ساحر سیالکوٹی کے اشعار
اے شمع اہل بزم تو بیٹھے ہی رہ گئے
کہنے کی تھی جو بات وہ پروانہ کہہ گیا
یہ کیوں کر مان لیں الفت ہمیں کرنی نہیں آتی
کیا ہے کام ہی کیا اور الفت کے سوا ہم نے
گلوں کو توڑتے ہیں سونگھتے ہیں پھینک دیتے ہیں
زیادہ بھی نمائش حسن کی اچھی نہیں ہوتی
بڑھی ہے خانۂ دل میں کچھ اور تاریکی
چراغ عشق جلایا تھا روشنی کے لیے
سنبھل کر پاؤں رکھنا وادئ عشق و محبت میں
یہاں جو سیر کو آتا ہے بچ کر کم نکلتا ہے
ہوتی ہے دوسروں کو ہمیشہ یہ ناگوار
اپنے سوا کسی کو نصیحت نہ کیجیئے