Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anas Khan's Photo'

انس خان

1983 | دلی, انڈیا

انس خان کے دوہے

1.2K
Favorite

باعتبار

خود کو چھوٹا کر لیا خود میں خود کو بھینچ

بالآخر چرخاب نے لیا سمندر کھینچ

دن میں مذہب جاگتا لاکھ بھلی ہے رات

ہر تن لاگے ایک سا اک ہی لاگے ذات

چھپا گیا گہرائی میں دریا اپنا حال

میں جب بھی اندر گیا باہر دیا اچھال

تو مجھ میں محدود ہے میں تجھ میں محدود

میرے سائے میں ترا دکھنے لگا وجود

فطرت سے کی اس قدر انسانوں نے چھیڑ

نکلا جنگل جنگ پر لے مٹھی بھر پیڑ

آنکھوں میں پانی بھرا پانی میں گرداب

خواب ہتھیلی پر لیے کھڑا رہا تالاب

گھس گئی ہڈی ریڑھ کی جھکنے لگا شریر

لوچ کھا گئی چھت مری بکھر گئے شہتیر

پیڑ زرد ہونے لگے پھول ہوئے رسہین

لہو شجر کا کھینچ کر پینے لگی زمین

عمر سے دھوکا کھا گئے پرکھا نہیں ضمیر

بچہ بچہ ہی رہا بڑھتا رہا شریر

اپنے ہی سب ہاتھ چھڑا لیں برا چلے جو کال

عمریں جتنی بڑھتی جائیں اڑتے جائیں بال

ملا پنڈت سب یہاں کرتے رہے فریب

سوچ رہا نیوٹن وہاں گرتا کیوں ہے سیب

شرابور پلکیں ہوئیں کاجل گیا ہے پھیل

اشکوں کے سیلاب میں بکھر گئی کھپریل

کوئی سنبھالے دیر تو کوئی بچائے دین

انسؔ بچا لو آپ ہی مرتی ہوئی زمین

روح بدن سے کھینچ کر کی تجھ پر قربان

آسمان دھرتی تجھے بھرتی رہی لگان

ناری جگ کی نیو ہے رشتوں کا آدھار

جیسی نظریں ڈالیے ویسا لے آکار

تو تو فقط زمین ہے پھر بھی ترا قصور

گر املی کے بیج سے نکلا نہیں کھجور

ایک آنکھ میں دو پتلی ہوں تب ہوگا آدھار

اک پتلی انتر من دیکھے اک دیکھے سنسار

روح بدن کے ساتھ تھی جگ نے دے دی تاپ

پانی نیچے رہ گیا اوپر اڑ گئی بھاپ

ہر کروٹ پر ہلچل ہوئے من بھی آپا کھوئے

کون بسا ہے میرے اندر کھنن کھنن کھن ہوئے

پا کر نینن میں اسے تھرک اٹھا تھا نیر

آنچ لگی جب دیر تک افن گئی تصویر

پنچھی اڑ کر چل دیا سوکھ گئی جب جھیل

موت ہے اصلی زندگی موت نہیں تکمیل

یہ کہہ کر تلوار نے چھوڑی آج میان

قید حصار جسم میں اب نہ رہے گی جان

یہ دنیا کی ریت ہے یا دنیا کا دین

جو اوپر چڑھنے لگے کھینچے اسے زمین

رات امس میں تر ہوئے لیکن کھلے نہ باب

الگنیوں پر نین کی دن بھر سوکھے خواب

تنی رہی یہ کھال بھی جب تک رہے جوان

انسؔ مسلسل بوجھ سے جھول گئی ادوان

تن بوڑھا ہونے لگا دھندھلے ہو گئے خواب

رنگ سیاہی کا اڑا مٹنے لگی کتاب

مذہب نے جو ٹھونک دی ہلی نہیں وہ کیل

قدرت ہر مخلوق کو روز کرے تبدیل

باہر کی اک ٹھیس بھی پیدا کر دے کھوٹ

انڈا جیون پائے جب ہو اندر سے چوٹ

سدھ بدھ کھو گئی بانوری جس دن کھلا فریب

ندیا میں گاگر ملی پنگھٹ پر پازیب

بدن اندھیری کوٹھری کھوجو دیا سلائی

انسؔ جگاؤ چیتنا روشن کرو خدائی

بھنور لگے جب کھینچنے تند ہوا کے بال

ہوا نوچنے لگ گئی دریاؤں کی کھال

مسجد میں پیدا ہوا سیکھی وہی زبان

طوطا مندر پہ چڑھا دینے لگا اذان

اپنوں کو جب ہم نے پرکھا کھل گئی سب کی پول

جگر کلیجہ تھر تھر کانپے جیبھ نہ کھائی جھول

اے سترنگی روشنی کیسی شکل بنائی

جو رنگ اپنایا نہیں وہ ہی دیا دکھائی

باہر کی اک ٹھیس بھی پیدا کر دے کھوٹ

انڈا جیون پائے جب ہو اندر سے چوٹ

پہلے ہوا کسان کا بالو بالو کھیت

پھر آندھی مہنگائی کی بھر گئی منہ میں ریت

پیروں سے کمزور تھی پھر بھی پلٹا کھیل

لپٹ لپٹ کر پیڑ سے اوپر چڑھ گئی بیل

کل یہ ہی بن جائے گی اسی گلے کی پھانس

آج ہوا انمول ہے کھینچ زیادہ سانس

ماضی کب کا سو گیا سر پر چادر تان

انسؔ کہاں سے جسم پر آنے لگے نشان

راون زندہ ہی رہا صدیوں جلا شریر

ترکش میں تھا ہی نہیں کبھی رام کے تیر

اپنی ضد کی آگ میں زخمی کئے گلاب

اک وحشی نے ڈال کر کلیوں پر تیزاب

کیا مانگیں بھگوان سے کیا دے گا یہ دیر

رکشا خود چلتا نہیں بنا چلائے پیر

ملے جو نینن مد بھرے دھڑکا من کا دوار

تن کے اس دربار کا من ہے چوکیدار

پرکھوں کی تصویر گلے میں واحد بنی دلیل

سارے گھر کا مان سنبھالے ایک اکیلی کیل

دنیا ایک سراب ہے پختہ ہوا یقین

میں جتنا چلتا گیا اتنی چلی زمین

اپنے اندر میں گیا اک دن کرنے سیر

اتنا آگے بڑھ گیا پیچھے چھوٹے پیر

سب تیری سائنس ہے پھر یہ کیسا یوگ

خدا نمائندے ترے اتنے پچھڑے لوگ

ان آنکھوں میں قید ہے اس دنیا کا سار

باہر خالی عکس ہے اندر ہے سنسار

بڑے شہر سے اپنی دوری رکھیے میلوں میل

جتنی دور سمندر سے ہو اتنی میٹھی جھیل

جن کاندھوں پر جھول کر چھوتا تھا آکاش

اک دروازے میں ملی اسی پیڑ کی لاش

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے