رضا عظیم آبادی کے اشعار
دیکھی تھی ایک رات تری زلف خواب میں
پھر جب تلک جیا میں پریشان ہی رہا
یا رب تو اس کے دل سے سدا رکھیو غم کو دور
جس نے کسی کے دل کو کبھی شادماں کیا
سب کچھ پڑھایا ہم کو مدرس نے عشق کے
ملتا ہے جس سے یار نہ ایسی پڑھائی بات
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
رفو پھر کیجیو پیراہن یوسف کو اے خیاط
سیا جائے تو سی پہلے تو چاک دل زلیخا کا
عمارت دیر و مسجد کی بنی ہے اینٹ و پتھر سے
دل ویرانہ کی کس چیز سے تعمیر ہوتی ہے
خواہ کافر مجھے کہہ خواہ مسلمان اے شیخ
بت کے ہاتھوں میں بکا یا ہوں خدا کی سوگند
اس چشم و دل نے کہنا نہ مانا تمام عمر
ہم پر خرابی لائی یہ گھر ہی کی پھوٹ پھاٹ
کیا کہیں اپنی سیہ بختی ہی کا اندھیر ہے
ورنہ سب کی ہجر کی رات ایسی کالی بھی نہیں
نہ کعبہ ہے یہاں میرے نہ ہے بت خانہ پہلو میں
لیا کس گھر بسے نے آہ آ کر خانہ پہلو میں
خوشا ہو کر بتاں کب عاشقوں کو یاد کرتے ہیں
رضاؔ حیراں ہوں میں کس بات پر ہے اتنا بھولا تو