aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "پرواہ"
وجیندر سنگھ پرواز
born.1943
شاعر
پرواز جالندھری
نصیر پرواز
1940 - 2021
درشن دیال پرواز
born.1935
مصنف
دیپک پروہت
born.1954
اعجاز پروانہ
born.1972
ظفر احمد پرواز
مغل فاروق پرواز
پروانہ رودولوی
born.1933
الطاف پرواز
1920 - 1992
مجیب پرواز
born.1960
جتندر پرواز
شاہ ضیا الدین الحسینی پروانہ برہانپوری
1727 - 1787
پرواز نورپوری
پرکاش پروہت
born.1948
یہ ستائش کی تمنا یہ صلے کی پرواہکہاں لائے ہیں یہ ارمان ذرا دیکھ تو لو
یہ کشمیر کی لڑائی بھی عجیب وغریب تھی۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑا خراب ہوگیا ہو۔پچھلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا۔ مارنا اور مرنا جانتا تھا۔ چھوٹے بڑے افسروں کی نظروں میں اس کی بڑی توقیرتھی، اس لیے کہ وہ بڑا بہادر، نڈر اورسمجھدارسپاہی تھا۔ پلاٹون کمانڈر مشکل کام ہمیشہ اسے ہی سونپتے تھے اور وہ ان سے عہدہ برآ ہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کا ڈھنگ ہی نرالا تھا۔ دل میں بڑا ولولہ، بڑا جوش تھا۔ بھوک پیاس سے بے پروا صرف ایک ہی لگن تھی، دشمن کا صفایا کردینے کی، مگر جب اس سے سامنا ہوتا، تو جانی پہچانی صورتیں نظر آتیں۔ بعض دوست دکھائی دیتے، بڑے بغلی قسم کے دوست، جو پچھلی لڑائی میں اس کے دوش بدوش، اتحادیوں کے دشمنوں سے لڑے تھے، پر اب جان کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔
نہیں دنیا کو جب پروا ہماریتو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
جب اس نے لڑکی کو درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے دیکھا تو اس نے سوچا کہ دنیا میں سب سے خوش یہی ہے جسے دھوپ کی پرواہ ہے نہ موسم کی۔سریندر پسینے میں لت پت تھا۔ اس کی بنیان اس کے جسم کے ساتھ بہت بری طرح چمٹی ہوئی تھی۔ وہ کچھ اس طرح محسوس کررہا تھا جیسے اس کے بدن پر کسی نے موبل آئل مل دیا ہے لیکن اس کے باوجود جب اس نے درخت کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی لڑکی کو دیکھا تو اس کے جسم میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس کے پسینے کے ساتھ گھل مل جائے، اس کے مساموں کے اندر داخل ہو جائے۔
موتی: ’’جان سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔‘‘ہیرا: ’’اس کی مجھے پرواہ نہیں۔ یوں بھی مرناہے ذرا سوچو اگر دیوار گر جاتی، تو کتنی جانیں بچ جاتیں۔ اتنے بھائی یہاں بند ہیں کسی کے جسم میں جان بھی نہیں ۔ دوچار دن یہی حال رہا تو سب مرجائیں گے۔‘‘
پان ہندوستانی تہذیب کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔ اس کے کھانے اور کھلانے سے سماجی زندگی میں میل جول اور یگانگت کی قدریں وابستہ ہیں لیکن شاعروں نے پان کو اور بھی کئی جہتوں سے برتا ہے ۔ پان کی لالی اور اس کی سرخی ایک سطح پر عاشق کے خون کا استعارہ بھی ہے ۔ معشوق کا منھ جو پان سے لال رہتا ہے وہ دراصل عاشق کے خون سے رنگین ہے ۔ شاعرانہ تخیل کے پیدا کئے ہوئے ان مضامین کا لطف لیجئے ۔
کتاب کو مرکز میں رکھ کر کی جانے والی شاعری کے بہت سے پہلو ہیں ۔ کتاب محبوب کے چہرے کی تشبیہ میں بھی کام آتی ہے اورعام انسانی زندگی میں روشنی کی ایک علامت کے طور پر بھی اس کو برتا گیا ہے ۔ یہ شاعری آپ کو اس طور پر بھی حیران کرے گی کہ ہم اپنی عام زندگی میں چیزوں کے بارے میں کتنا محدود سوچتے ہیں اورتخلیقی سطح پروہی چھوٹی چھوٹی چیزیں معانی وموضوعات کے کس قدر وسیع دائرے کو جنم دے دیتی ہیں ۔ کتاب کے اس حیرت کدے میں داخل ہوئیے ۔
تحفے پر یہ شعری انتخاب آپ کے لئے ہماری طرف سے ایک تحفہ ہی ہے ۔ آپ اسے پڑھئے اور عام کیجئے ۔ عام زندگی میں تحفہ لینے اور دینے سے رشتے پروان چڑھتے ہیں ، تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور نئے جذبوں کی آبیاری ہوتی ہے ۔ لیکن عاشق اور معشوق کے درمیان تحفہ لینے اور دینے کی صورتیں ہی کچھ اور ہیں ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب آپ کو اور بھی کئی دلچسپ جہتوں تک لے جائے گا ۔
परवाहپرواہ
care, concern, attention
پرواز
اے پی جے عبد الکلام
خودنوشت
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
محمد ایوب خاں
شاہنامہ کربلا
سید مثیم تمار پروانہ رودولوی
رزمیہ
مخدوم علی مہائمی: حیات آثار و افکار
عبدالرحمٰن پرواز اصلاحی
نوسٹرا ڈیمس کی سچی اور حیرت انگیز پیش گوئیاں
علم نجوم
شاہ وجیہ الدین علوی گجراتی: احوال آثار
سوانح حیات
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
مفتی صدرالدین آزردہ
شاعری تنقید
پرواز کا موسم
عقیل نعمانی
مجموعہ
حضرت مخدوم علی مہائمی حیات، آثار و افکار
شفیق الرحمان
نثر
پرواز کے بعد
خاک پروانہ
پریم چند
افسانہ
پرواز خیال
الیاس سیتا پوری
ناول
میں نے کہا، ’’میں بزنس کروں گا، روپیہ کماؤں گا اور اپنی کار لے کر یہاں ضرور آؤں گا، پھر دیکھنا۔‘‘ اب کے داؤ جی نے میری بات کاٹی اور بڑی محبت سے کہا، ’’خدا ایک چھوڑ تجھے دس کاریں دے لیکن ایک ان پڑھ کی کار میں نہ میں بیٹھوں گا نہ ڈاکٹر صاحب۔‘‘میں نے جل کر کہا، ’’مجھے کسی کی پرواہ نہیں ڈاکٹر صاحب اپنے گھر راضی، میں اپنے یہاں خوش۔‘‘
اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ مر جاتے اور کرپال کور بچ جاتی تو ترلوچن کے لیے اچھا تھا۔۔۔ وہاں دیولالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو وہ بھی اچھا تھا کہ ترلوچن کے لیے میدان صاف ہو جاتا۔ خاص طور پر نرنجن اس کے راستے میں ایک روڑا ہی نہیں ، بہت بڑا کھنگر تھا۔ چنانچہ جب کبھی کرپال کور سے اس کی بات ہو...
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔ راستے میں وہ س...
برہمن دیوتا کا بھی اس کے پراشچت کرانے میں فائدہ تھا۔ بھلا ایسے موقع پر کب چوکنے والے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بدّھو کو ہتھیا لگ گئی۔ برہمن بھی اس سے جل رہے تھے۔ کسر نکالنے کا موقع ملا۔ تین ماہ تک بھیک مانگنے کی سزادی گئی۔ پھر سات تیرتھوں کی جاترا، اس پر پانچ سو برہمنوں کا کھلانا اور پانچ گایوں کا دان۔ بدّھو نے سنا تو ہوش اڑ گئے۔ رونے پیٹنے لگا، تو سزا ...
مدن کھسیانا ہو کر رہ گیا۔ بابو دھنی رام کی ڈانٹ سے باقی بچے تو پہلے ہی اپنے اپنے بستروں میں یوں جا پڑے تھے جیسے دفتروں میں چھٹیاں سٹارٹ ہو تی ہیں۔ لیکن مدن وہیں کھڑا رہا۔ احتیاج نے اسے ڈھیٹ اور بے شرم بنا دیا تھا لیکن اس وقت جب اندو نے بھی اسے ڈانٹ دیا تو وہ روہانسا ہو کر اندر چلا گیا۔ دیر تک مدن بستر میں پڑا کسمساتا رہا لیکن بابو جی کے خیال سے اند...
لڑکی نے تیکھی تیکھی نظروں سے اخلاق کی طرف دیکھا اور بیٹھ گئی۔ بیٹھ کر اس نے اپنی سہیلی سے سرگوشی میں کچھ کہا۔ دونوں ہولے ہولے ہنسیں اورفلم دیکھنے میں مشغول ہوگئیں۔فلم کے اختتام پر جب قائداعظم کی تصویر نمودار ہوئی تو اخلاق اٹھا۔ خدا معلوم کیا ہوا کہ اس کا پاؤں لڑکی کے پاؤں کے ساتھ ٹکرایا۔ اخلاق ایک بار پھر سرتا پا معذرت بن گیا،’’معافی چاہتا ہوں۔۔۔جا...
رنج رکھا تھا محن رکھا تھا غم رکھا تھاکس کو پرواہ تھا اور کس میں یہ دم رکھا تھا
سب کچھ ایسے متحیر ہوئے کہ کسی کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا۔ مگر جب میں برآمدہ کی سیڑھیوں سے اتر رہا تھا تو ایک قہقہہ کی آواز آئی۔ رقابت اور جلن کی لہر میرے اندر دوڑ گئی۔ وہ مزے کر رہی تھی۔ اسے میری کیا پرواہ تھی۔ اسے تو کسی اور سے محبت تھی۔ یہ خیال ایک آرے کی طرح میرے جسم کو کاٹتا ہوا دل کے پار ہوگیا۔ میرا دماغ معطل ہو چکا تھا، میری ٹانگیں پارے کی طر...
لیکن جوں جوں شام ہوتی گئی اس کا احساسِ ذلّت بھی غائب ہوتا گیا۔ بچپن کی بے تاب کرنے والی بھوک جسم کا خون پی پی کر اور بھی بے پناہ ہوتی جاتی تھی۔ آنکھیں بار بار سکوروں کی طرف اٹھ جاتیں۔ اس نے مشورتاً ٹامی سے کہا، ’’کھاؤ گے کیا؟ میں تو بھوکا ہی لیٹ رہوں گا۔‘‘ ٹامی نے کوں کوں کرکے شاید کہا، ’’اس طرح کی ذلتّیں تو ساری زندگی سہنی ہیں پھر ذرا دیر میں دم ہ...
یعنی جس نے امید قطع کرلی اس کو پھر دنیا کے عیش و آرام کی پروا نہیں رہتی، جو شاخ درخت سے کاٹ لی جاتی ہے اس کو بہار کا انتظار نہیں ہوتا۔روشندلاں، حباب صفت دیدہ بستہ اند
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books