Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زکریا شاذ کے اشعار

576
Favorite

باعتبار

اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے

کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے

میں چپ رہا تو آنکھ سے آنسو ابل پڑے

جب بولنے لگا مری آواز پھٹ گئی

یہ محبت ہے اسے دیکھ تماشا نہ بنا

مجھ سے ملنا ہے تو مل حد ادب سے آگے

چھوڑ آیا ہوں پیچھے سب آوازوں کو

خاموشی میں داخل ہونے والا ہوں

آخر یہ ناکام محبت کام آئی

تجھ کو کھو کر میں نے خود کو پایا ہے

ایک مدت میں خموشی سے رہا محو کلام

تب کہیں جا کے یہ لفظوں میں معانی آئے

اس سے آگے جاؤ گے تب جانیں گے

منزل تک تو راستہ تم کو لایا ہے

جب بھی گھر کے اندر دیکھنے لگتا ہوں

کھڑکی کھول کے باہر دیکھنے لگتا ہوں

جانے کیا بات ہے پورے ہی نہیں ہوتے ہیں

جانے کیا دل میں خسارے لیے پھرتا ہوں میں

دکھ نہ سہنے کی سزاؤں میں گھرا رہتا ہے

شہر کا شہر دعاؤں میں گھرا رہتا ہے

اک جیسے ہیں دکھ سکھ سب کے اک جیسی امیدیں

ایک کہانی سب کی کیا عنوان کسی کا رکھیں

یہ الگ بات کہ چلتے رہے سب سے آگے

ورنہ دیکھا ہی نہیں تیری طلب سے آگے

تعلق ہی نہیں ہے جن سے میرا

میں ان خدشات میں رکھا ہوا ہوں

زمانے ہو گئے ہیں چلتے چلتے

کہاں جاتا یہ دل کا راستہ ہے

صرف ہم ہی تو نہیں ٹوٹے ہیں

راستوں پر بھی تھکن طاری ہے

کھڑکی تو شاذؔ بند میں کرتا ہوں بار بار

لیکن ہوائے شوق کہ ضد پر اڑی رہے

ان کو بھی اتارا ہے بڑے شوق سے ہم نے

جو نقش ابھی دل میں اترنے کے نہیں تھے

کچھ بھی دیکھا نہیں تھا میں نے جب

ہر نظارہ تھا میری آنکھوں میں

اپنے ہی بس پیچھے بھاگتا رہتا ہوں

خود کو ہی بس آگے نظر کے رکھا ہے

شاذؔ خود میں ہی گنوائے ہوئے خود کو رکھنا

ہاتھ جب تک نہ کوئی اپنی نشانی آئے

کس قیامت کی گھٹن طاری ہے

روح پر کب سے بدن طاری ہے

یہ کیسے موڑ پر میں آ گیا ہوں

کہ چلتا ہوں تو چلتا راستہ ہے

کیسے کہہ دوں بیچ اپنے دیوار ہے جب

چھوڑنے کوئی دروازے تک آیا ہے

پھاندنی پڑ گئی کانٹوں سے بھری باڑ ہمیں

جتنے پیغام تھے پھولوں کی زبانی آئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے