aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "چاچا"
بدر الدین چاچ
مصنف
چچا بک ڈپو پھاٹک حبش خاں، دہلی
ناشر
بدر الدین محمد چاچی
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائےاور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد ناموہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
سمندر کی لہروں اور عورت کے خون کو راستہ بتانے والا چاند ایک کھڑکی کے راستے سے اندر چلا آیا تھا اور دیکھ رہا تھا۔ دروازے کے اس طرف کھڑا مدن اگلا قدم کہاں رکھتا ہے۔ مدن کے اپنے اندر ایک گھن گرج سی ہو رہی تھی اور اسے اپنا آپ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے بجلی کا کھمبا ہے جسے کان لگانے سے اسے اندر کی سنسناہٹ سنائی دے جائے گی۔ کچھ دیر یونہی کھڑے رہنے کے بعد...
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیںغمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
عورتوں کی انٹلی جنس سروس اتنی زبردست ہوتی ہے کہ انٹر پول بھی اس کے آگے پانی بھرے، اور پھر میرا قصہ توالم نشرح ہے۔ میری حیثیت کوئی قابل ذکر نہیں گمنام ہستی ہوں۔ اس لیے کسی کو میری پروا نہیں۔ خود مجھے بھی اپنی پروا نہیں۔ میں تنویر فاطمہ ہوں۔ میرے ابا میرٹھ کے رہنے والے تھے۔ معمولی حیثیت کے زمین دار تھے۔ ہمارے یہاں بڑا سخت پردہ کیا جاتا تھا۔ خود میرا میرے چچا زاد، پھوپھی زاد بھائیوں سے پردہ تھا۔ میں بے انتہا لاڈوں کی پلی چہیتی لڑکی تھی۔ جب میں نے اسکول میں بہت سے وظیفے حاصل کرلیے تو میٹرک کرنے کے لیے خاص طور پر میرا داخلہ کوئین میری اسکول میں کرایا گیا۔ انٹر کے لیے میں علی گڑھ بھیج دی گئی۔ علی گڑھ گرلز کالج کا زمانہ میری زندگی کا بہترین دور تھا کیسا خواب آگیں دور تھا۔ میں جذبات پرست نہیں لیکن اب بھی جب کالج کا صحن، روشیں، گھاس کے اونچے پودے، درختوں پر جھکی بارش، نمائش کے میدان میں گھومتے ہوئے کالے برقعوں کے پرے، ہوسٹل کے پتلے پتلے برآمدوں چھوٹے چھوٹے کمروں کی وہ شدید گھریلو فضائیں یاد آتی ہیں تو جی ڈوب سا جاتا ہے۔
آئینے کو موضوع بنانے والی یہ شاعری پہلے ہی مرحلے میں آپ کو حیران کر دے گی ۔ آپ دیکھیں گے کہ صرف چہرہ دیکھنے کے لئے استعمال کیا جانے والا آئینہ شاعری میں آکر معنی کتنی وسیع اور رنگا رنگ دنیا تک پہنچنے کا ذریعہ بن گیا اور محبوب سے جڑے ہوئے موضوعات کے بیان میں اس کی علامتی حیثیت کتنی اہم ہوگئی ہے ۔یقیناً آپ آج آئینہ کے سامنے نہیں بلکہ اس شاعری کے سامنے حیران ہوں گے جو آئینہ کو موضوع بناتی ہے ۔
تیور تو معشوق ہی پر جچتے ہیں ۔ معشوق کا چہرہ تیوروں سے خالی ہو تو پھر وہ معشوق کا چہرہ ہی کہاں ہوا ۔ لیکن عاشق ان تیوروں کو کس طور پر محسوس کرتا ہے ۔ ان سے اس کے لئے کس طرح کی مشکلیں پیدا ہوتی ہیں ان سب باتوں کو جاننا ایک دلچسپ تجربہ ہوگا ۔ ہمارے چنے ہوئے ان شعروں کو پڑھئے ۔
مسافر شاعری اورزندگی دونوں کا ایک دلچسپ کردارہے ۔ زندگی یوں توخود بھی ایک سفر ہے اور ہم سب مسافر ۔ اب مسافر تکلیفوں سےبھرےاس طویل سفرسےکیسے گزرتا ہے، منزل پرپہنچنے کی آرزو اسے کس طرح گرم سفررکھتی ہے اوربعض اوقات سفر کی چاہ میں خود منزل اس کیلئے کتنی غیراہم ہوجاتی ہے یہ ساری کہانی ہمارے اس انتخاب میں پڑھئے ۔
चाचाچاچا
Uncle, Father's Younger Brother
چاچا کی شادی
رکمنی بنرجی
افسانہ
اشرف چاچا کی چودہ کہانیاں
چودھری وہاج احمد اشرف
چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
عبید اللہ علیم
مجموعہ
ٹارزن اور چاچا بھتیجا
ایم۔ یوسف انصاری
چچا چھکن
سید امتیاز علی تاج
مضامین
چچا عبد الباقی اور بھتیجے بختیار خلجی کے ناکارنامے
محمد خالد اختر
نثر
غزل چہرہ
قیصر صدیقی
چارۂ درد
عبد الحمید عدم
شاعری
چہرہ در چہرہ
مجتبی حسین
چچا کا خواب
فیودور دستوئیفسکی
افسانہ / کہانی
آئینہ چہرہ ڈھونڈتا ہے
فیروز ناطق خسرو
غزل
چچا چھکن کی عینک کھوئی گئی
عصمت چغتائی
چچا غالب
محمد حسین حسان
مرتبہ
ماں گیہوں پھٹکتی ہوئی بولی، ’’ارے!‘‘ اسے کس قدر حیرت ہوئی۔ گھسیٹے چاچا کے بیاہ میں بس کیا بتایا جائے کیا مزہ آیا تھا۔ رات رات بھر بس گانا اور ڈھول۔ سرخ ٹول کی ڈپٹیا وہ کس شان سے آٹھ دن تک اوڑھے پھری تھی۔ جبھی تو شبراتی بھیا نے اس کے کیا زور سے چٹکی بھر لی تھی۔ وہ گھنٹوں روئی تھی۔ وہ پھر سوچنے لگی کہ بیاہ میں وہ کون سا کرتا پہنے گی۔ لال اوڑھنی تو ...
میں گرانٹ میڈیکل کالج کلکتہ میں ڈاکٹری کا فائنل کورس کر رہا تھا اور اپنے بڑے بھائی کی شادی پر چند روز کے لئے لاہور آ گیا تھا۔ یہیں شاہی محلے کے قریب کوچہ ٹھاکر داس میں ہمارا جہاں آبائی گھر تھا، میری ملاقات پہلی بار تائی ایسری سے ہوئی۔تائی ایسری ہماری سگی تائی تو نہ تھی، لیکن ایسی تھیں کہ انہیں دیکھ کر ہر ایک کا جی انہیں تائی کہنے کے لئے بے قرار ہو جاتا تھا۔ محلے کے باہر جب ان کا تانگہ آ کے رکا اور کسی نے کہا، ’’لو تائی ایسری آ گئیں‘‘ تو بہت سے بوڑھے، جوان، مرد اور عورتیں انہیں لینے کے لئے دوڑے۔ دو تین نے سہارا دے کر تائی ایسری کو تانگے سے نیچے اتارا، کیونکہ تائی ایسری فربہ انداز تھیں اور چلنے سے یا باتیں کرنے سے یا محض کسی کو دیکھنے ہی سے ان کی سانس پھولنے لگتی تھی۔ دو تین رشتہ داروں نے یک بارگی اپنی جیب سے تانگہ کے کرائے کے پیسے نکالے۔ مگر تائی ایسری نے اپنی پھولی ہوئی سانسوں میں ہنس کر سب سے کہہ دیا کہ وہ تو پہلے ہی تانگہ والے کو کرایہ کے پیسے دے چکی ہیں اور جب وہ یوں اپنی پھولی سانسوں کے درمیان باتیں کرتی کرتی ہنسیں تو مجھے بہت اچھی معلوم ہوئیں۔ دو تین رشتہ داروں کا چہرہ اتر گیا اور انہوں نے پیسے جیب میں ڈالتے ہوئے کہا، ’’یہ تم نے کیا کیا تائی؟ ہمیں اتنی سی خدمت کا موقع بھی نہیں دیتی ہو!‘‘اس پر تائی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے اپنے قریب کھڑی ہوئی ایک نوجوان عورت سے پنکھی لے لی اور اسے جھلتے ہوئے مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔
دس سال سے یعنی جس دن سےمیری شادی ہوئی ہے، یہی ایک سوال بار بارکسی نہ کسی صورت میں ہمارے سامنے دہرایا جاتا ہے، آپ کے ہاں بچّہ کیوں نہیں ہوتا؟ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کے ہاں روٹی ہے؟ گھر ہے؟ روزگار ہے؟ خوشی ہے؟ عقل ہے؟ سب یہی پوچھتے ہیں کہ آپ کے ہاں بچّہ ہے؟ گویا بچّہ ان تمام ضروریاتِ زندگی کا نعم البدل مان لیا گیا ہے، ہم دونوں کو اس سوال سے انتہائ...
سب اسے ’’ادھا‘‘ کہہ کے بلاتے تھے۔ پورا کیا، پونا کیا، بس ادھا۔ قد کا بونا جو تھا۔ پتا نہیں کس نے نام رکھا تھا۔ ماں باپ ہوتے تو ان سے پوچھتا۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا، یہی نام سنا تھا اور یہ بھی نہیں کہ کبھی کوئی تکلیف ہوئی ہو۔ دل دُ کھا ہو۔ کچھ نہیں۔ ہر وقت اپنی مستی میں رہتا تھا۔ خربوزے والے نے کہا ادھے ذرا دکان دیکھیو، میں کھانا کھا کے آیا۔‘‘ اور اد...
یہ وہ سارے کام ہنسی خوشی کیا کرتی، اور صلے کا کبھی خیال تک اس کے ذہن میں نہ آتا۔ کسی نے کچھ روکھا سوکھا دے دیا تو کھا لیا۔ کہیں سے کوئی پھٹا پرانا کپڑا مل گیا تو پہن لیا، ور نہ اپنے حال میں مست رہاکرتی۔ اس کی اوڑھنی میں جگہ جگہ چھید تھے جن میں سے اس کے لمبے بھورے بال دھول اور تنکوں سے اٹے ہوئے کسی سادھو کی جٹا کی طرح دکھائی دیتے۔ وہ اسی گاؤں کی ایک نائن کی بیٹی تھی۔ با پ کی اس نے صورت نہیں دیکھی تھی۔ چار برس کی ہوئی تو ماں بھی چل بسی۔ اور کوئی رشتے دار تھا نہیں، بس گاؤں ہی میں رل رلا کر پل گئی۔ گاؤں کی ہر عورت خواہ وہ ذیل دارنی ہوتی یا مہترانی اس کی ’’چاچی‘‘ تھی۔ اور گاؤں کا ہر مرد اس کا ’’چاچا۔‘‘
اس دن کوئی میرے پیچھے آ رہا تھا۔ اسے میں نے دیکھا تو نہیں، لیکن ایک سنسناہٹ سی میرے جسم میں دوڑ گئی۔ جہاں میں چل رہی تھی، وہاں برابر میں ایک پرانی شیور لیٹ گاڑی آ کر رکی، جس میں ادھیڑ عمر کا بلکہ بوڑھا مرد بیٹھا تھا۔ وہ بہت معتبر صورت اور رعب داب والا آدمی تھا، جس کے چہرے پر عمر نے خوب لوڈو کھیلی تھی۔ اس کی آنکھ تھوڑی دبی ہوئی تھی، جیسے کبھی اسے لق...
کرو مجھے سنگار لیکن گناہ کی داستاں تو سن لو!چاچا فضل دین
بس کچھ ایسا ہی موسم تھا میری بچی، جب تم سولہ سترہ سال پہلے میری گود میں آئی تھیں۔ بکائن کے اودے اودے پھول اسی طرح مہک رہے تھے اور بیریوں پر گلہریاں چوٹی تک اسی طرح بھاگی پھرتی تھیں اور ایسی ہوا چل رہی تھی جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی۔ جب تم میری گود میں آئی تھیں تو دیے کی کالی پیلی روشنی میں اونگھتا ہوا کوٹھا چمکنے سا لگا...
’’بھئی یہ میرا ایک کزن ہے۔ اس کی چھوٹی بہن تزئین کو شاید تم جانتی ہو جس کی شادی جسٹس عرفان کے نواسے سے ہوئی ہے۔‘‘ اس نے ذرا بے تعلقی اور استغنا سے مجھے مطلع کیا، میں نے مستعدی سے سر ہلایا۔ تزئین کومیں جانتی تھی۔ اس کے اس بھائی کو بھی جانتی تھی ۔ اس کا نام سرور رہا ہوگا۔ لیکن ہم سب تو اسے پتنگ کہتے تھے۔کیوں کہ وہ بہ یک وقت اتنی بہت ساری لڑکیوں کی پت...
مگر نذیر رانا مہندر سنگھ سوڈو نہیں تھا۔ وہ بہت دیر سے محرابوں والے برآمدے سے ملحقہ کمرے سے سنائی دینے والی عورت اور مرد کی دھیمی دھیمی اور مبہم سرگوشیاں سن رہا تھا۔ ان سرگوشیوں کے مختلف اتارچڑھائو محسوس کرتے ہوے، جن میں بعض اوقات دبی دبی ہنسی اورگھٹا گھٹا سا قہقہہ بھی شامل ہوتا تھا، وہ حاسدانہ مخاصمت محسوس کر رہا تھا۔ اس نے ان کی سرگوشیوں میں چھپی ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books