Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sarfaraz Khalid's Photo'

سرفراز خالد

1980 | علی گڑہ, انڈیا

سرفراز خالد کے اشعار

2K
Favorite

باعتبار

اک تو نے ہی نہیں کی جنوں کی دکان بند

سودا کوئی ہمارے بھی سر میں نہیں رہا

نہ چاند کا نہ ستاروں نہ آفتاب کا ہے

سوال اب کے مری جاں ترے جواب کا ہے

شریک وہ بھی رہا کاوش محبت میں

شروع اس نے کیا تھا تمام میں نے کیا

موسم کوئی بھی ہو پہ بدلتا نہیں ہوں میں

یعنی کسی بھی سانچے میں ڈھلتا نہیں ہوں میں

اب مجھ میں کوئی بات نئی ڈھونڈھنے والو

اب مجھ میں کوئی بات پرانی بھی نہیں ہے

اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں

مجھ سے طے ہی نہیں ہوتی ہے مسافت میری

ابتدا اس نے ہی کی تھی مری رسوائی کی

وہ خدا ہے تو گنہ گار نہیں ہوں میں بھی

تم تھے تو ہر اک درد تمہیں سے تھا عبارت

اب زندگی خانوں میں بسر ہونے لگی ہے

تو دیکھیں اور کسی کو جو وہ نہیں موجود

تو جائیں اور کہیں اس نے جب پکارا نہیں

یہ کائنات بھی کیا قید خانہ ہے کوئی

یہ زندگی بھی کوئی طرز انتقام ہے کیا

تمام عمر بقید سفر رہا ہوں میں

طواف پھر کسی کعبہ کا کر رہا ہوں میں

لمبی ہے بہت آج کی شب جاگنے والو

اور یاد مجھے کوئی کہانی بھی نہیں ہے

ستم کئے ہیں تو کیا تجھ سے ہے حیات مری

قریب آ مری آنکھوں کے خواب، زندہ ہوں

عجیب فرصت آوارگی ملی ہے مجھے

بچھڑ کے تجھ سے زمانے کا ڈر نہیں ہے کوئی

زیست کی یکسانیت سے تنگ آ جاتے ہیں سب

ایک دن تو بھی مری باتوں سے اکتا جائے گا

نہ رات باقی ہے کوئی نہ خواب باقی ہے

مگر ابھی مرے غم کا حساب کا باقی ہے

ہم کسی اور وقت کے ہیں اسیر

صبح کے شام کے رہے ہی نہیں

میں تو اب شہر میں ہوں اور کوئی رات گئے

چیختا رہتا ہے صحرائے بدن کے اندر

پیروں سے باندھ لیتا ہوں پچھلی مسافتیں

تنہا کسی سفر پہ نکلتا نہیں ہوں میں

ہوش جاتا رہا دنیا کی خبر ہی نہ رہی

جب کہ ہم بھول گئے خود کو وہ تب یاد آیا

کسی نے جاں ہی لٹا دی وفاؤں کی خاطر

تم ہی بتاؤ کہ قصہ یہ کس کتاب کا ہے

ایک دن اس کی نگاہوں سے بھی گر جائیں گے

اس کے بخشے ہوئے لمحوں پہ بسر کرتے ہوئے

سنتے ہیں بیاباں بھی کبھی شہر رہا تھا

سو شہر بھی اک روز بیابان رہے گا

سیاہ رات کے پہلو میں جسم کے اندر

کسی گناہ کی خواہش کو پالتے رہنا

دل جو ٹوٹا ہے تو پھر یاد نہیں ہے کوئی

اس خرابے میں اب آباد نہیں ہے کوئی

رونق بزم نہیں تھا کوئی تجھ سے پہلے

رونق بزم ترے بعد نہیں ہے کوئی

میں اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں بہت

کسی سفر کے حوالے یہ جسم و جاں کر کے

مرے مرنے کا غم تو بے سبب ہوگا کہ اب کے بار

مرے اندر تو کوئی اور پیدا ہونے والا ہے

ہمارے کاندھے پہ اس بار صرف آنکھیں ہیں

ہمارے کاندھے پہ اس بار سر نہیں ہے کوئی

آئنے میں کہیں گم ہو گئی صورت میری

مجھ سے ملتی ہی نہیں شکل و شباہت میری

وہ بھی نہ آیا عمر گزشتہ کے مثل ہی

ہم بھی کھڑے رہے در و دیوار کی طرح

اسی کے خواب تھے سارے اسی کو سونپ دیئے

سو وہ بھی جیت گیا اور میں بھی ہارا نہیں

اب جسم کے اندر سے آواز نہیں آتی

اب جسم کے اندر وہ رہتا ہی نہیں ہوگا

دیر تک جاگتے رہنے کا سبب یاد آیا

تم سے بچھڑے تھے کسی موڑ پہ اب یاد آیا

آنکھوں نے بنائی تھی کوئی خواب کی تصویر

تم بھول گئے ہو تو کسے دھیان رہے گا

خواب میلے ہو گئے تھے ان کو دھونا چاہئے تھا

رات کی تنہائیوں میں خوب رونا چاہئے تھا

اس سے کہہ دو کہ مجھے اس سے نہیں ملنا ہے

وہ ہے مصروف تو بے کار نہیں ہوں میں بھی

میں جس کو سوچتا رہتا ہوں کیا ہے وہ آخر

مرے لبوں پہ جو رہتا ہے اس کا نام ہے کیا

تری دعائیں بھی شامل ہیں کوششوں میں مری

مصیبتوں کا نہ ٹلنا عجیب لگتا ہے

اسی سے پوچھو اسے نیند کیوں نہیں آتی

یہ اس کا کام نہیں ہے تو میرا کام ہے کیا

پانیوں میں کھیل کچھ ایسا بھی ہونا چاہئے تھا

بیچ دریا میں کوئی کشتی ڈبونا چاہئے تھا

وہ مضطرب تھا بہت مجھ کو درمیاں کر کے

سو پا لیا ہے اسے خود کو رائیگاں کر کے

ملتے ہو تو اب تم بھی بہت رہتے ہو خاموش

کیا تم کو بھی اب میری خبر ہونے لگی ہے

بادہ و جام کے رہے ہی نہیں

ہم کسی کام کے رہے ہی نہیں

جو تم کہتے ہو مجھ سے پہلے تم آئے تھے محفل میں

تو پھر تم ہی بتاؤ آج کیا کیا ہونے والا ہے

بات تو یہ ہے کہ وہ گھر سے نکلتا بھی نہیں

اور مجھ کو سر بازار لئے پھرتا ہے

وہ چہرہ مجھے صاف دکھائی نہیں دیتا

رہ جاتی ہیں سایوں میں الجھ کر مری آنکھیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے