aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "लगातार"
ایک ہی بار نظر پڑتی ہے ان پر تابشؔاور پھر وہ ہی لگاتار نظر آتے ہیں
لوگ کہتے ہیں میں بارش کی طرح ہوں حافیؔاکثر اوقات لگاتار نہیں ہوتا میں
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے، دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ، ’’کتا وفادار جانور ہے۔‘‘ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار...
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میںبدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
میں سوچتا ہوں کہ دم لیں تو میں انہیں ٹوکوںمگر یہ لوگ لگاتار جھوٹ بولتے ہیں
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
ایک تخلیق کار زندگی کو جتنے زاویوں اور جتنی صورتوں میں دیکھتا ہے وہ ایک عام شخص کے دائرے سے باہر ہوتا ہے ۔ زندگی کے حسن اور اس کی بد صورتی کا جو ایک گہرا تجزیہ شعر وادب میں ملتا ہے اس کا اندازہ ہمارے اس چھوٹے سے انتخاب سےلگایا جاسکتا ہے ۔ زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے اس میں بہت پیچ ہیں اور اس کے رنگ بہت متنوع ہیں ۔ وہ بہت ہمدرد بھی ہے اور اپنی بعض صورتوں میں بہت سفاک بھی ۔ زندگی کی اس کہانی کو آپ ریختہ پر پڑھئے ۔
लगातारلگاتار
at a stretch, continuously
شمارہ نمبر-012
ڈاکٹر خلیل صدیقی
Dec 2022تعلیمی سفر، لاتور
گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ ’’لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔‘‘وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے، لفظوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اُٹھتے ہی انھوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی۔ کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا ہوا گلاس جل ترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباؤاجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اُٹھی ہوگی۔
بھوک ایسی ہے کہ میں خود کو بھی کھا سکتا ہوںکیسا یہ قحط لگاتار پڑا ہے مجھ میں
تیراک لگاتار یہاں ڈوب رہے ہیںچپ چاپ میں دریا کا ہنر دیکھ رہا ہوں
اس نے بڑے تیکھے اور خفگی آمیز لہجے میں کہا، ’’جی ہاں۔‘‘ نذیر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد اس لڑکی کوجس کی عمر شکنتلا سے غالباً تین برس بڑی تھی۔ بڑے غور سے دیکھا۔ نذیر کی یہ حرکت اس کو بہت ناگوار محسوس ہوئی۔ وہ بڑے زور سے ٹانگ ہلا کر اس سے مخاطب ہوئی، ’’آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘نذیر کے ہونٹوں پر چھ برس پیچھے کی مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’جناب آپ اس قدر ناراض کیوں ہیں؟‘‘ وہ برس پڑی،’’میں ناراض کیوں نہ ہوں۔۔۔ یہ آپ کا کریم میری بہن کو جے پور سے اڑا لایا ہے۔ بتائیے آپ، میرا خون نہیں کھولے گا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو بھی وہ پیش کی گئی تھی؟‘‘
منشی برکت علی عشاء کی نماز پڑھ کر چہل قدمی کرتے ہوئے امین آباد پارک تک چلے آئے۔ گرمیوں کی رات، ہوا بند تھی۔ شربت کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے پاس لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ لونڈے چیخ چیخ کر اخبار بیچ رہے تھے، بیلے کے ہار والے ہر بھلے مانس کے پیچھے ہار لے کر لپکتے۔ چوراہے پر تانگہ اور یکہ والوں کی لگا تار پکار جاری تھی۔’’چوک! ایک سواری چوک! میاں چوک پہنچا دوں!‘‘
دس روز سے وہ متواتر فارس روڈ کے اس قمار خانے میں دو سو روپیہ ہارنے کے لیے آرہا تھا۔ کبھی تو یہ روپے دو تین ہاتھوں ہی میں ختم ہو جاتے اور کبھی ان کو ہارتے ہارتے صبح ہو جاتی۔گیارھویں روز بجلی کے کھمبے کے پاس جب ٹیکسی رکی تو اس نے اپنی ناک پر موٹے موٹے شیشوں والی عینک جما کر اور دھوتی کی لانگ ٹھیک کرکے ایک نظر دائیں جانب دیکھا تو اسے ایک دم محسوس ہوا کہ وہ دس روز سے اس بدشکل عورت کو دیکھ رہا ہے۔ حسب دستور ٹوٹا ہوا آئینہ سامنے رکھے لکڑی کے تخت پر بیٹھی سنگار میں مصروف تھی۔
آخری بار دیکھنا ہے اسےپھر لگاتار دیکھنا ہے اسے
مولانا ادھر بہت موٹے ہو گئے تھے اور وہ حیران تھے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے شہر میں لگاتار کئی سال گزارنے کے باوجود نفاست حسن نے اپنی بیٹھک میں ایک آدھ بڑی کرسی رکھنے کی ضرورت کیوں نہ محسوس کی تھی۔ ابھی تک بڑھئیوں نے بڑی کرسیاں بنانا بالکل ترک تو نہیں کیا۔ یہ اور بات ہے کہ نئے زمانے میں اب لوگ کبھی اتنے موٹے نہ ہوا کریں گے! اپنی گول گول گھومتی ہوئی آ...
ممکن نہیں ہے اس کو لگاتار دیکھنارک رک کے اس کو دیکھ اگر دیکھنا بھی ہے
مولانا اس نرم آواز کے سننے کے عادی نہ تھے۔ ہمت کر کے ایک لفظ بولے، ’’دیا سلائی۔‘‘ مولوی صاحب کی بیوی پر ابھی تک نیند غالب تھی مگر اس نیم بیداری کے عالم میں، رات کی تاریکی، ستاروں کی جگمگاہٹ اور ہوا کی خنکی نے شباب پر اپنا طلسم کر دیا تھا۔ یکبارگی انھوں نے مولانا کا ہاتھ اپنی طرف کھینچا اور ان کے گلے میں دونوں باہیں ڈال کر، اپنے گال کو ان کے منھ پر رکھ کر، لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے کہا، ’’آؤ لیٹو۔‘‘
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books