aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "چھا"
موہن لال چھا
ناشر
دائرہ پریس چھتہ بازار
خورشید پریس چھتہ بازار، حیدرآباد
مطبع فدائی دکن چھتہ بازار
سویتا چڈھا
مصنف
چچا بک ڈپو پھاٹک حبش خاں، دہلی
مکی پریس، چھتہ بازار
جگدیش چندر چڈھا
چرا غ علی خاں
انور پریس چھتہ بازار، حیدرآباد
ہری چند چڈھا
امن دیب سدھو چڈھا
شاعر
چشتیہ پریس چھتہ بازار
نند لال چتا
بی ایل چڈا
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہےجب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آ جاتا ہے
چھا رہا ہے ساری بستی میں اندھیراروشنی کو، گھر جلانا چاہتا ہوں
مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناںاور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر دو
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرحانگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہےآنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
انسانی زندگی میں جو دور سب سے زیادہ امنگوں ، آرزؤں ، تمناؤں اور رنگینیوں سے بھرا ہوتا ہے وہ جوانی ہی ہے ۔ جوانی کو موضوع بنانے والی شاعری جوانی کی ان رنگینیوں کو بھی قید کرتی ہے اور جوانی کے گزرنے اور اس کی یاد سے چھا جانے والے گہرے ملال کو بھی ۔
گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرکے چھا جانے والی اداسی کچھ میٹھی سی ہوتی ۔ اس کا ذائقہ تو آپ نے چکھا ہی ہوگا ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے جو ہم میں سے ہر شخص کے ماضی کی بازدید کرتا ہے اور گزرے ہوئے لمحوں کی یادوں کو زندہ کرتا ہے ۔
شاعروں نے دلی کو عالم میں انتخاب ایک شہر بھی باندھا ہے اور بھی طرح طرح سے اس کے قصیدے پڑھے گئے ہیں لیکن تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس شہر کی ساری رونقیں ختم کر دی گئیں ، اس کے گلی کوچے ویران ہو گئے اور اس کی ادبی وتہذیبی مرکزیت ختم ہوگئی، بے حالی کے عالم میں لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے اور پورے شہر پر ایک مردمی چھا گئی۔ اس صورتحال نے سب سے زیادہ گہرا اور دیر پا اثر تخلیق کاروں پر چھوڑا ۔ شاعروں نے دلی کو موضوع بنا کر جو شعر کہے وہ بیشتر دلی کی اس صورتحال کا نوحہ ہیں ۔
छाچھا
overcast, overshadow
لقمان حکیم
سوانح حیات
چچا چھکن
سید امتیاز علی تاج
مضامین
چھٹا دریا
فکر تونسوی
ڈائری
چچا عبد الباقی اور بھتیجے بختیار خلجی کے ناکارنامے
محمد خالد اختر
نثر
شرح مثنوی پس چہ باید کرد مع مسافر
خواجہ حمید یزدانی
شرح
چچا چھکن کی عینک کھوئی گئی
افسانہ
چچا کا خواب
فیودور دستوئیفسکی
افسانہ / کہانی
چہ قلندرانہ گفتم
شورش کاشمیری
نعت
مثنوی پس چہ باید کرد و مسافر مع شرح
یوسف سلیم چشتی
مثنوی
چچا غالب
محمد حسین حسان
مرتبہ
چچا چھکن نے تیمارداری کی
قدسیہ زیدی
ڈراما
چچا چھکن نے دھوبن کو کپڑے دیے
مجھ کو خراب کر گئیں نیم نگاہیاں تریمجھ سے حیات و موت بھی آنکھیں چرا کے رہ گئیں
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پرجس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہتمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
ایک دن اشوک گھوڑوں کے ٹپ لینے کے لیے مہاراجہ کے پاس گیا تو وہ ڈارک روم میں فلم دیکھ رہا تھا۔ اس نے اشوک کو وہیں بلوالیا۔ سکیٹن ملی میٹر فلم تھے جہا مہاراجہ نے خود اپنے کیمرے سے لیے تھے۔ جب پروجیکٹر چلا تو پچھلی ریس پوری کی پوری پردے سے دوڑ گئی۔ مہاراجہ کا گھوڑا اس ریس میں ون آیا تھا۔اس فلم کے بعد مہاراجہ نے اشوک کی فرمائش پر اور کئی فلم دکھائے۔ سوئٹزرلینڈ، پیرس، نیویارک،ہونو لولو، ہوائی، وادیِ کشمیر۔۔۔ اشوک بہت محظوظ ہوا ۔یہ فلم قدرتی رنگوں میں تھے۔اشوک کے پاس بھی سکیٹن ملی میٹر کیمرہ اور پروجیکٹر تھا۔ مگر اس کے پاس فلموں کا اتنا ذخیرہ نہیں تھا۔ دراصل اس کو اتنی فرصت ہی نہیں ملتی تھی کہ اپنا یہ شوق جی بھر کے پورا کرسکے۔ مہاراجہ جب کچھ فلم دکھا چکا تو اس نے کیمرے میں روشنی کی اور بڑی بے تکلفی سے اشوک کی ران پر دھپا مار کرکہا،’’اور سناؤ دوست۔‘‘
منی نے کہا، ’’گالی کیوں دے گا؟ کیا اس کا راج ہے؟‘‘ مگر یہ کہنے کے ساتھ ہی اس کی تنی ہوئی بھویں ڈھیلی پڑ گئیں۔ ہلکو کی بات میں جو دل دہلانے دینےو الی صداقت تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ اس نے طاق پر سے روپے اٹھائے اور لاکر ہلکو کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ پھر بولی، ’’تم اب کی کھیتی چھوڑ دو۔ مزدوری میں سکھ سے ایک روٹی تو کھ...
اس جان مے کدہ کی قسم بارہا جگرؔکل عالم بسیط پہ میں چھا کے پی گیا
یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مرےدل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
ہاں تو میں کہاں ہوں، ابھی میرے حواس درست نہیں، لیکن یہ زمین اور یہ آسمان تو کچھ جانے بوجھے معلوم ہوتے ہیں۔ لوگوں کو ایک طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ میں بھی انہیں کے ساتھ ہولوں۔۔۔ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں۔۔۔ اب ان راستوں پر پالکیاں جاتی ہوئی نظر نہیں آتیں، گھوڑا گاڑیاں چل رہی ہیں۔ لیکن ان کی شکل و صورت بالکل بدلی ہوئی ہے۔ آنکھوں کے سامن...
تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں رشتے قرابت والوں سے ملنا ملانا۔ دوپہر سے پہلے لوٹنا غیر ممکن ہے۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا، وہ بھی دوپہر تک۔ کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لئے ہوں گے، بچوں کے لئے تو عید ہے۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آ گئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں ...
کمرہ بہت چھوٹا تھا جس میں بے شمار چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ تین چار سوکھے سڑے چپل پلنگ کے نیچے پڑے تھے جن کے اوپر منہ رکھ کر ایک خارش زدہ کتا سورہا تھا۔ اور نیند میں کسی غیر مرئی چیز کو منہ چڑا رہا تھا۔ اس کتے کے بال جگہ جگہ سے خارش کے باعث اڑے ہوئے تھے۔ دور سے اگرکوئی اس کتے کو دیکھتاتو سمجھتا کہ پیر پونچھنے والا پرانا ٹاٹ دوہرا کرک...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books