فرحت زاہد کے اشعار
عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں
اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں
الفاظ نہ آواز نہ ہم راز نہ دم ساز
یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں
جس بادل نے سکھ برسایا جس چھاؤں میں پریت ملی
آنکھیں کھول کے دیکھا تو وہ سب موسم لمحاتی تھے
وہ آئے تو رنگ سنورنے لگتے ہیں
جیسے بچھڑا یار بھی کوئی موسم ہے
کرتا رہا وہ مجھ پہ سدا مہربانیاں
کچھ اور ڈھونڈھتی رہی میں مہربان میں
کسی خیال کی دستک کسی امید کی لو
میں تھک کے سوئی تو پھر سے جگا دیا اس نے
میں کسی کے ساتھ ہوں اور وہ کسی کے ساتھ ہے
اک مسلسل حادثہ یہ زندگی کے ساتھ ہے
عجب در پر سوالی تھا میں اس کو پھول کیا دیتی
وہ خود گلشن کا مالی تھا میں اس کو پھول کیا دیتی
خزاں کے آخری دن تھے وہ خوشبو مانگنے آیا
مرا دامن ہی خالی تھا میں اس کو پھول کیا دیتی
مسلک وفا کے باب میں وہ اختیار کر
میں جھوٹ بھی کہوں تو مرا اعتبار کر
میں بھی نہ تھی کلام میں اتنی فراخ دل
کچھ وہ بھی اختصار سے آگے نہ جا سکا
خواب جو بھی دیکھے تھے بن گئے شرارے سے
دیکھنا ہے اب اس کو دوسرے کنارے سے
صدیوں کی راکھ وقت کی جھولی میں ڈال کر
میں جا رہی ہوں اب تو مرا انتظار کر
ماں بن چکی ہوں میں بھی مگر اس سے کیا کہوں
جو اپنی ماں کے پیار سے آگے نہ جا سکا
وقت بھی عجب شے ہے ہاتھ ہی نہیں آیا
عمر بھر اٹھائے ہیں دل نے بس خسارے سے
بچپن سے لین دین تھا اس کی سرشت میں
باتوں میں کاروبار سے آگے نہ جا سکا
وہ جا چکا ہے مگر پھول کھل رہے ہیں ابھی
محبتوں کو تماشا بنا دیا اس نے
وہ ایک لمحہ جو تتلی سا اپنے بیچ میں ہے
اسے میں لے کے چلی ماہ و سال سے آگے
اب سوچتی ہوں کیوں یہ سفر دائرے کا تھا
میں اس کے پر لگائے ہوئے تھی اڑان میں
عجیب رت ہے یہ ہجر و وصال سے آگے
کمال ہونے لگا ہے کمال سے آگے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ