سوپنل تیواری
غزل 34
نظم 6
اشعار 13
یہ زندگی جو پکارے تو شک سا ہوتا ہے
کہیں ابھی تو مجھے خود کشی نہیں کرنی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سارا غصہ اب بس اس کام آتا ہے
ہم اس سے سگریٹ سلگایا کرتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اور کم یاد آؤگی اگلے برس تم
اب کے کم یاد آئی ہو پچھلے برس سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
بڑے ہی غصے میں یہ کہہ کے اس نے وصل کیا
مجھے تو تم سے کوئی بات ہی نہیں کرنی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
میرے تعویذ میں جو کاغذ ہے
اس پہ لکھا ہے محبت کرنا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 1
دھیرے دھیرے ڈھلتے سورج کا سفر میرا بھی ہے شام بتلاتی ہے مجھ کو ایک گھر میرا بھی ہے جس ندی کا تو کنارہ ہے اسی کا میں بھی ہوں تیرے حصے میں جو ہے وہ ہی بھنور میرا بھی ہے ایک پگڈنڈی چلی جنگل میں بس یہ سوچ کر دشت کے اس پار شاید ایک گھر میرا بھی ہے پھوٹتے ہی ایک انکر نے درختوں سے کہا آسماں اک چاہئے مجھ کو کہ سر میرا بھی ہے آج بیداری مجھے شب بھر یہ سمجھاتی رہی اک ذرا سا حق تمہارے خوابوں پر میرا بھی ہے میرے اشکوں میں چھپی تھی سواتی کی اک بوند بھی اس سمندر میں کہیں پر اک گہر میرا بھی ہے شاخ پر شب کی لگے اس چاند میں ہے دھوپ جو وہ مری آنکھوں کی ہے سو وہ ثمر میرا بھی ہے تو جہاں پر خاک اڑانے جا رہا ہے اے جنوں ہاں انہیں ویرانیوں میں اک کھنڈر میرا بھی ہے جان جاتے ہیں پتا آتشؔ دھوئیں سے سب مرا سوچتا رہتا ہوں کیا کوئی مفر میرا بھی ہے