سہیل عظیم آبادی کے اشعار
پتھر تو ہزاروں نے مارے تھے مجھے لیکن
جو دل پہ لگا آ کر اک دوست نے مارا ہے
تمناؤں کی دنیا دل میں ہم آباد کرتے ہیں
غضب ہے اپنے ہاتھوں زندگی برباد کرتے ہیں
کیا غم ہے جو ہم گمنام رہے تم تو نہ مگر بدنام ہوئے
اچھا ہے کہ میرے مرنے پر دنیا میں مرا ماتم نہ ہوا
وہ راتیں کیف میں ڈوبی وہ تیری پیار کی باتیں
نکل پڑتے ہیں آنسو جب کبھی ہم یاد کرتے ہیں
کیا لطف ہے ایسے جینے کا جس کی نہ کسی کو پروا ہو
کس کام کا مرنا وہ مرنا جس کا کہ کسی کو غم نہ ہوا
سہیلؔ ان دوستوں کا جی لگے کس طرح کالج میں
جو درس شوق لیتے ہیں کتاب روئے جاناں سے
سینہ فگار چاک گریباں کفن بہ دوش
آئے ہیں تیری بزم میں اس بانکپن سے ہم
وہ کون دل ہے جہاں میں کہہ دوں جسے کہ یہ آپ کا نہیں ہے
غضب تو یہ ہے کہ میرا دل ہے مگر مرا ہم نوا نہیں ہے
جنگل میں گئے گلشن میں گئے بستی میں گئے صحرا میں گئے
ہر طرح سے بہلایا دل کو پر دل کا دھڑکنا کم نہ ہوا
اے حسرت دل گو وصل ہوا پر شوق ہمارا کم نہ ہوا
جس سے کہ خلش کچھ اور بڑھے وہ زخم ہوا مرہم نہ ہوا
دماغ کو کر رہا ہوں روشن میں داغ دل کے جلا رہا ہوں
اب اپنی تاریک زندگی کا نیا سراپا بنا رہا ہوں
ہر وقت کی آہ و زاری سے دم بھر تو ذرا ملتی فرصت
رونا ہی مقدر تھا میرا تو کس لیے میں شبنم نہ ہوا