Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چائے پر اشعار

چائے صرف ایک مشروب نہیں

ایک احساس ہے، ایک لمحہ ہے، ایک ساتھی ہے۔ اس کلیکشن میں ہم نے وہ اشعار منتخب کیے ہیں جو چائے کے ساتھ جڑی ہوئی گرم جوشی، یادوں کی خوشبو، اور خاموش مسرت کو بیان کرتے ہیں۔ چاہے وہ بارش میں تنہائی ہو، محفل میں قہقہے ہوں، یا خاموشی میں بھیگی یادیں — یہ منتخب اشعار چائے کی ہر گھونٹ پر ایک تازہ احساس کا لطف دیتے ہیں۔

چھوڑ آیا تھا میز پر چائے

یہ جدائی کا استعارا تھا

توقیر عباس

آج پھر چائے بناتے ہوئے وہ یاد آیا

آج پھر چائے میں پتی نہیں ڈالی میں نے

ترونا مشرا

شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو

چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے

منور رانا

دھیان اک بیتے ملن کے دوار

لب چائے کی پیالی پر

ناصر شہزاد

تیری ٹینشن میں پینا بھول گئی

چائے تو سامنے رکھی ہوئی تھی

زہرا قرار

چائے میں مت ملائیے شکر کہ ہے ضرر رساں

شامل مٹھاس واسطے اپنا لعاب کیجیے

قمر آسی

ایک چائے کیا جان دیتی میں

شکریہ ایسے کہہ رہا تھا وہ

کنول ملک

کبھی تو بیٹھ کے یاروں کے ساتھ چائے پی

کبھی تو بیٹھ کے فرصت سے دن گزارا کر

صابر امانی

کپ میں گرمی دکھا رہی تھی بہت

چائے ساسر میں ڈال دی میں نے

صابر آفاق

چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی

سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی

بشیر بدر

آ میرے ساتھ بیٹھ مرے ساتھ چائے پی

آ میرے ساتھ میرے دلائل پہ بات کر

جبار واصف

ٹھنڈی چائے کی پیالی پی کے

رات کی پیاس بجھائی ہے

رئیس فروغ

پھر چائے میں بسکٹ کی طرح بھوکی سی یہ شام

کھا جائے گی سورج کو سمندر میں ڈبا کر

سوپنل تیواری

سستے میں ان کو بھولنا اچھا لگا ہے آج

چائے کا ایک گھونٹ بھی کافی رہا ہے آج

عمران راہب

گرم موسم میں گرم چائے بھی

بد مزاجوں کا پیار لگتی ہے

بشیر بدر

تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی

دل کا رنج تو دل میں رہا تھا

ناصر کاظمی

ہنس پڑی شام کی اداس فضا

اس طرح چائے کی پیالی ہنسی

بشیر بدر

آ ترے سنگ ذرا پینگ بڑھائی جائے

زندگی بیٹھ تجھے چائے پلائی جائے

شمیم عباس

میں اس کی چائے کی پیالی تھی لیکن

اسے پینے کی جرأت ہی نہیں تھی

رخشاں ہاشمی

اس کا خیال دل میں گھڑی دو گھڑی رہے

پھر اس کے بعد میز پہ چائے پڑی رہے

زکریا شاذ

وہ چائے پی رہا تھا کسی دوسرے کے ساتھ

مجھ پر نگاہ پڑتے ہی کچھ جھینپ سا گیا

عادل منصوری

چائے پینا تو اک بہانہ تھا

آرزو دل کی ترجمانی تھی

ایمان قیصرانی

نہیں ہے گھر میں تری یاد کے علاوہ کچھ

تو کس کے سامنے چائے بنا کے رکھتی ہوں

ریحانہ قمر

پھر کہیں بیٹھ کے پی جائے اکٹھے چائے

پھر کوئی شام کا پل ساتھ گزارا جائے

ایمان قیصرانی

شام کی چائے ان کے ساتھ پیوں

دل کی حسرت بہت پرانی ہے

دنیش کمار

چائے کے تلخ گھونٹ سے اٹھتا ہوا غبار

وہ انتظار شام وہ منظر کہاں گیا

سدرہ سحر عمران

چائے کی برکت سے خالی ہیں

دیر میں اکثر اٹھنے والے

سہیل آزاد

آپ اخبار دیکھیے تب تک

میں ابھی چائے لے کر آتی ہوں

رخشاں ہاشمی

چائے کے کپ میں ابلی

اخباروں کی سرخی دھوپ

ستپال خیال

میں نے چائے جو پیش کی تھی اسے

اک تکلف میں پڑ گیا تھا وہ

کنول ملک

شب ڈھلی اٹھنے لگے ہوٹل سے لوگ

چائے کا یہ دور اس کے نام پر

ناصر شہزاد

تھوڑی دیر میں ٹرین نکلنے والی ہے

سن تھوڑی ہی دیر میں چائے آتی ہے

وصاف باسط

شاعری چائے تری یاد چمکتے جگنو

بس یہی چار طلب روز مری شام کے ہیں

سنجو شبدتا

چائے میں ڈال کر عشاق اسے پی جاتے

در حقیقت لب معشوق جو شکر ہوتا

ظریف لکھنوی

چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ

یاروں کو عہد رفتہ کے قصے سنائیے

سید فضل المتین

ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے

کیا وہاں اب بھی آیا کرتے تھے

وصی شاہ

نام میرا یاد کرکے چسکیوں کے بیچ میں

کیا ہوئی ہے چائے کے کپ میں ترے ہلچل کبھی

سندیپ ٹھاکر

چائے میرے ہاتھ سے گرنے والی تھی

اس نے اس انداز سے گھورا توبہ ہے

ثمینہ ثاقب

گرم چائے پی ہے تیری یاد کی

تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا

معین گوہر

ہیں دسترس میں ابھی بھی طاہرؔ اٹھا کے اب اس کو پی بھی ڈالو

مشاہدوں میں ہی ہو گئی گر یہ ٹھنڈی چائے تو کیا کرو گے

طاہر عدیم

سامنے رکھ کے چائے کی پیالی

چسکی چسکی تری کمی چکھی

ناہید اختر بلوچ

بھاپ اڑاڑ کے میری چائے سے

اس کا پیکر بناتی رہتی ہے

محمد علی ایاز

لو چائے میں بھی چائے کی پتی نہیں ڈالی

تم کو تو محبت کے سوا کچھ نہیں آتا

شیام وششٹ شاہد

شام کی چائے کا وعدہ وہ ادھر بھول گئے

ہم ادھر صبح سے تیار ہوئے بیٹھے ہیں

پنہاں

میں نے پوچھا ہے کہ چائے کے لیے وقت کوئی

ہنس کے بولی ہے اشارے سے گھڑی ٹھیک نہیں

عمران راہب

چائے میں اس کے پستاں تھے

میرا بدن پانی میں تھا

عادل منصوری

ایسی چائے کبھی نہ پی میں نے

سچ بتا تو نے اس میں کیا ڈالا

ارشد محمود ارشد

روز ہم چائے ساتھ پیتے تھے

بات آگے کبھی بڑھی ہی نہیں

سعدیہ سویرا
بولیے