عقیل عباس کے اشعار
خدا کو خط لکھوں گا خودکشی کا
لکھوں گا میں ریزائن کر رہا ہوں
سفر نگل گئے ہم کو وگرنہ ہم نے بھی
کہیں پہنچ کے کسی کو گلے لگانا تھا
جانے اس وقت کہاں فون پڑا ہو اس کا
جانے اس وقت وہ کس شخص کی آغوش میں ہو
سپہ گری کا ہنر بھی سخن وری بھی ہو
میں چاہتا ہوں کہ لشکر بھی ہو پری بھی ہو
کلاس روم میں اتنا سمے نہیں ہوتا
یہ سانحہ تمہیں گھر سے بنا کے لانا تھا
زندگی میں تجھے رستے سے اٹھا لایا ہوں
تو کسی اور سے ٹکرائی تھی آگے میں تھا
اس کی آنکھوں پہ مرے پاس کوئی شعر نہیں
ایک مضمون ہے مضمون بھی تفصیلی ہے
بدن طبلہ ہوا جاتا ہے دکھ سے
تنک دھن دھن تنک دھن کر رہا ہوں
بات کرتے ہوئے پیروں کی طرف دیکھتا ہوں
اپنے مالک کی طبیعت کا پتا ہے مجھ کو
وہ آ گئی تو مروت میں پیش کرنا پڑی
وہ چائے اس کی نہیں تھی جو اس نے پی لی تھی
در وجود پہ جانے تو کس سے مل آئی
کہ چار پانچ تو رہتے ہیں آدمی مجھ میں
سکوں لپیٹ کے کونے میں پھینک دیتی ہے
کہ جیسے کام پہ آتی ہے کھلبلی مجھ میں
بدن تو تھا ہی نہیں آگ تھی مجسم آگ
ہم اس سے ملتے نہیں تو جلے نہیں ہوتے
خیر کی ساری دعاؤں کا بھلا ہو لڑکی
ایک بوسہ دم رخصت کہ گرانی نکلے
رات وہ شاخ بدن مجھ پہ جھکی جاتی تھی
اور پھل منہ کو پہنچتا تھا لگا جو بھی تھا
یہ کون پائنچے اونچے کیے اترتا ہے
ہماری آنکھ میں سیلاب دیکھنے کے لیے
تیرگی میں آدمی کو حوصلہ دیتے ہوئے
ہر ستارے کو فرشتہ مان لینا چاہیے
شکم سے ماں کے گلی سے تمہاری دنیا سے
جہاں کہیں سے بھی نکلے ہیں روتے نکلے ہیں
گلے لگا کے روانہ بھی کر سکوں اس کو
پلٹ کے آئے تو سازش کی مخبری بھی ہو
روز کرتی ہے وہ مٹی سے لپائی لیکن
روز دیوار میں سوراخ نکل آتا ہے
پانی کی پیش رفت نے سوکھا بھگا دیا
بارش کے بعد گھاس کی ٹکڑی لہک اٹھی
دوستوں کو بھی تہ بہ تہ رکھ دے
جیسے رکھتی ہے تو لباس اپنے
دریا نے بھی بھاگ بھری کی گاگر اتنی بھر دی ہے
اب گاگر کے ہونٹ بھگوتے جاتے ہیں پگڈنڈی کو
دو گھڑی نیند کی مہلت ہے وہ غم تاک میں ہے
جس طرح سانپ کا بچہ کوئی پاپوش میں ہو
اس نے عجلت میں غلط سل پہ قدم رکھا تھا
پیچ کھاتے ہوئے زینوں نے اسے گھیر لیا
توے پر بوند پڑنے کا عمل ہے
میں جس مٹی پہ کن من کر رہا ہوں