راکیش طوفان کے اشعار
زخم چپ چاپ رہے گا تو رفو بولے گا
تم مجھے قتل بھی کر دو تو لہو بولے گا
جہاں پہ جھوٹ ہے نفرت ہے بے ایمانی ہے
وہیں پہ زندگی بھر زندگی بتانی ہے
لوٹا جب چاند بھی سورج بھی خسارا کر کے
ہم نے چمکا دیا آنگن کو ستارا کر کے
عجیب بات ہے اس رات کی سحر نہ ہوئی
کئی چراغ جلے روشنی مگر نہ ہوئی
رسم دنیا کے بیاباں میں بچھڑنے والے
عشق آوارہ تجھے ڈھونڈھ رہا ہے اب تک
میں شجر دیکھ کے ڈر جاتا ہوں
اس قدر دھوپ کی عادت ہے مجھے