بدر منیر کے اشعار
کچرے سے اٹھائی جو کسی طفل نے روٹی
پھر حلق سے میرے کوئی لقمہ نہیں اترا
اس سے بڑھ کر اور کیا ہم پر ستم ہوگا منیرؔ
مشورہ مانگا ہے اس نے فیصلہ کرنے کے بعد
جب وصل کا آئے گا ترے ساتھ صنم دن
اس دن کو حقیقت میں کہوں گا میں جنم دن
پڑ جاتے ہیں کتنے چھالے ہاتھوں میں
آتے ہیں پھر چند نوالے ہاتھوں میں
کیا خبر کون سا رستہ تری جانب نکلے
بے ارادہ بھی کئی بار سفر کرتے ہیں
بوڑھے کمزور والدین کے ساتھ
جی رہا ہوں میں کتنے چین کے ساتھ
چراغ اندر کی سازشوں سے بجھے ہوئے ہیں
اور اس کا الزام بھی ہوا پر چلا گیا ہے
زمیں پہ صرف اتارا نہیں منیرؔ اس نے
پھر اس کے بعد ہمارا خیال بھی رکھا
کوئی بھی سر میں نہیں ہے منیرؔ کیا کیجے
یہ زندگی کا ترانہ ریاض مانگتا ہے
میں آج تجھ سے ملاقات کرنے آیا ہوں
نئی غزل کی شروعات کرنے آیا ہوں
جیون ہے سڑک اور کنارے پہ کھڑے ہیں
لگتا ہے کہ مدت سے اشارے پہ کھڑے ہیں
کب سے پہنچ گیا ہوں میں اس شخص کے قریب
کہتی ہے پھر بھی اس کی نظر راستے میں ہوں
جس منظر کا حصہ تیری ذات نہیں
میری نظر میں اس کی کوئی اوقات نہیں
طے ہو چکی ہے اس سے جدائی مگر منیرؔ
تو اس کے ساتھ لمحۂ انکار تک تو چل
کرنی پڑ جائے وضاحت پہ وضاحت لیکن
ہم تری بات کی تردید نہیں کر سکتے
سپہ سالار کے جب ہاتھ کانپیں تو سپاہی بھی
زیادہ دیر پھر میدان میں ٹھہرا نہیں کرتے
بے چہرہ انسانوں کی اس بستی میں
اچھا ہے آئینے توڑ دئے جائیں
کہاں سے ہم اپنی گردشوں کا جواز ڈھونڈیں
ہمارا محور زمیں کے محور سے مختلف ہے
یہ کس طرح کی زمیں پہ ہم نے بنائے شہر مراد رکھی
یہاں پہ کوئی گلاب موسم اتر بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
کنج حیرت سے چلے دشت زیاں تک لائے
کون لا سکتا ہے ہم دل کو جہاں تک لائے
سمجھ میں آتا نہیں یہ کیسی نمو ہے مجھ میں
وہ میری مٹی میں کچھ ملا کر چلا گیا ہے
اور کیا مفہوم ہوگا خود فریبی کے سوا
تشنگی جلتے ہوئے سورج پہ گر ظاہر کریں
بن گئے انسان اپنی ذات میں جنگل منیرؔ
بستیوں سے اڑ گئی ہے بوئے آدم زاد تک
لڑ رہا ہوں میں اکیلا کارزار ہست میں
کر فراہم تو بھی ظالم اپنے ہونے کا جواز
اس وقت سے بچا مجھے اے رب کائنات
حب وطن ہو دل میں وطن کاٹنے لگے