لطیف شاہ شاہد کے اشعار
گردش ایام سے چلتی ہے نبض کائنات
وقت کا پہیہ رکا تو زندگی رک جائے گی
خود اپنے آپ سے رہتا ہے آدمی ناراض
اداسیوں کے بھی اپنے مزاج ہوتے ہیں
تازہ ہوا خریدنے آتے ہیں گاؤں میں
شاہدؔ شہر کے لوگ بھی کیسے عجیب ہیں
مجھ سے تو کوئی تاج محل بھی نہ بن سکا
بے نام دل کی قبر میں دفنا دیا تجھے
یہ اور بات کہ تو دو قدم پہ بھول گیا
ہمیں تو حشر تلک تیرا انتظار رہا
غم کو احساس کی مٹی میں خدا نے گوندھا
اور کچھ اشک ملائے تو پھر انسان کیا
دوسروں کی بات آئی تو پیمبر تھا وہ شخص
اپنی باری پر محبت سے ہی مرتد ہو گیا
وہ مجھ سے پیار کب کرتا ہے بس ملتا ملاتا ہے
کرائے کے مکاں میں کب کوئی پودا لگاتا ہے
مری آنکھوں میں کیلیں ٹھونک دو ہونٹوں کو سلوا دو
بصیرت جرم ہے میرا صداقت میری عادت ہے
ریل کی پٹری فسردہ شام تیرا سوٹ کیس
پھر سے آنکھوں میں ترے جانے کا منظر آ گیا
پڑھتا ہے بڑے شوق سے وہ میری کتابیں
جس بات سے ڈرتا ہوں وہی بات نہ پڑھ لے
مجھے خاموشیاں پڑھنے کا فن آتا تو پڑھ لیتا
تمہاری جھیل سی خاموش آنکھوں کی پشیمانی
چھڑکا گیا ہے زہر فضاؤں میں اس طرح
ماؤں نے اپنی کوکھ سے بوڑھے جنم دئے
باندھ کے عہد وفا لوگ چلے جاتے ہیں
چھوڑ جاتے ہیں فقط جسم کی الجھی گانٹھیں
اب کے امید وفا باندھ رہا ہوں جس سے
لوگ کہتے ہیں کہ وہ شخص بھی ہرجائی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
محبت روپ میں ڈھلتی تو وہ اک دیوتا ہوتا
میں اس کو پوجنے لگتا اگر وہ با وفا ہوتا
جانے ہیں کس حسین تعلق کی یادگار
مجھ کو بہت عزیز ہیں میری یہ وحشتیں
اشتیاق رقص میں حد سے نکلتے جا رہے
دائرے کو کھینچ کر اوقات میں لانا پڑا
مرے وجداں کی گرہیں کھولتا ہے
مرا ہم زاد مجھ میں بولتا ہے
وہ شخص بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
میں سن رہا تھا مگر میں کلیم وقت نہ تھا
مجھ سے لپٹا ہے امربیل کے مانند کوئی
مجھ کو بے برگ نہ کرتا تو ثمر دیتا کیا
تکلم ہم سے کرتا ہے تو یوں جیسے شہنشہ کو
محبت کا کوئی نسخہ قلندر پیش کرتا ہے