئن اور پراعتماد نظر آؤ۔ کشادہ گیلری میں ایک گہرا سناٹا تھا۔ مہنگے اپارٹمنٹس کی روایتی
فسانہ ختم ہوتا ہے
مسلا ہوا بستر پوری کہانی تھا۔ ثاقب نے ٹہلتے ٹہلتے سوچا۔ مزے کا افسانہ بن سکتا ہے اس پر۔ بے ترتیب چادر اور بکھرے ہوئے تکیے اور فضا میں پھیلی ایک وحشی بُو۔ اولڈ ماسٹرز میں سے کوئی لکھتا تو کمال کردیتا۔ ابو الفضل صدیقی۔ یا سیّد رفیق حسین۔ ایک کمرے کی
کراچی نامی قتل گاہ میں ایک دوپہر
ادھیڑ عمر کا وہ آدمی بہت دیر سے بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ یہ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے، ذرا فاصلے پر واقع وہ بس اسٹاپ تھا جہاں سے لانڈھی اور کورنگی کی بسیں روانہ ہوتی تھیں۔ یہاں ارجنٹ تصویریں بنا کر دینے والے فوٹو گرافروں کی اور کھلی چائے فروخت کرنے والوں