Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Tariq Qamar's Photo'

طارق قمر

1975 | لکھنؤ, انڈیا

طارق قمر کے اشعار

1.9K
Favorite

باعتبار

ابھی باقی ہے بچھڑنا اس سے

نا مکمل یہ کہانی ہے ابھی

کوئی شکوہ نہ شکایت نہ وضاحت کوئی

میز سے بس مری تصویر ہٹا دی اس نے

ذہن پر بوجھ رہا، دل بھی پریشان ہوا

ان بڑے لوگوں سے مل کر بڑا نقصان ہوا

اس سلیقے سے مجھے قتل کیا ہے اس نے

اب بھی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ زندہ ہوں میں

ہر آدمی وہاں مصروف قہقہوں میں تھا

یہ آنسوؤں کی کہانی کسے سناتے ہم

عجب غریبی کے عالم میں مر گیا اک شخص

کہ سر پہ تاج تھا دامن میں اک دعا بھی نہ تھی

مزاج اپنا ملا ہی نہیں زمانے سے

نہ میں ہوا کبھی اس کا نہ یہ زمانہ مرا

وہ بھی رسماً یہی پوچھے گا کہ کیسے ہو تم

میں بھی ہنستے ہوئے کہہ دوں گا کہ اچھا ہوں میں

کیا عجب لوگ تھے گزرے ہیں بڑی شان کے ساتھ

راستے چپ ہیں مگر نقش قدم بولتے ہیں

کیسے رشتوں کو سمیٹیں یہ بکھرتے ہوئے لوگ

ٹوٹ جاتے ہیں یہی فیصلہ کرتے ہوئے لوگ

ساتھ ہونے کے یقیں میں بھی مرے ساتھ ہو تم

اور نہ ہونے کے بھی امکان میں رکھا ہے تمہیں

میں چاہتا ہوں کبھی یوں بھی ہو کہ میری طرح

وہ مجھ کو ڈھونڈنے نکلے مگر نہ پائے مجھے

وہ لوگ بھی تو کناروں پہ آ کے ڈوب گئے

جو کہہ رہے تھے سمندر ہیں سب کھنگالے ہوئے

میرے زخموں کا سبب پوچھے گی دنیا تم سے

میں نے ہر زخم کی پہچان میں رکھا ہے تمہیں

کسی جواز کا ہونا ہی کیا ضروری ہے

اگر وہ چھوڑنا چاہے تو چھوڑ جائے مجھے

ایک مدت سے یہ منظر نہیں بدلا طارقؔ

وقت اس پار ہے ٹھہرا ہوا اس پار ہیں ہم

پھر آج بھوک ہمارا شکار کر لے گی

کہ رات ہو گئی دریا میں جال ڈالے ہوئے

اس لہجے سے بات نہیں بن پائے گی

تلواروں سے کیسے کانٹے نکلیں گے

جیسے ممکن ہو ان اشکوں کو بچاؤ طارقؔ

شام آئی تو چراغوں کی ضرورت ہوگی

ہم اس کو ساری عمر اٹھائے پھرا کیے

جو بار میرؔ سے بھی اٹھایا نہ جا سکا

یہ کس کی پیاس کے چھینٹے پڑے ہیں پانی پر

یہ کون جبر کا قصہ تمام کر آیا

اپنی پلکوں کے شبستان میں رکھا ہے تمہیں

تم صحیفہ ہو سو جزدان میں رکھا ہے تمہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے