علی حیدر کے اشعار
میں اسے دفنا تو آیا ہوں مگر رویا نہیں
فرض پورا کر دیا پر ذمہ داری رہ گئی
کمرے میں کچھ بھی نہیں بس انتظاری رہ گئی
ایک ادھورا عشق اور خوشبو تمہاری رہ گئی
ملتی ہے زندگی تو یہی پوچھتی ہے بس
وہ خودکشی کا خواب جو دیکھا تھا کیا ہوا
وہ بڑی تاب بڑے حوصلوں والا لڑکا
جب تری یاد سے لڑتا ہے تو رو دیتا ہے
دلیل دی گئی کہیں نظام سے کیا گیا
ہمارا فیصلہ ہمارے نام سے کیا گیا
متروک راستوں پہ پلٹ آنے کا خیال
حیدرؔ حسینؔ یار بہت دیر ہو گئی
آفس کی فائلوں میں تری زلف کا خیال
دل اپنے کام سے ہے دماغ اپنے کام سے
لوگ رک رک کے لگاتار تجھے دیکھتے ہیں
جو تھے یوسف کے خریدار تجھے دیکھتے ہیں