عبید الرحمان کے اشعار
گھٹتی بڑھتی رہی پرچھائیں مری خود مجھ سے
لاکھ چاہا کہ مرے قد کے برابر اترے
بچوں کو ہم نہ ایک کھلونا بھی دے سکے
غم اور بڑھ گیا ہے جو تہوار آئے ہیں
اپنی ہی ذات کے محبس میں سمانے سے اٹھا
درد احساس کا سینے میں دبانے سے اٹھا
ہمیں تو خواب کا اک شہر آنکھوں میں بسانا تھا
اور اس کے بعد مر جانے کا سپنا دیکھ لینا تھا
شوخی کسی میں ہے نہ شرارت ہے اب عبیدؔ
بچے ہمارے دور کے سنجیدہ ہو گئے
یہی اک سانحہ کچھ کم نہیں ہے
ہمارا غم تمہارا غم نہیں ہے
صحبت میں جاہلوں کی گزارے تھے چند روز
پھر یہ ہوا میں واقف آداب ہو گیا
نظر میں دور تلک رہ گزر ضروری ہے
کسی بھی سمت ہو لیکن سفر ضروری ہے
جب دھوپ سر پہ تھی تو اکیلا تھا میں عبیدؔ
اب چھاؤں آ گئی ہے تو سب یار آئے ہیں
آنگن آنگن خون کے چھینٹے چہرہ چہرہ بے چہرہ
کس کس گھر کا ذکر کروں میں کس کس کے صدمات لکھوں
ٹوٹتا رہتا ہے مجھ میں خود مرا اپنا وجود
میرے اندر کوئی مجھ سے برسر پیکار ہے
کوئی دماغ سے کوئی شریر سے ہارا
میں اپنے ہاتھ کی اندھی لکیر سے ہارا
جہاں پہنچنے کی خواہش میں عمر بیت گئی
وہیں پہنچ کے حیات اک خیال خام ہوئی
دکھاؤ صورت تازہ بیان سے پہلے
کہانی اور ہے کچھ داستان سے پہلے
تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے
جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں
-
موضوع : مزدور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ