Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
JaiKrishn Chaudhry Habeeb's Photo'

جے کرشن چودھری حبیب

1904 | جبل پور, انڈیا

اردو شاعر، فارسی اور سنسکرت کے عالم، آزادی کی جدوجہد میں شامل رہے

اردو شاعر، فارسی اور سنسکرت کے عالم، آزادی کی جدوجہد میں شامل رہے

جے کرشن چودھری حبیب کے اشعار

2.9K
Favorite

باعتبار

پا کے اک تیرا تبسم مسکرائی کائنات

جھوم اٹھا وہ بھی دل جینے سے جو بیزار تھا

نکہت وہی سرور وہی دل کشی وہی

آمد یہ آپ کی ہے کہ جھونکا بہار کا

یا گفتگو ہو ان لب و رخسار و زلف کی

یا ان خموش نظروں کے لطف سخن کی بات

اس سینۂ ویراں میں کھلائے نہ کبھی پھول

کیوں باغ پہ اتراتی رہی باد صبا ہے

انساں کے دل کی خیر زمیں آسماں کی خیر

ہر روز گل کھلاتے ہیں انساں نئے نئے

ہر اک قدم پہ زندگی ہے انتظار میں

کتنے ہی موڑ ابھریں گے ہر اک سفر کے ساتھ

اس قدر وعدے کا انداز حسیں ہوتا ہے

کہ ترے جھوٹ پہ بھی سچ کا یقیں ہوتا ہے

جنوں ہی ساتھ رہے زندگی میں میرے حبیبؔ

سفر میں اور کوئی ہم سفر ملے نہ ملے

دل ٹوٹ کے ہی آخر بنتا ہے کسی قابل

تخریب کے پردے میں تعمیر نظر آئی

تیری یادوں کا ہی سرمایا لئے بیٹھے ہیں

ہم کبھی بے سر و سامان نہ ہونے پائے

ٹوٹ جاتے ہیں جو دنیا کے سہارے سارے

پردۂ غیب سے ہوتا ہے سہارا پیدا

نہ تمنا ہے تری اور نہ وہ درد تپش

دل کے مرنے کا مجھے اب تو یقیں ہوتا ہے

عمر اپنی تو اسی طور سے گزری ہے حبیبؔ

رہا طوفاں ہی نگاہوں میں کنارہ نہ رہا

بچھڑے مجھ سے اس طرح وہ زندگی کے ہم سفر

بجھ گئے ہوں جلتے جلتے جیسے رستے کے چراغ

ہوس نے حسن کی ایسی بگاڑ دی صورت

حبیبؔ کون ہے جو اس کو آج پہچانے

جگر کے داغ دکھانے سے فائدہ کیا ہے

ابھی زمانے کے حالات سازگار نہیں

حال دل کہتے ہی آ جاتی ہے جب یاد ان کی

ہم کہیں ہوتے ہیں افسانہ کہیں ہوتا ہے

خیال یار کے روشن دیے کرو ورنہ

اندھیری رات میں منزل کا اعتبار نہیں

ہیں سب یہ ترے شکوے کوتاہیٔ الفت سے

کچھ دل کی تڑپ کم ہے کچھ خام تمنا ہے

ان کے ہونٹوں پر آیا تبسم ادھر

نبض عالم ادھر تیز تر ہو گئی

مجھے ہی دیکھ کہ جیتا ہوں تیرے وعدوں پر

یہ کون کہتا ہے وعدوں پہ اعتبار نہیں

حال دل پر ہنسا کبھی رویا

یوں مری عمر بے ثبات گئی

سہہ لوں گا اے حبیبؔ ستم ہائے روزگار

حاصل اگر ہو دوست کی پیاری نظر مجھے

جس پہ اک بار جلے ہیں ترے قدموں کے چراغ

راستے وہ کبھی سنسان نہ ہونے پائے

دونوں ہاتھوں سے مسرت کو لٹایا ہے حبیبؔ

غم کی دولت تو مگر تم سے لٹائی نہ گئی

بھیس میں مسرت کے غم کہیں نہ آیا ہو

اس سبب سے ڈر ڈر کر ہم خوشی سے ملتے ہیں

اپنا یہ چراغ دل مدھم ہی سہی لیکن

دنیا کے اندھیروں سے تنہا ہی یہ لڑتا ہے

عقل انساں نے بٹھا رکھے ہیں پہرے دل پر

دل کی کیا بات کہے گا جو نہ دیوانہ بنے

ان سے ہنستے ہی ہنستے محبت سی شے

ہونے والی کہیں تھی مگر ہو گئی

اس عالم فانی میں سدا کون رہا ہے

اک نام ہے اللہ کا اک نقش وفا ہے

مانوس اس قدر ہوں میں لذت سے درد کی

دل ہے کہ ڈھونڈ لیتا ہے پیکاں نئے نئے

چھوڑ آتے ہیں ہر جانب کچھ نقش وفا اپنے

ہم زیست کی راہوں سے جس وقت گزرتے ہیں

انداز مقدر کے ہیں گیسوئے جاناں سے

جو گاہ الجھتے ہیں اور گاہ سنورتے ہیں

حبیبؔ خود ہی بنائیں گے روز و شب اپنے

ہوا ہی کیا جو زمانے نے ساتھ چھوڑ دیا

اس درجہ کبھی جاذب یہ دنیا نہ تھی پہلے

یہ کس کے تصور میں تصویر نظر آئی

جب تھکے ہاتھوں سے پتوار بھی گر جاتے ہیں

عین گرداب میں ہوتا ہے کنارہ پیدا

جہاں کہیں بھی کوئی دل فگار ہوتا ہے

وہیں پہ سایۂ پروردگار ہوتا ہے

اس طرح بے کیف گزرا اے حبیبؔ اپنا شباب

جس طرح سے سونے گھر میں جلتا ہے کوئی چراغ

انساں کے درد و غم کا کہیں ذکر ہی نہیں

ہے بات شیخ کی تو کبھی برہمن کی بات

وہ نالہ جو سینے سے نہ آیا کبھی لب تک

ہنگاموں میں دنیا کے اسے تو نے سنا ہے

نالاں ہوں اپنے ذوق نظر سے حبیبؔ کیوں

کیا سہہ رہے ہیں قلب و جگر کچھ نہ پوچھئے

یاد حزیں نقوش کرم اور نگاہ چند

کیا باندھا ہم نے رخت سفر کچھ نہ پوچھئے

جہاں حسیں ہے محبت کی دل نوازی سے

مگر یہ راز کوئی خال خال ہی جانے

کسی کے جلوؤں سے معمور ہے جہاں اپنا

نہیں یہ فکر کہ دنیا نے ساتھ چھوڑ دیا

بیداد مقدر سے دل میرا الجھتا ہے

جب آپ نظر مجھ پر کچھ لطف سے کرتے ہیں

گل ہی کبھی تو منتخب روزگار تھا

خاروں پہ اب تو آیا ہے موسم بہار کا

مقتل تو ہوں گے آج بھی منصور ہیں کہاں

اب زیب داستان ہے دار و رسن کہاں

ہر اک فسردہ قلب پہ چھائی شگفتگی

جب چھڑ گئی ہے بزم میں اس گل بدن کی بات

دل کشی تیرے تصور کی رہی روز افزوں

باہمی ربط کا ہر چند وہ نقشہ نہ رہا

دل ہے گر پیار سے سرشار تو ممکن ہے حبیبؔ

تو جدھر جائے وہ راہ در جانانہ بنے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے