aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "गड़"
سردار گنڈا سنگھ مشرقی
1857 - 1909
شاعر
غم بجنوری
مصنف
داتا گنج بخش
حشر گنج مرادآبادی
گ۔ ف۔ الیکزینڈروف
مدیر
مکتبہ پولی گن سروسز، لاہور
ناشر
داتا گنج بخش، لاہور
المعارف گنج بخش، لاہور
ہسویا گنگ
ونگمیہ بکس علی گڑھ
جے۔ روزویل گیلا گر
شاہ الہ گنج بخش
مظہرالعجائب پریس، مشک گنج
غ۔ م۔ فریدی
مترجم
ہدایت گڑھ مجلس تعلیمی، مرزاپور، یو۔ پی۔
بولتے کیوں نہیں مرے حق میںآبلے پڑ گئے زبان میں کیا
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہےتیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
ہزار غم تھے جو زندگی کیتلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لونشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہےلمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
ربیندرناتھ ٹیگور پر کہی گئی چند بہترین اردو نظمیں
زمانے بیت گئے مگر محمد رفیع آج بھی اپنی آواز کی ساحری کے زور پر ہرکسی کے دل پر اپنی حکومت جمائے ہوئے ہیں ، ان کے گائے ہوئے بھجن ، اورنغموں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ آج ہم آپ کے لئے کچھ مشہورو معروف شاعروں کی ایسی غزلیں لے کر حاضر ہوئے ہیں جنہیں محمد رفیع نے اپنی آواز دی ہے اور ان غزلوں کے حسن میں لہجے اور آواز کا ایسا جادو پھونکا ہے کہ آدمی سنتا رہے اور سر دھنتا رہے ۔
गड़گڑ
bury
گھنگرو ٹوٹ گئے
قتیل شفائی
خود نوشت
شلوک شیخ بابا فرید گنج شکر
شیخ فرید
شرح
غم دل وحشت دل
محمد حسن
سوانحی
ایک بھاشا جو مسترد کر دی گئی
مرزا خلیل احمد بیگ
لسانیات
مطالعۂ فن ترجمہ اور منتخب مضامین
راج بہادر گوڑ
تحقیق و تنقید
گلزار غم
سید حسین مرزا لکھنوی
مرثیہ
احوال عرس مقدس بابا فرید گنج شکر
سید امام علی شاہ
چشتیہ
گئو دھول
سید محمد عقیل
حضر بابا فرید گنج شکر شخصیت اور فن
کشمیری لال ذاکر
من موہن کی باتیں
شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی
اسلامیات
کشف و کرامات حضرت داتا گنج رحمتہ اللہ علیہ
محمد نصیب
دل کی وادیاں سو گئیں
کرشن چندر
ناول
کشف المحجوب اردو
تذکرہ مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی
ابوالحسن علی ندوی
سوانح حیات
گنج طلسم
شاہ نعمت اللہ ولی
وہ رندھیر کی اس بات کا مطلب سمجھ گئی تھی کیوں کہ اس کی آنکھوں میں شرم کے لال ڈورے تیر گیے تھے لیکن بعد میں جب رندھیر نے اسے اپنی دھوتی نکال کر دی تو اس نے کچھ دیر سوچ کر اپنا کاشٹا کھولا۔ جس پر میل بھیگنے کی وجہ سے اور بھی نمایاں ہوگیا تھا۔۔۔ کاشٹا کھول کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور جلدی سے دھوتی اپنی رانوں پر ڈال لی۔ پھر اس نے اپنی پھنسی پھنسی چولی...
کر رہا تھا غم جہاں کا حسابآج تم یاد بے حساب آئے
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کےوہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاںاکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہوحقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
بیلا اور بتول مجھ سے یہ خط کیوں لکھوا رہی ہیں۔ یہ دونوں لڑکیاں کون ہیں اور ان کا تقاضا اس قدر شدید کیوں ہے۔ یہ سب کچھ بتانے سے پہلے میں آپ کو اپنے متعلق کچھ بتانا چاہتی ہوں، گھبرایئے نہیں۔ میں آپ کو اپنی گھناؤنی زندگی کی تاریخ سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی۔ میں یہ بھی نہیں بتاؤں گی کہ میں کب اور کن حالات میں طوائف بنی۔ میں کسی شریفانہ جذبے کا سہارا لے کر...
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کوکیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
اندو کچھ ڈر سی گئی۔ زندگی میں پہلی بار کسی اجنبی نے اس کا نام اس انداز سے پکارا تھا اور وہ اجنبی کسی خدائی حق سے رات کے اندھیرے میں آہستہ آہستہ اس اکیلی بے یار و مددگار عورت کا اپنا ہوتا جا رہا تھا۔اندو نے پہلی بار ایک نظر اوپر دیکھتے ہوئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور صرف اتنا سا کہا، ’’جی‘‘اسے خود اپنی آواز کسی پاتال سے آتی ہوئی سنائی دی۔دیر تک کچھ ایسا ہی ہوتا رہا اور پھر ہولے ہولے بات چل نکلی۔ اب جو چلی سو چلی۔ وہ تھمنے ہی میں نہ آتی تھی۔ اندو کے پتا، اندو کی ماں، اندو کے بھائی، مدن کے بھائی بہن، باپ، ان کی ریلوے سیل سروس کی نوکری، ان کے مزاج، کپڑوں کی پسند، کھانے کی عادت، سبھی کا جائزہ لیا جانے لگا۔ بیچ بیچ میں مدن بات چیت کو توڑ کر کچھ اور ہی کرنا چاہتا تھا لیکن اندو طرح دے جاتی تھی۔ انتہائی مجبوری اور لاچاری میں مدن نے اپنی ماں کا ذکر چھیڑ دیا جو اسے سات سال کی عمر میں چھوڑ کر دق کے عارضے سے چلتی بنی تھی۔ ’’جتنی دیر زندہ رہی بیچاری‘‘ مدن نے کہا، ’’بابو جی کے ہاتھ میں دوائی کی شیشیاں رہیں۔ ہم اسپتال کی سیڑھیوں پر اور چھوٹا پاشی گھر میں چیونٹیوں کے بل پر سوتے رہے اور آخر ایک دن28 مارچ کی شام، ‘‘ اور مدن چپ ہو گیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ رونے سے ذرا ادھر اور گھگھی سے ذرا ادھر پہنچ گیا۔ اندو نے گھبرا کر مدن کا سر اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ اس رونے نے پل بھر میں اندو کو اپنے پن سے ادھر اور بیگانے پن سے ادھر پہنچا دیا تھا۔۔۔ مدن اندو کے بارے میں کچھ اور بھی جاننا چاہتا تھا لیکن اندو نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا، ’’میں تو پڑھی لکھی نہیں ہوں جی، پر میں نے ماں باپ دیکھے ہیں، بھائی اور بھابھیاں دیکھی ہیں، بیسیوں اور لو گ دیکھے ہیں۔ اس لئے میں کچھ سمجھتی بوجھتی ہوں میں اب تمہاری ہوں اپنے بدلے میں تم سے ایک ہی چیز مانگتی ہوں۔‘‘
’’بتاؤں؟‘‘ بدو چلایا اور اس نے اوپلے کا ٹکڑا اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ غالباً وہ اسے ہاتھ میں لے کر ہمیں دکھانا چاہتا تھا مگر آپا نے جھٹ اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور انگلی ہلاتے ہوئے بولیں، ’’اونہہ۔‘‘ بدو رونے لگا تو اماں کہنے لگیں، پگلے اسے ہاتھ میں نہیں اٹھاتے، اس میں چنگاری ہے۔’’وہ تو جلا ہوا ہے اماں!‘‘ بدو نے بسورتے ہوئے کہا۔ اماں بولیں، ’’میرے لال تمہیں معلوم نہیں اس کے اندر تو آگ ہے۔ اوپر سے دکھائی نہیں دیتی۔‘‘ بدو نے بھولے پن سے پوچھا، ’’کیوں آپا اس میں آگ ہے۔‘‘ اس وقت آپا کے منہ پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔
میں نے اس سے پہلےہزار بار کالو بھنگی کے بارے میں لکھنا چاہا ہے لیکن میرا قلم ہر بار یہ سوچ کر رک گیا ہے کہ کالو بھنگی کے متعلق لکھا ہی کیا جا سکتا ہے۔ مختلف زایوں سے میں نے اس کی زندگی کو دیکھنے، پرکھنے، سمجھنے کی کوشش کی ہے، لیکن کہیں وہ ٹیڑھی لکیر دکھائی نہیں دیتی جس سے دلچسپ افسانہ مرتب ہو سکتا ہے۔ دلچسپ ہونا تو درکنار کوئی سیدھا سادا افسانہ، بے...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books