دیپک کنول کے افسانے
لالی کی مکھنی
لال سنگھ عرف لالی بارہمولہ کا ایک خوش باش ٹرک ڈرائیور تھا جو حاجی صمد ڈار کا ٹرک چلا لیا کرتا تھا۔ حاجی صمد ڈار قصبہ سوپور کا ایک صاحب ثروت آدمی تھا جسکے یہاں بیس پچیس کارندے ہر دم دوڑتے بھاگتے نظر آتے تھے۔ ہر سال وہ لاکھوں ٹن ڈیلیشیس سیب دلی کی منڈیوں
سنتا کی گوری
اس کا پورا نام سنتوکھ سنگھ تھا پر پاس پڑوسی اور ناطے رشتے دار اسے سنتا کے نام سے جانتے تھے۔ سنتا جموں کے چاند پورہ گاوں میں اپنے چھوٹے سے پریوار کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کا خاندان بہت ہی چھوٹا تھا۔ ایک تو بیٹا بنتا سنگھ تھا جو بالی عمر سے گزر رہا تھا۔ ایک
پمپوش
فردوسہ کی زندگی جھیل ڈل کی اس شوریدہ سر موج سے کتنی مشابہت رکھتی تھی جسے ہوا کا ایک بے رحم تھپیڑا کنارے تک بہا کے لیجاتا ہے اور پھر یہ بے بس موج کنارے سے ٹکراکر پاش پاش ہو جاتی ہے اور آوارہ اور من موجی تھپیڑا نہال ہو کے کہیں اور نکل جاتا ہے۔ فردوسہ نے
واسدیو زندہ ہے!
جونہی غلام نبی نے واسدیو کو اپنے گھر کے دروازے پر سجدہ کرتے ہوئے پایا تو اس کے ہوش فاختہ ہوئے۔ چہرے کا رنگ ایسے فق ہو گیا جیسے اسے بجلی کا گہرا جھٹکا لگا ہو۔ اس کی آواز حلق میں جا کر پھنس گئی۔ جب واسدیو دروازے کی چوکھٹ کو چوم کر کھڑا ہو گیا تو غلام نبی
پیامبر
بلونت عرف بلو اپنی کبوتر بازی کی وجہ سے جموں کے سرحدی علاقے رنبیر سنگھ پورہ میں خاصا بدنام تھا۔ اسے کبوتر بازی کا ایسا جنون تھا کہ بس اوقات کھانا پینا تو کیا وہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتا تھا اورکبو تروں کے پیچھے جنگلی بلی کی طرح بھاگتا پھرتا تھا۔ وہ دن
فاصلے
حاکم دین کا ڈھوکا لائن آف کنٹرول سے چار ہاتھ کے فاصلے پر تھا۔ لائن آف کنٹرول وہ سرحد ہے جو کشمیر کو دو حصوں میں بانٹتی ہے۔ ایک حصہ اس طرف ہے جس میں جموں اور لداخ بھی شامل ہے اور ایک حصہ اس طرف ہے جو پاکستان کے زیر کنٹرول ہے۔ ادھر والے اس حصے کو آزاد
جب امبر روئے
فتح محمداپنے آپ کو مہذب کہتا تھا مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ ایکدم اجڈ گنوار تھا۔ اس کی سرشت سے وحشی جبلت کا کا سایہ اب تک نہیں ٹلا تھا۔ وہ آج بھی ایک وحشی انسان کی طرح جی رہا تھا جسکے دل میں دیا دھرم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جسے دوسروں کو اذیتیں پہونچانے
شیشے کا گھر
رحمت اللہ کشمیر کے ایک دور افتادہ علاقے پلوامہ کا رہنے والا تھا۔ گردش ِ روزگار اسے سری نگر لے آیا تھا۔ وہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے ہیڈ آفس میں کلرک کی نوکری کرتا تھا۔ چونکہ وہ ٹرانسپورٹ محکمے کا ملازم تھا اسلئے وہ سرکاری بسوں کی مفت سواری کرتا تھا۔ وہ صبح
مچھی والی
سری نگر میں مچھلیوں کا کوئی مخصوص مارکیٹ نہیں ہے۔ یہاں مچھلیاں یا تو براہ راست آپ کے دروازے تک پہنچتی ہیں یا دریائے جہلم پربنے پل جیسے امیرا کدل پل، بڈشاہ پل، حبہ کدل پل یا زینہ کدل پل پر سے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ ان پلوں کے فٹ پاتھوں پر مچھی والیوں نے
ایک تھا بلبل
جب بھی کوئی میرے ماضی کے تاروں کو چھیڑنے لگتاہے تو مجھ پرایک عجب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے؟ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرے اندر ایک پھوڑا نکل آیا ہے جس کے اندر زہریلا مواد بھر گیا ہو۔ یہ پھوڑا ایک دہکتے انگارے کی مانند مجھے اندر ہی اندر جلاتا رہتا ہے، تڑپاتا
بانگی مرغا
جموں کشمیر محکمہ ٹرانسپورٹ کی پندرہ سالہ ملازمت کے دوران میرا واسطہ بھانت بھانت کے لوگوں سے رہا ہے۔ ان میں سے بیشتر اسی محکمے میں کام کرنے والے ڈرائیور اور کلینر تھے۔ میرا کام ان سب کی حاضری کا ریکارڑ رکھنا ہوتا تھا اور اسی ریکارڑ کی بنا پر انہیں تنخواہ
کہاں گیا میرا لال
میں چھانہ پورہ کے جس محلے میں رہتا تھا، وہ بھائی چارے کی ایک عمدہ مثال تھا۔ یہاں دس فیصد ہندوں کے ساتھ نوے فیصد مسلمان شیر و شکر کی طرح رہ رہے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی حلیمہ آپا کا گھر تھا۔ حلیمہ آپا یعنی نور چاچا کی بیوی۔ حلیمہ آپا عمر کے ساٹھ پڑاو
رشتے
علی پواؔ کو میں ان دنوں سے جانتا تھا جب وہ پلیڈیم سینما میں ٹکٹیں بلیک کیا کرتا تھا۔ بڑا بد صورت اور کالا بھجنگ آدمی جسکا منھ نہ ماتھا۔ چیچک نے اس کے منہ پر یوں دل کھول کر گلکاری کی تھی کہ دور سے دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے تارکول کی سڑک پر برسات کے
آوارہ کتا
موتی ایک آوارہ کتا تھا جو میرے محلے میں شب و روز گھومتا رہتا تھا۔ اس محلے کے کچھ لوگ اسے پسند کرتے تھے اور کچھ ناپسند۔ حالانکہ وہ بڑا بے ضرر اور خوش خصال کتا تھا جو صرف بھونکنا جانتا تھا کاٹنا نہیں ،پھر بھی کچھ نفاست پسند لوگ اسے دیکھ کر ہی چڑ جایا کرتے
پوشہ مال
وہ ہماری سگی نانی نہ تھی پھر بھی ہمارے لئے سگی سے کم نہ تھی۔ جب سے وہ ہمارے گھر پر آنے جانے لگی تھیں تو اس کی آمد آمد کی خبر کے ساتھ ہی گھر میں ہلچل مچ جاتی تھی۔ بڑے کمرے میں موٹا سا مٹرس بچھاد یا جاتا تھا۔ مٹرس کے اوپر کڑھائی کی ہوئی کھدر کی چادر بچھائی
آغوش
ولی محمد کی دکان کے۔ ایم۔ ڈی کے بس اڈے کی پتھریلی دیوار سے لگی ہوئی تھی۔ دکان کیا تھی جیسے مرغیوں کا دڑبہ۔ شکر ہے کہ ولی محمد ایک سوکھا مریل سا آدمی تھا جو جیسے تیسے اس دکان میں سما پاتا تھا۔ کوئی تن و توش والا آدمی ہوتا تو اس دکان کو کب کا تھوک کے نکل
زون
وہ صیح معنوں میں چاند کا ٹکڑا تھی۔ شاید اسی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اس کا نام زون (چاند) رکھا تھا۔ وہ ایک مفلوک الحال گھرانے میں پیدا ہوئی تھی جہاں پانی پینے کے لئے روز کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ زون واقعی کیچڑ میں کھلے کنول کی طرح تھی۔ اس کے ماں باپ ایک