aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "وفات"
عزیز بانو داراب وفا
1926 - 2005
شاعر
میلہ رام وفاؔ
1895 - 1980
مقصود وفا
born.1962
وفا ملک پوری
1923 - 2003
وفا نقوی
born.1983
امۃ الحئی وفا
مصنف
محب وفا
born.1984
عبد الہادی وفا
وفا شاہجہاں پوری
گلزار وفا چودھری
وفا براہی
1917 - 1993
محب الرحمن وفا
born.1964
وفا نیازی
born.1936
نول رائے وفا
وفا راشدی
1926 - 2003
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتییہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
تمہاری قبر پرمیں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیںوفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
جب دل کی وفات ہو گئی ہےہر چیز کی رات ہو گئی ہے
اس وقت منشی کریم بخش کی عمر پینسٹھ سے کچھ اوپر تھی۔ بڑھاپے میں آدمی عموماً کم گو اور حلیم ہو جاتا ہے مگر وہ جوانی میں بھی ایسی ہی طبیعت کا مالک تھا۔ دوسروں کی خدمت کرنے کا شوق اس عمر میں بھی ویسے کا ویسا ہی قائم تھا۔خزانے کا بڑا افسر منشی کریم بخش کے ایک مربی اور مہربان جج کا لڑکا تھا۔ جج صاحب کی وفات پر اسے بہت صدمہ ہوا تھا۔ اب وہ ہر مہینے ان کے لڑکے کو سلام کرنے کی غرض سے ضرور ملتا تھا۔ اس سے اسے بہت تسکین ہوتی تھی۔ منشی کریم بخش انھیں چھوٹے جج صاحب کہا کرتا تھا۔
س انتخاب میں اخترالایمان کی چند نظمیں شامل ہیں۔ اردو میں عام طور پرغزل کی صنف کو زیادہ سراہا گیا اور تقریباً ہر شاعر کی کوشش ہوتی ہے کی وہ غزل کہے مگر اخترالایمان نے غزل کے بجائے نظم کو چنا اور نظم کے ایک کامیاب شاعر کی صورت میں مقبول ہوئے ان کی سب سے مشہور نظم " ایک لڑکا ہے" جو اس انتخاب کا حصّہ ہے۔ ہم ان کے یوم وفات پراس انتخاب کے ذریعہ ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔
لفظ مرثیہ عربی لفظ ’رثا‘ سے مشتق جس کے معنی ہیں کسی کی وفات پر رنج و غم ظاہر کرنااور رونا۔ اردو شاعری کی ایک صنف کی حیثیت سے کسی بھی عزیز کی وفات پر اظہار غم سے |متعلق نظم کو مرثیہ کہا جا سکتا ہے
انتظار کی کیفیت زندگی کی سب سے زیادہ تکلیف دہ کیفیتوں میں سے ایک ہوتی ہےاوریہ کیفیت شاعری کےعاشق کا مقدر ہے وہ ہمیشہ سے اپنے محبوب کے انتطار میں لگا بیٹھا ہے اور اس کا محبوب انتہائی درجے کا جفا پیشہ ،خود غرض ، بے وفا ، وعدہ خلاف اوردھوکے باز ہے ۔ عشق کے اس طے شدہ منظرنامے نے بہت پراثر شاعری پیدا کی ہے اور انتظار کے دکھ کو ایک لازوال دکھ میں تبدیل کر دیا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور انتظار کی ان کفیتوں کو محسوس کیجئے ۔
वफ़ातوفات
death, expiration, quietus
मृत्यु, मरण, मौत ।
انسانیت موت کے دروازے پر
ابوالکلام آزاد
اسلامیات
نسخہ ہائے وفا
فیض احمد فیض
کلیات
وفیات مشاہیر پاکستان
محمد اسلم
سوانح حیات
گورستان
احسان دانش
مرثیہ
وفات نامہ
احمد علی عجیب
بنگال میں اردو
تاریخ
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
محمد بدیع الزماں
شرح
نعم
کرم حیدری
نعت
گونج
مجموعہ
وفات مسیح و نزول مسیح
مولوی محمد علی
مرثیہ بر وفات محمد علی
خواجہ عزت حسین
تاریخہائے پیدائش و وفات معاصران
محمد سعید حسرت عظیم آبادی
اشعار
دشت وفا
احمد ندیم قاسمی
اب تو معمول سا بن گیا ہے کہ کہیں تعزیت یا تجہیزوتکفین میں شریک ہونا پڑے تو مرزا کوضرورساتھ لیتا ہوں۔ ایسے موقعوں پرہرشخص اظہارِہمدردی کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ قطۂ تاریخِ وفات ہی سہی۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں چُپ لگ جاتی ہے، جس سے بعض اوقات نہ صِرف پس ماندگان کوبلکہ خُود مجھے بھی بڑا دکھ ہوتا ہے۔ لیکن مرزا نے چپ ہونا سِیکھا ہی نہیں۔ بلکہ یوں...
ہم کو ان سے وفا کی ہے امیدجو نہیں جانتے وفا کیا ہے
غالب اور ہم اگر جواب میں کہیں،کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیان کے لئے
گیارہ پر مصالحت ہو گئی۔ لالہ جی وعدہ کر کے چلے گئے لیکن شام کو ایک دوست نے مجرا سننے کی دعوت دی۔ اب بچارے اس دعوت کوکیسے رد کرتے جب ایک آدمی آپ کو خاطر سے بلاتا ہے تو یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ آپ اس کی دعوت نا منظور کردیں۔ وہ آپ سے کچھ مانگتا نہیں۔ آپ سے کسی طرح کی رعایت کا خواستگار نہیں۔ محض دوستانہ بے تکلفی سے آپ کو اپنی بزم میں شرکت کی دعوت دیتا ...
شہرکے جتنے بڑے افسر تھے سب چونی لال کے واقف تھے۔ بعض کی واقفیت صرف یہیں تک محدود تھی کہ ہر ہفتے ان کے یہاں جو انگریزی اور امریکی پرچے آتے ہیں،شہر میں کوئی ایک موڈرن نیوز ایجنسی ہے،اس کا مالک چونی لال ہے، وہ بھیجتا ہے اور بل کبھی روانہ نہیں کرتا۔ بعض ایسے بھی تھے جو اس کوبہت اچھی طرح جانتے تھے۔ مثال کے طور پر ان کو معلوم تھا کہ چونی لال کا گھر بہت ہ...
غدر کے بعد مرزا کی معاشی حالت دو برس تک دگر گوں رہی۔ آخر نواب یوسف علی خان رئیس رامپور نے سو روپیہ ماہانہ تاحیات وظیفہ مقرر کردیا۔ نواب کلب علی خان نے بھی اس وظیفے کو جاری رکھا۔ نواب یوسف علی خان کی وفات کے چند روز بعد نواب کلب علی خاں لیفٹنٹ گورنر سے ملنے بریلی کو روانہ ہوئے تو چلتے وقت مرزا صاحب سے کہنے لگے، ’’خدا کے سپرد۔‘‘مرزا صاحب نے کہا، ’’حضرت! خدا نے مجھے آپ کے سپرد کیا ہے۔ آپ پھر الٹا مجھ کو خدا کے سپرد کررہے ہیں۔‘‘
احمد دین کو ظاہر ہے کہ اپنے باپ کی وفات کا بہت صدمہ ہوا۔۔۔ وہ کئی دن نڈھال رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔۔۔ بی اے پاس تھا،اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔۔۔ مگر اب سارا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ اس کے باپ نے ایک پھوٹی کوڑی بھی اس کےلیےنہیں چھوڑی تھی۔ مکان۔۔۔ جس میں وہ تنہا رہتا تھا۔۔۔ رہن تھا۔یہاں سے اس کو کچھ عرصے کے بعد نکلنا پڑا۔ گھر کی مختلف چیزیں بیچ کر اس نے چار پانچ سو روپے حاصل کیے اور ایک غلیظ محلے میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا مگر پانچ سو روپے کب تک اس کا ساتھ دے سکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ایک برس تک بڑی کفایت شعاری سے گزارا کر لیتا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوتا۔
نواب سلیم اللہ خاں بڑے ٹھاٹ کے آدمی تھے۔ اپنے شہر میں ان کا شمار بہت بڑے رئیسوں میں ہوتا تھا۔ مگر وہ اوباش نہیں تھے، نہ عیش پرست۔ بڑی خاموش اور سنجیدہ زندگی بسر کرتے تھے۔ گنتی کے چند آدمیوں سے ملنا اور بس وہ بھی جو ان کی پسند کے ہیں۔ دعوتیں عام ہوتی تھیں۔ شراب کے دور بھی چلتے تھے مگر حدِ اعتدال تک۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال کے قائل تھے۔ ان کی عمر پچپن برس کے لگ بھگ تھی۔ جب وہ چالیس برس کے تھے توان کی بیوی دل کے عارضے کے باعث انتقال کرگئی، ان کو بہت صدمہ ہوا،مگر مشیتِ ایزدی کو یہی منظور تھا۔ چنانچہ اس صدمے کوبرداشت کرلیا۔ ان کے اولاد نہیں ہوئی تھی۔۔۔ اس لیے وہ بالکل اکیلے تھے۔۔۔ بہت بڑی کوٹھی جس میں وہ رہتے تھے، چار نوکر تھے جو ان کی آسائش کا خیال رکھتے اور مہمانوں کی تواضع کرتے۔ اپنی بیوی کی وفات کے پندرہ برس بعد اچانک ان کا دل اپنے وطن سے اچاٹ ہوگیا۔ انھوں نے اپنے چہیتے ملازم معظم علی کو بلایا اور اس سے کہا، ’’دیکھو کوئی ایسا ایجنٹ تلاش کرو جو ساری جائیداد مناسب داموں پربکوادے۔‘‘
مرزاعبدالودود بیگ کہتے ہیں کہ چھوٹے بڑے اوراچھے بُرے کی قید نہیں، genuine شاعر کی پہچان ہی یہ ہےکہ وہ اپنے علاوہ صرف میراورغالب کواوپری دل سے شاعر تسلیم کر لیتا ہے۔ وہ بھی محض اس لیےکہ وہ بروقت وفات پا چکےہیں۔ بروقت سےمراد اِن کی پیدائش سے پہلے۔ صاحبو، غزل کی زمین کی ہمیشہ یہ خاصیت رہی ہے
اکبر کے مجموعہ کلام پر تفصیلی تبصرہ کے لئے تو دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ چھپا ہوا کلام اس وقت تک تین جلدوں میں ہے اور جو حصہ ابھی غیر مطبوعہ ہے وہ بھی اتنا ہے کہ اگر دو جلدیں نہیں تو ایک بھر کے لئے تو بالکل کافی ہے۔ رسالہ کی محدود گنجائش، اس سارے ذخیرہ پر اجمالی نظر بھی ممکن نہیں۔ یہاں صرف اس حصہ کلام پر نظر کی جائے گی جو انہوں نے تقریبا 1914ء سے لے ک...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books