aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "फड़कता"
میں خود میں جھینکتا ہوں اور سینے میں بھڑکتا ہوںمرے اندر جو ہے اک شخص میں اس میں پھڑکتا ہوں
کبوتر کہیں آشیانے سے دورپھڑکتا ہوا جال میں ناصبور
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیمنو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی
وہ جب اسکول کی طرف روانہ ہوا تو اس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا،جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا۔ اس ٹوکرے میں دو تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے تھے۔ کھالیں اتری ہوئی تھیں، اور ان کے ننگے گوشت میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جس کو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں، پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اس کی آنکھ پھڑکا کرتی...
کبھی کہتے تھے کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم مجھ سے اچھا نہ لکھنے لگو اور میں نے صرف چند مضمون لکھے تھے اس لیے جی جلتا تھا کہ یہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد نہ جانے کیوں مرنے والے کی چیزیں پیاری ہو گئیں۔ ان کا ایک ایک لفظ چبھنے لگا اور میں نے عمر میں پہلی دفعہ ان کی کتابیں دل لگا کر پڑھیں۔ دل لگا کر پڑھنے کی بھی خوب رہی۔ گویا دل لگانے کی بھی ضرورت تھی! دل خود بخود کھنچنے لگا۔ افوہ! تو یہ کچھ لکھا ہے ان کی رلنے والی کتابوں میں۔ ایک ایک لفظ پر ان کی تصویر آنکھوں میں کھنچ جاتی اور پل بھر میں وہ غم اور دکھ میں ڈوبی ہوئی مسکرانے کی کوشش کرتی ہوئی آنکھیں وہ اندوہناک سیاہ گھٹاؤں کی طرح مرجھائے ہوئے چہرے پر پڑے ہوئے گھنے بال، وہ پیلی نیلاہٹ لیے ہوئے بلند پیشانی، پژمردہ اودے ہونٹ جن کے اندر قبل از وقت توڑے ہوئے ناہموار دانت اور لاغر سوکھے سوکھے ہاتھ اور عورتوں جیسے نازک، دواؤں میں بسی ہوئی لمبی انگلیوں والے ہاتھ اور پھر ان ہاتھوں پر ورم آ گیا تھا۔ پتلی پتلی کھیچی جیسی ٹانگیں جن کے سر پر ورم جیسے سوجے ہوئے بدوضع پیر جن کے دیکھنے کے ڈر کی وجہ سے ہم لوگ ان کے سرہانے ہی کی طرف جایا کرتے تھے اور سوکھے ہوئے پنجرے جیسے سینے پر دھونکنی کا شبہہ ہوتا تھا۔ کلیجے پر ہزاروں، کپڑوں، بنیانوں کی تہیں اور اس سینے میں ایسا پھڑکتا ہوا چلبلا دل! یا اللہ یہ شخص کیوں کر ہنستا تھا، معلوم ہوتا تھا کوئی بھوت ہے یا جن جو ہر خدائی طاقت سے کشتی لڑ رہا ہے، نہیں مانتا مسکرائے جاتا ہے خدا جبار و قہار چڑھ چڑھ کر کھانسی اور دمہ کا عذاب نازل کر رہا ہے اور یہ دل قہقہے نہیں چھوڑتا۔ کون سا دنیا و دین کادکھ تھا جو قدرت نے بچا رکھا تھا مگر پھر بھی نہ رلا سکا۔ اس دکھ میں جلن، ہنستے نہیں ہنساتے رہنا، کسی انسان کا کام نہیں۔ ماموں کہتے تھے : زندہ لاش، خدایا اگر لاشیں بھی اس قدر جاندار، بے چیں اور پھڑکنے والی ہوتی ہیں تو پھر دنیا ایک لاش کیوں نہیں بن جاتی۔ میں ایک بہن کی حیثیت سے نہیں ایک عورت بن کر ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی تو دل لرز اٹھتا تھا۔ کس قدر ڈھیٹ تھا ان کا دل۔ اس میں کتنی جان تھی۔ منہ پر گوشت نام کو نہ تھا۔ مگر کچھ دن پہلے چہرے پر ورم آ جانے سے چہرہ خوبصورت ہو گیا تھا۔ کنپٹی ابھر گئی تھیں۔ پچکے ہوئے گال دبیز ہو گئے تھے۔ ایک موت کی سی جلا چہرہ پر آئی تھی اور رنگت میں کچھ عجیب طلسمی سبزی سی آ گئی تھی۔ جیسے حنوط کی ہوئی ممی، مگر آنکھیں معلوم ہوتا تھا کسی بچے کی شریر آنکھیں جو ذرا سی بات پر ناچ اٹھتی تھیں اور پھر کبھی ان میں نوجوان لڑکوں کی سی شوخی جاگ اٹھتی تھی اور یہی آنکھیں کبھی دورے کی شدت سے گھبرا کر چیخ اٹھتیں۔ ان کی صاف شفاف نیلی سطح گدلی زرد ہو جاتی اور بے کس ہاتھ لرزنے لگتے۔ سینہ پھٹنے پر آ جاتا۔ دورہ ختم ہوا کہ پھر وہی روشنی، پھر وہی رقص پھر وہی چمک۔
عشق میں حاصل ہونے والی دیوانگی سب سے پاک دیوانگی ہے آپ اس دیوانگی کی تھوڑی بہت مقدار سے ضرور گزریں ہوں گے، لیکن یہ سب ہمارے اورآپ کےتجربات ہیں اوریادیں ہیں ۔ ان یادوں اور ان تجربات کو لفظوں میں مچلتا اور پھڑکتا ہوا دیکھنے کے لئے ہمارے اس شعری انتخاب کو پڑھئے ۔
جس تیرسے ہم واقف ہیں آخراس کی شاعری میں کیا جگہ ، اگرہے بھی تو ان خاص مواقع پرجہاں جنگ وجدل کا بیان ہو لیکن ایسے مواقع آتے ہی کتنےہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے کہ تیرزخمی کردینے کی اپنی صفت کے ساتھ معنی کی کن نئی صورتوں میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ تخیل اورتخلیق کی کارکردگی یہی ہوتی ہے ۔ محبوب اوراس کے حسن کے بیانیے میں تیرایک مرکزی استعارے کے طورپرسامنے آتا ہے۔
ایک شاعر دو سطحوں پر زندگی گزارتا ہے . ایک تو وہ جسے اس کی مادی زندگی کا نام دیا جا سکتا ہے اور دوسری تخلیق اور تخیل کی سطح پر ۔ یہ دوسری زندگی اس کی اپنی بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس کے ذریعے تخلیق کئے جانے والے کرداروں کی بھی ۔ آبلہ پائی اس کی اسی دوسری زندگی کا مقدر ہے ۔ کلاسیکی شاعری میں عاشق کو خانماں خراب ہونا ہی ہوتا ہے ، وہ بیابانوں کی خاک اڑاتا ہے ، گریباں چاک کرتا ہے . ہجرکی یہ حالتیں ہی اس کے لئے عشق کی معراج ہوتی ہیں ۔ جدید شعری تجربے میں آبلہ پائی دکھ کے ایک وسیع استعارے کے طور پر بھی برتا گیا ہے ۔
फड़कताپھڑکتا
fluttered
تعلق جسے دنیا دیوانہ کہتی ہے وہ بھی اپنے وقت سے پہلے آیا تو حواس باختہ ہوگیا پھر میں کیا چیز ہوں۔۔۔؟ لیکن ایک زمانہ ہوگا۔ جب دنیا میری ہی ہم خیال ہو جائے گی۔ لوگ میری سنیں گے۔ اور کشور۔۔۔ کشور کے واقعہ نے تو مجھے بالکل نیم مردہ کردیا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ مری یہ چیخ پکار یہ پھڑکتا ہوا دل جس میں انسانی ہمدردی اور اخوت کا سمندر لہریں مار رہا ہے۔ جس کے...
سہیل کے جی میں آئی کہ اپنی ماں سے کہہ دے، ’’ایسی ویسی بات۔۔۔؟ امی جان اس نے ایسی بات کی ہے کہ میری زندگی تباہ ہوگئی ہے۔۔۔ مجھ سے پوچھے بغیر اس نے ماں بننے کا ارادہ کرلیا ہے۔‘‘ مگر اس نے یہ بات نہ کہی اس لیے کہ یہ سن کر اس کی ماں یقینی طور پر خوش ہوتی۔’’نہیں امی، عائشہ نے کوئی ایسی بات نہیں کی وہ تو بہت ہی اچھی لڑکی ہے۔ آپ سے تو اسے بے پناہ محبت ہے۔۔۔ دراصل میری اداسی کا باعث۔۔۔ لیکن امی جان میں تو بہت خوش ہوں۔‘‘
"یقین کیسے آئے یار،" تجمل آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا ۔ "ترسوں تک تو اچھا بھلا تھا۔ بازار میں مجھ سے مڈھ بھیڑ ہوئی۔ میں پوچھنے لگا، "ہاشم خاں کب جا رہے ہو نوکری پہ۔"بولا، "یار تقرری تو ہو گئی ہے اس ہفتے میں چلا ہی جاؤں گا ۔"علی ریاض نے ٹھنڈا سانس لیا، "ہاں غریب چلا ہی گیا۔" چھنوں میاں نے علی ریاض کے فقرے پر دھیان نہیں دیا۔ وہ تجمل سے مخاطب تھے، "بھئی پچھلی جمعرات کو میں اور وہ دونوں شکار کو گئے ہیں۔" شکار کے لفظ کے ساتھ ساتھ مختلف انمٹ بے جوڑ تصویریں چھنوں میاں کی آنکھوں کے سامنے ابھر آئیں۔ پھریری لے کر بولے، "کیا نشانہ تھا نیک بخت کا۔ صبح کی دھند میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ قازیں ہڑبڑا کر اٹھی ہیں۔ پروں کی پھڑ پھڑ پھڑاہٹ پہ دھوں سے گولی چلائی اور قازیں ٹپ ٹپ گر رہی ہیں۔ اب اسی دفعہ کا ذکر ہے صاحب مجھے تو پتہ چلا نہیں کہ ہرنی کدھر سے اٹھی اور کدھر چلی۔ بندوق کو تانتے ہوئے بولا، "وہ ہرنی چلی،" میں نے کہا کہ بہت دور ہے، مگر وہ بھلا مانس کہاں سنتا تھا دھن سے گولی چلا دی۔ ہرنی بیس قدم گرمیں چلی اور پھر لڑکھڑا کے گر پڑی ۔"
مل جائے اگر شبابِ رفتہٹھہرا کے میرا سلام کہنا
’’اس کی ماں کی۔۔۔‘‘ دونوں سپاہی اس پر پل پڑے، اس کے جسم کے نازک حصے پر ٹھوکریں پڑیں، اسے لگا کہ پیٹ پھٹ گیا، آنتیں باہر گر رہی ہیں۔ درد کا طوفان ا س کے بدن میں سر پٹکنے لگا اور وہ ذبح کئے مرغ کی طرح زمین پھر پھڑکتا پھر رہا تھا۔ اور اب نہ جانے رات کا کون سا پہر ہے۔ دیر سے ٹین کے سائبان پر بارش ہورہی تھی، پھر بارش دھیمی ہوتے ہوئے رک گئی اور قدموں کی چاپ سنائی دی، جو اس کے کمرے کی طرف آ رہی تھی۔ خوف سے اسے دل دھڑکنیں ڈوبتی محسوس ہوئیں۔ اس نے سوجے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیری، لہو کا نمکین ذائقہ زبان پر پھیل گیا۔
جیسا کہ مہذب ملکوں میں دستور ہوتا ہے، پابندئی وقت کو ملحوظ رکھا گیا اور پورے دوبجے جیل کےاندر سے ایک جیپ نمودار ہوئی۔ قاتلوں کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹیا ں تھیں۔ انہیں چبوتروں پر کھڑا کر دیا گیا۔ مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ وہ اپنے اپنے پھندوں کے سامنے کھڑے ہوں جو شاید گردن کی موٹائی کے حساب سے بنائے گئے تھے۔ مجمع مکمل ط...
تانتیا اس کی بےنیازی پر بھنا گیا۔ جل کر بولا، ’’ابے دیکھ کیا رہا ہے، اس کو اٹھا لے، سالے اکڑتا کیوں ہے، کہیں ایک دن تیرا بھی یہی حال نہ ہو، ابے اس وقت یہ رقم کام آئےگی۔‘‘ فوجی نے جھنجھلا کر تانتیا کی کمر پر زور سے لات ماری اور روپیہ اٹھا کر چل دیا۔
فرش راحت پر مجھے جس وقت یاد آتا ہے یارمرغ دل ایسا پھڑکتا ہے کہ اڑ جاتی ہے نیند
اور پرلطف بات تو یہ ہے کہ جیب کترتا ہوا شخص بھی دوسرے جیب کتروں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ تب جیب کاٹتا ہے جب پردے پر کوئی بےحد رومانی پھڑکتا ہوا یا پھر المناک گیت چل رہا ہو۔دیکھیے میرا قصہ نویس مجھے بے وجہ دھمکی دے رہا ہے۔ اس کے ادبی کیرئیر کا سوال ہے۔ اس کاخیال ہے کہ یہ اس کی ناکام ترین کہانی ثابت ہوگی کیوں کہ اس میں ’’کہانی پن‘‘ ندارد ہے۔ مگر یہ تو مجھے پہلے ہی سے پتہ تھا۔ بھوت پر چودہ طبق روشن ہیں اور صاف بات تو یہ ہے کہ یہ میری کہانی ہے اور اسے صرف میرے نکیلے ناخن خلا میں لکھ رہے ہیں۔ ہواؤں میں لکھی جانے والی یہ کہانی میرے قصہ نویس کی نہیں، میری ہے اور میں زبردستی آپ کو سنارہا ہوں۔ کیا مجھے یہ علم نہیں کہ آپ ہرگز نہیں سن رہے!
مری انکھیاں پھڑکتی ہیں یقیں ہے دل منیں یاراںکہ نامے کوں پیارے کے کبوتر لے شتاب آوے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books