معراج نقوی کے اشعار
کچھ آستینوں کی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں
خوشی سے اپنی بھلا سانپ کون پالتا ہے
میری خاطر وہ کسی اور کو چھوڑ آیا ہے
اب کسی اور کی خاطر وہ مجھے چھوڑے گا
یہ عشق جذبۂ روحانیت ہے مانتا ہوں
مگر تو جسم کی مجبوریاں بھی سمجھا کر
تجھ کو حق ہے تو دل دکھا میرا
میں تجھے پیار بھی تو کرتا ہوں
نیند میں بھی ہے شرم چہرے پر
خواب میں مجھ سے مل رہی ہو کیا
ان سمجھ داروں میں کوئی تو مری بات سنے
ان سمجھ داروں میں اک شخص تو پاگل نکلے
وہ مجھ کو ڈستا ہے پر زہر چھوڑتا ہی نہیں
لحاظ رکھتا ہے کچھ آستیں میں پلنے کا
جانے کیا حشر ہو ان موم صفت لوگوں کا
ان دنوں وقت کے سورج میں تمازت ہے بہت
کیا کرتے اس سے ہاتھ ملا کر بتائیے
دل کیسے ملتا جس سے طبیعت نہیں ملی
زمیں کے چہرے پہ اے خون ملنے والو سنو
زمیں ہلی تو تمہیں خاک میں ملا دے گی
بد سلوکی پہ تری ہم سے روایت کے امین
اب تجھے لوٹ کے گالی بھی نہیں دے سکتے
جب سے دیکھا ہے اس کے چہرے کو
تتلیاں اڑ رہی ہیں آنکھوں میں
ہر ایک بار وفاؤں پہ ضرب لگتی ہے
ہر ایک بار مرا پیار ہار جاتا ہے