Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Iftikhar Imam Siddiqi's Photo'

افتخار امام صدیقی

1947 | ممبئی, انڈیا

کلاسیکی طرز کے معتبر شاعر ۔ سیماب اکبر آبادی کے پوتے اور تقریباً ۵۰ سال تک مشہور ادبی رسالہ شاعر کے مدیر

کلاسیکی طرز کے معتبر شاعر ۔ سیماب اکبر آبادی کے پوتے اور تقریباً ۵۰ سال تک مشہور ادبی رسالہ شاعر کے مدیر

افتخار امام صدیقی کا تعارف

اصلی نام : افتخار امام صدیقی

پیدائش : 01 Sep 1947 | آگرہ, اتر پردیش

رشتہ داروں : اعجاز صدیقی (والد), حامد اقبال صدیقی (بھائی)

LCCN :n2012215019

درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے

سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا

افتخار امام صدیقی 19؍ ستمبر 1947ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اعجاز صدیقی تھے۔ ان کے دادا اردو ادب کے مشہور شاعر اور ادیب سیماب اکبرآبادی تھے۔ سیماب کے تقریباً تین ہزار شاگرد تھے۔ سیماب جب ممبئی آئے تو یہاں بھی انہوں نے ’’شاعر‘‘ کو جاری رکھا۔ بٹوارے کے بعد سیماب پاکستان چلے گئے۔ لیکن ان کے لڑکے اعجاز صدیقی پاکستان نہیں گئے اور آج افتخار امام نے ’’شاعر‘‘ کو جاری رکھا ہے۔افتخار امام کمرشیل شاعر تھے۔ ہندوستان وپاکستان دونوں جگہ پر مشاعرہ میں مدعو کئے جاتے تھے۔

ترنم سے پڑھتے تھے۔ سامعین انہیں پسند کرتے تھے۔ شاعر بھی اچھے ہیں۔ 2002ء کے حادثے کے بعد مشاعروں میں جانا بند کرنا پڑا۔ پہلے تو کچھ چل پھر سکتے تھے اب بالکل معزور ہوگئے ہیں۔ لیکن شاعر کا کام خود کرتے ہیں۔ انہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں تقریباً 100انٹرویو لے چکے ہیں جنہیں وہ اپنے رسالے میں شائع کر چکے ہیں اشاعت کے لیے تیار ہیں۔ شعری مجموعے ’’چاند غزل‘‘ بھی تیار ہے۔ حادثے کے بعد بھی انہوں نے بغیر اصناف کے کئی نعتیں کہیں ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ 2004ء سے آج تک روزانہ اشراق کی نماز کے بعد ایک حمد اور ایک نعت کہتے ہیں۔ انشا اللہ اس کا صلہ انہیں ضرور ملے گا۔

افتخار امام اپنی شاعری میں اپنی دانشوری کا کمال دکھاتے ہیں۔ ہندوستان اور بیرون ہندوستان مشاعرے میں کلام پڑھنے جایا کرتے تھے۔ بچپن سے انہیں گانے کا شوق تھا۔ ان کے والد کے ایک شاگرد غزل سنگر تھے۔ ان سے کچھ سیکھا۔ ابتدا میں فلمی گانے اور غزلیں گایا کرتے تھے۔ ان کے دادا سیماب اکبرآبادی ان سے غزلیں سنا کرتے تھے۔

افتخار امام کی کئی غزلیں مشہور سنگر نے گائی ہیں۔ 11مارچ 2002 ءکو بدقسمتی سے کسی مشاعرے سے واپسی کے وقت جبلپور میں آپ ایک حادثے سے دوچار ہوئے اور اپاہج ہوگئے۔ حوصلہ دیکھئے اس حالت میں مسلسل ’’شاعر‘‘ نکال رہے ہیں ہزاروں لوگوں کو مطمئن کرتے رہتے ہیں۔

اپنے دادا سیماب اکبرآبادی کے رسالہ ’’شاعر‘‘ کو پابندی سے شائع کر رہے ہیں۔ آج بھی شعروادب کے ذخیروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ ’’شاعر‘‘ کا ہر شمارہ ایک نئے موضوع پر شائع ہوتا ہے ایک ہی جگہ بیٹھ کر رسالے کے لئے اتنا مواد حاصل کرنا، یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔

’’شاعر‘‘ نے چھوٹے بڑے سبھی شاعروں کا نمبر نکال کر ہم جیسے تذکرہ نگاروں پر بڑا احسان کیا ہے۔ میں نے اکثر شعروں کے مآخد کے طور پر شعرائے مہاراشٹر کے لئے استعمال کیا ہے۔ ورنہ شعراء حضرات کی لاپرواہی سے کون واقف نہیں ہے۔

تین بار ان کا آپریشن ہوا۔ 7 جنوری 2013ء کو دائیں پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مصیبت پر مصیبت سہتے جارہے ہیں۔ کبھی کبھار ادبی پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔ میری تحقیقی کتاب پر محل اشعار کی رسم اجرا عوامی ادارہ مدنپورہ کے زیر اہتمام ادا کی گئی تو آپ کو اسٹریچر پر لانا پڑا اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ دو متناعہ زبان زد اشعار کا تعلق ممبئی سے ہے۔ خلیق الزماں نصرت نے ان دونوں اشعار کی تحقیق کر کے حرف آخر کا رتبہ دے دیا ہے۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے