aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "طہٰ"
نظم طبا طبائی
1854 - 1933
شاعر
طہٰ حسین
مصنف
محمد طٰہ خان
طہٰ جابر فیاض العلوانی
سید طہٰ فائق حسین
مدیر
طٰہٰ آفندی
طٰہ شمیم
طٰہ عبداللہ
ناشر
طہٰ نسیم
مولوی محمد طہٰ
طٰہٰ شمیم
محمد عفیف طٰہٰ
طہ یٰسین
ڈاکٹر محمد طہٰ فاروقی
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخروہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
ہم نے کہا، ’’تعجب ہے! تم اس بازاری زبان میں اس آب نشاط انگیز کا مضحکہ اڑا رہے ہو، جو بقول مولانا، طبع شورش پسند کو سرمستیوں کی اور فکر عالم آشوب کو آسودگیوں کی دعوت دیا کرتی تھی۔‘‘ اس جملے سے ایسے بھڑکے کہ بھڑکتے چلے گئے۔ لال پیلے ہو کر بولے، ’’تم نے لپٹن کمپنی کا قدیم اشتہار ’چائے سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہے، دیکھا ہوگا۔ مو...
سوگندھی: اٹھارہ روپے بھاڑا ہے اس کھولی کا اور دس روپے بھاڑا ہے میرا(مادھو کے انداز میں)۔۔۔ اور جیسا تجھے معلوم ہے ڈھائی روپے دلال کے باقی رہے ساڑھے سات۔۔۔ رہے نا ساڑھے سات۔۔۔ پگلے تیرا میرا نا طہ ہی کیا ہے‘ کچھ بھی نہیں۔۔۔ بس یہ دس روپے ہیں جو تیرے اور میرے بیچ میں بچ رہے ہیں۔۔۔ آدونوں مل کر کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اور مجھے تیری۔۔۔...
کسی نے ابجد کے قاعدے سے انہیں اشخاص وامم سے متعلق سنین قرار دیا۔ بعض مترجموں نے انہیں اسمائے رسول سمجھا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ یہ دوسورتوں کے درمیان حد فاصل کا کام دیتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ یہ حروف چند کلمات کی طرف اشارے ہیں۔ بعض اہل علم کے نزدیک حروف مقطعات اللہ اور رسول کے درمیان ’’راز‘‘ ہیں۔ ایک اور تو جیہ یہ ہے کہ عربی زبان چوں کہ عبرانی سے ...
وہی ہے اختلاف باہمی کی انجمن اب توفقط شادی کے دن اس نے ملائی ہاں میں ہاں میری
ریختہ نے یہاں رزمیہ طبع زاد و ترجمہ شدہ کتابوں کا ایک انتخاب پیش کیا ہے۔
یوں تو ریختہ کی ای بک لائبریری میں اردو کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے جس میں انواع و اقسام کی کتابیں شامل ہیں، لیکن ریختہ نے اپنے قارئین کی سہولت کے لئے ایسی سب سے بہتر سو کتابوں کا انتخاب کیا ہے جو اردو زبان و ادب کی سمت و رفتار طے کرتی ہیں۔
نام خواجہ محمد امیر، تخلص صباؔ ۔۱۴؍اگست۱۹۰۸ ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری رہے۔ بھر جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ۱۹۷۳ء تک کام کرتے رہے۔ غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام’’اوراق گل‘‘ اور ’’چراغ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پورے دیوان غالب کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی کوئی بارہ سو رباعیات کو اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے جس کا ایک مختصر انتخاب ’دست زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ صبا صاحب کے ترجمے کی دوسری کتاب’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی مرثیوں کی تین کتابیں ’سربکف‘، ’شہادت‘اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ صبا اکبرآبادی ۲۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
ताहाطہٰ
word from Quran-meaning unknown
بچوں کے فیض احمد فیض
شخصیت
جھارکھنڈ میں اردو افسانہ
افسانہ تنقید
الایام
سوانح حیات
خفیہ کوک شاستر
کوکا پنڈت
جنسیات
حضرت عثمان تاریخ اور سیاست کی روشنی میں
تاریخ اسلام
خدائی وعدہ
ناول
ادب الجاہلی
ترجمہ
ہومیوپیتھک
ڈاکٹر ریکویگ
ہومیوپیتھی
ہمدرد مطب
حکیم عبدالحمید دہلوی
طب
پریکٹس آف میڈیسن
ڈاکٹر دولت سنگھ
تاج الحکمت
ہر چند ملتانی
طب اکبر اردو
محمد اکبر ارزانی
مطبوعات منشی نول کشور
مصباح الحکمت
محمد فیروز الدین
بیاض کبیر
حکیم محمد کبیرالدین
(چھوٹی بچی کے ہنسنے کی آواز)بلقیس: کھڑی ٹھی ٹھی ہنس رہی ہے تجھ سے جو کام کہا ہے وہ کر۔ یاد رکھ وہ کان اینٹھوں گی کہ بِلبلا اُٹھے گی(لہجہ بدل کر)۔۔۔۔۔۔جا میری بہن! بڑے طا ق سے میری چوڑیوں والا بکس اُٹھالا پر ایسے کہ امی جان کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ جا! میری اچھی بہن جو ہوئی۔
’’نورجہاں تجھے بھی جانا ہوگا۔۔۔ نہیں میں بھی جاؤں گی۔ مجھے اس وقت پیسوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ کل سے میرا بچہ بخار میں تپ رہا ہے۔ کسی طرح سے بھی دوا کا انتظام کرنا ہے۔‘‘ میمونہ نے ضد کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا بابا! تو چلی جا۔۔۔ جا! دیر نہ کر۔۔۔ اور اس طرح آپس میں فیصلہ کرکے پانچ عورتیں بڑے تجسس اور فکر کے ساتھ گولا کے پیچھے پیچھے چل دیں۔ ہر ایک کے دل میں سو سو سوال، وہ سوچ رہی تھی۔ آخر دوسرے کے غم کو، جس سے نہ کوئی رشتہ نا طہ، اس شدت سے کیسے محسوس کریں کہ بین کرنے لگیں، یہ کیسے ممکن ہوگا۔ مگر پھر روپیوں کی مجبوری انہیں برابر تقویت پہنچاتی رہی۔۔۔ یا خدا! آج ہم پر یہ کیسا وقت آ گیا ہے، جو ہاتھ ہمیشہ دینے کے لیے اٹھتے تھے۔ آج لینے پر مجبور ہیں۔ وقت اور حالات پل بھر میں کس طرح بدل جائیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ آخر کوئی تو بتائے ہمارا قصور کیا تھا۔ کیوں ہمیں برباد کیا گیا، مذہب کے نام پر، سیاست کے نام پر، فرقے کے نام پر۔۔۔ کس کس کے نام پر آخر کب تک لوٹا جاتا رہےگا۔۔۔ یوں برباد کیا جا تا رہےگا۔۔۔ یہ انسان کو کیا ہو گیا ہے۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ تاثر ات کے ہجوم نے ان کے لب بستہ کر دئے تھے۔ پانچوں نے ایک ساتھ اداس نظروں سے آسمان کی جانب دیکھا اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں پانی دیکھ کر، آپس میں کسی نے کسی کا کندھا دبایا کسی نے ہاتھ ہاتھ میں لے کر اور کسی نے پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر ایک دوسرے کو ڈھارس بندھائی۔ اس کے باوجود آنسو کا ایک قطرہ ان کی آنکھوں میں نہیں تھا۔ وہ تو سوکھ گئے تھے۔ آدھا راستہ انہیں تفکرات اور غم کے سایوں میں گیر کر طے ہو گیا۔
اس کے باپ کی ایسی ہی ٹیس سے موت واقع ہوئی تھی۔ ٹولے کی سامنے والی سڑک سے بڑے گھر کی سواری نکل رہی تھی۔ شراب کے نشے میں اس کا باپ اپنے گھر کے سامنے چارپائی پر بیٹھا رہ گیا تھا۔ اس وقت تو سواری نکل گئی تھی مگر شام کو بلاوا آ گیا تھا۔ بڑے گھر کی دالان کے ستون سے باندھ کر اس پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے تھے کہ اس کا باپ نیم مردہ ہو گیا تھا۔ کسی کم ذ ات کی یہ مجال کہ سامنے سے اشراف گزریں اور وہ چارپائی پر بیٹھا رہ جائے۔ یہ تو خوش آئند بات نہیں ہے۔ یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ بڑے گھر کے لوگوں کا خیال ہے کہ۔۔۔ اس طرح مذہب کا خطرے میں پڑنا لازم ہے اور جب مذہب خطرے میں پڑ ے گا تو معاشرتی نظام کو درہم برہم ہونے سے کوئی نہیں بچا پائےگا۔ ہر کسی کے لیے حد مقرر ہے۔۔۔ آج معاشرے میں سکون او ر امن و امان کا فقدان اس لیے ہے کہ طے شدہ کام طے شدہ حدوں کے اندر نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ایسی حالت میں افراتفری مچنا فطری ہے۔ مذہب کا پیما نہ ٹوٹنا لازمی ہے اور جب یہ پیمانہ ٹوٹےگا تو معاشرے کا تانا بانا بکھر جائےگا۔۔۔
جیسے لوگ سرمایہ دارانہ نظام کو نہیں سمجھتے، ان باتوں سے کچھ بننانہیں ہے۔ ناحق میں اپنے دماغ کو پریشان کر رہا ہوں، اب تم شوہر والی ہو، ایک بچے کی ماں ہو اور تمھارا گھر ہے اور معلوم نہیں تم کیا ہو اور کیا ہو جاؤگی، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمھارا شوہر لوہے کا بیوپار کرتا ہے، آج کل لوہے کی اشد ضرورت ہے اور لوہے کی قیمت تو سونے کے برابر ہے، آج کل تمھاری چا...
دوسرے مکتوب میں دے ڈالا شادی کا پیامعشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
جو مے خانے میں ساقی کی جگہ خرکار بیٹھے ہیںتو مسجد میں بھی مولانا عذاب النار بیٹھے ہیں
’’معلوم نہیں۔‘‘ اور واقعی انہیں کچھ معلوم نہ تھا۔ ان دنوں اکثر سرحد پار سے مہاجرین، کسی ٹھکانے، سرونٹ کوارٹر کی تلاش میں، گھر گھر گھنٹیاں بجاتے۔ مالی سلیم اباجی کے دفتر پہنچ گیا تھا اور وہاں سے گھر۔ دفتر اور گھر دونوں جگہ مالی گیری کرتا۔ خانہ باغ کے ساتھ ساتھ کوارٹروں کی لمبی قطار تھی۔ تعداد میں کل آٹھ کوٹھریاں تھیں۔ ایک آدھ کے سوا ساری پکی اینٹ ...
وہ اس کا دل رکھتے ہوئے گاڑی سے اتر گیا اور اندر گیا۔ اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔ نیم تاریکی تھی۔ گویا بیوی سو چکی تھی۔ آج تو اسے کلب بھی جانا تھی۔ تھک گئی ہوگی۔ وہ یہ سوچتے ہو ئے ڈرسنگ روم کی طر ف بڑھ گیا۔ کپڑے اتاڑے اور نہانے چلا گیا۔ اب نائٹ سوٹ میں وہ خود کو آزاد پنچھی محسوس کر رہا تھا۔ اپنے قد کے برابر آئینے کے سامنے کھڑے اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پ...
حدتوں سے آبشاریں ابل پڑتی ہیں، تو ہم Niagra falls, victoria falls , chilnualna falls , sawat falls، کے حسین نظارو ں کو جاتے ہیں۔ اس کی طا قت سے تو پہاڑوں، کہساروں کے سینے شق ہو جاتے ہیں۔ خاک کی مجال کہ اس کے سامنے چٹان بننے کی جرأت کر سکے اور جو بنے وہ فرعون ہے، فرعون خدائی دعویدار۔۔۔پتھر سے ذرا ادھر ہٹ کر اس کے قریب اس نے اس کے لمبے گھنگھریالے بالوں کی ایک لٹ کو اپنی انگلی میں لپیٹا اور اس کے گال پہ لاکر چھوڑ دیا۔
طہٰ میاں کی سالگرہ آئی اور ڈھیر سارے تحفے ساتھ لائی۔ خود بخود گھومنے والی اور سائرن بجانے والی کار، ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی کشتی، ایک چھوٹا سا بٹوے کی شکل کا ٹیلی ویژن جو جیب میں رکھا جا سکتا تھا۔ چھوٹا سا کیمرہ اور دوربین، چھوٹی سی چھرے والی بندوق وغیرہ وغیرہ۔ اتنے اچھے اچھے اور دلچسپ کھلونوں میں بے چاری پرانی گیند کو کون پوچھتا۔ گیند بے چاری ا...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books