Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عقیل عباس کے اشعار

296
Favorite

باعتبار

خدا کو خط لکھوں گا خودکشی کا

لکھوں گا میں ریزائن کر رہا ہوں

ایک بوسہ ادھار ہے تم پر

اور چائے بھی تیز پتی کی

سفر نگل گئے ہم کو وگرنہ ہم نے بھی

کہیں پہنچ کے کسی کو گلے لگانا تھا

جانے اس وقت کہاں فون پڑا ہو اس کا

جانے اس وقت وہ کس شخص کی آغوش میں ہو

سپہ گری کا ہنر بھی سخن وری بھی ہو

میں چاہتا ہوں کہ لشکر بھی ہو پری بھی ہو

کلاس روم میں اتنا سمے نہیں ہوتا

یہ سانحہ تمہیں گھر سے بنا کے لانا تھا

زندگی میں تجھے رستے سے اٹھا لایا ہوں

تو کسی اور سے ٹکرائی تھی آگے میں تھا

اس کی آنکھوں پہ مرے پاس کوئی شعر نہیں

ایک مضمون ہے مضمون بھی تفصیلی ہے

بدن طبلہ ہوا جاتا ہے دکھ سے

تنک دھن دھن تنک دھن کر رہا ہوں

بات کرتے ہوئے پیروں کی طرف دیکھتا ہوں

اپنے مالک کی طبیعت کا پتا ہے مجھ کو

وہ آ گئی تو مروت میں پیش کرنا پڑی

وہ چائے اس کی نہیں تھی جو اس نے پی لی تھی

جن دنوں عشق نہیں ہوتا تھا

کالے پانی کی سزا ہوتی تھی

در وجود پہ جانے تو کس سے مل آئی

کہ چار پانچ تو رہتے ہیں آدمی مجھ میں

لمس حسن عجیب کی خواہش

سر اٹھاتی تھی مار دی میں نے

سکوں لپیٹ کے کونے میں پھینک دیتی ہے

کہ جیسے کام پہ آتی ہے کھلبلی مجھ میں

بدن تو تھا ہی نہیں آگ تھی مجسم آگ

ہم اس سے ملتے نہیں تو جلے نہیں ہوتے

خیر کی ساری دعاؤں کا بھلا ہو لڑکی

ایک بوسہ دم رخصت کہ گرانی نکلے

رات وہ شاخ بدن مجھ پہ جھکی جاتی تھی

اور پھل منہ کو پہنچتا تھا لگا جو بھی تھا

وقت فرماں روائے دلی ہے

اور میں بھکت ہوں بریلی کا

یہ کون پائنچے اونچے کیے اترتا ہے

ہماری آنکھ میں سیلاب دیکھنے کے لیے

تیرگی میں آدمی کو حوصلہ دیتے ہوئے

ہر ستارے کو فرشتہ مان لینا چاہیے

شکم سے ماں کے گلی سے تمہاری دنیا سے

جہاں کہیں سے بھی نکلے ہیں روتے نکلے ہیں

گلے لگا کے روانہ بھی کر سکوں اس کو

پلٹ کے آئے تو سازش کی مخبری بھی ہو

روز کرتی ہے وہ مٹی سے لپائی لیکن

روز دیوار میں سوراخ نکل آتا ہے

پانی کی پیش رفت نے سوکھا بھگا دیا

بارش کے بعد گھاس کی ٹکڑی لہک اٹھی

بالا خانے سے چیخ اٹھتی تھی

اور در بند تھا حویلی کا

دوستوں کو بھی تہ بہ تہ رکھ دے

جیسے رکھتی ہے تو لباس اپنے

دریا نے بھی بھاگ بھری کی گاگر اتنی بھر دی ہے

اب گاگر کے ہونٹ بھگوتے جاتے ہیں پگڈنڈی کو

دو گھڑی نیند کی مہلت ہے وہ غم تاک میں ہے

جس طرح سانپ کا بچہ کوئی پاپوش میں ہو

اس نے عجلت میں غلط سل پہ قدم رکھا تھا

پیچ کھاتے ہوئے زینوں نے اسے گھیر لیا

توے پر بوند پڑنے کا عمل ہے

میں جس مٹی پہ کن من کر رہا ہوں

آپ کی سبز نگاہی کا فسوں طاری ہوا

اور منظر نے کوئی تازہ جتن کات لیا

Recitation

بولیے