aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "सिसक"
صدق جائسی
died.1918
مصنف
محمد حیدر صدق
قدم قدم پہ تھکن ساز باز کرتی ہےسسک رہا ہوں سفر کا عذاب پہنے ہوئے
جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلا...
کلیاں سسک کے رونے لگی چاند رات میںاور پیڑ دے رہا ہے سدا کچھ ہوا تو ہے
کئی دن تک وہ اکیلا بھوکا پیاسا اس جنگل میں گھومتا رہا اور وہ ان تمام جگہوں پر گیا جہاں پر وہ موگری کے ساتھ گیا تھا اور ان جگہوں پر جا کر اس نے ان تمام جذبوں کو بھلانا چاہا جنہوں نے موگری کی موجودگی میں اس کے لئے دھندلے دھندلے شفق زار تعمیر کئے تھے۔ کئی بار وہ موگری کی عدم موجودگی میں بھی یہاں آیا تھا تو بھی اسے ہر جگہ موگری کی عدم موجودگی میں بھی ا...
सिसकسسک
cry silently
دربار دربار
ہندوستانی تاریخ
شمارہ نمبر 001, 002
ابوالکلام آزاد
لسان الصدق
صدق کا توضیحی اشاریہ
عبدالعلیم قدوائی
اشاریہ
شمارہ نمبر-001
Nov 1903لسان الصدق
سچے موتی
کتاب الصدق
ابو سعید خراز
تصوف
دربار دُربار
شمارہ نمبر 001
شمارہ نمبر 006، 007
لسان الصّدق
رسالے
صدق عظیم
سید مجاور حسین رضوی
اسلامیات
مضامین
دیوان صدق
دیوان
سلک گہر
سیداحتشام حسین
انتخاب
باہر پھر آج ہوا بپھری ہوئی ڈائن کی طرح ہونک رہی تھی، کھڑکی کے شیشے پر ایک کمزور سی ٹہنی بار بار پٹخ رہی تھی، جیسے ہوا سے بچ کر اندر چھپنے کے لیے دستک دے رہی ہو۔ بڑی مشکل سے آنکھ لگی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بوندیں ان کے پیروں پر رینگیں تو گھبراکر جاگ پڑے۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔حلیمہ ان کے پیروں پر منہ رکھے سسک رہی تھی۔ جلدی سے انہوں نے پیر کھینچ لیے پھر وہی آنسوؤں کا طوفان، یہ لڑکی تو دشمن سے مل کر ان کے خلاف مورچہ بندی پر تلی ہوئی تھی۔ یہ لوگ انہیں ڈبو کر ہی دم لیں گے۔
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیاکہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
ترس کھاتے ہیں جب اپنے سسک اٹھتی ہے خودداریہر اک خوددار انساں کو عنایت توڑ دیتی ہے
اب بھی راکھ کے ڈھیر کے نیچے سسک رہی چنگاریاب بھی کوئی جتن کرے تو جوالا مکھی بن جاؤں
وہ ایک مہینے سے اس گھر میں مقیم تھا مگر ہر رات اس کا معمول تھا کہ پہلے سوتے میں بےتحاشا کروٹیں بدلتا پھر بڑبڑانے لگتا اور پھر اٹھ بیٹھتا۔ بڑی ڈری ہوئی سرگوشی میں بیوی سے کہتا، ’’سنتی ہو؟ یہاں کوئی چیز قرآن پڑھ رہی ہے۔۔۔‘‘ بیوی اسے محض ’’اونہہ‘‘ سے ٹال کر سو جاتی تھی مگر امر کور کو اس سرگوشی کے بعد رات بھر نیند نہ آئی۔ اسے اندھیرے میں بہت سی پرچھائی...
مہابیر نے قریب آکر پوچھا، ’’کیا ہوا ہے؟ بتاتی کیوں نہیں؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟اماں نے ڈانٹا ہے؟ کیوں اتنی اداس ہے؟‘‘ ملیا نے سسک کر کہا، ’’کچھ نہیں ہوا کیا ہے اچھی تو ہوں۔‘‘ مہابیر نے ملیا کو سر سے پاؤں تک دیکھ کر پوچھا، ’’چپ چاپ روتی رہے گی بتائے گی نہیں۔‘‘ ملیا نے سرزنش کے انداز سے کہا، ’’کوئی بات بھی ہو۔ کیا بتادوں۔‘‘ ملیا اس خارزار میں گلِ صد برگ تھی۔ گیہواں رنگ تھا۔ غنچہ کا سا منہ۔ بیضادی چہرہ، ٹھوڑی کھچی ہوئی، رخساروں پر دل آویز سرخی، بڑی بڑی نکیلی پلکیں، آنکھوں میں ایک عجیب التجا، ایک دلفریب معصومیت، ساتھ ہی ایک عجیب کشش۔ معلوم نہیں چماروں کے اس گھر میں یہ اپسرا کہاں سے آگئی تھی۔ کیااس کا نازک پھول سا جسم اس قابل تھا کہ وہ سر پر گھاس کی ٹوکری رکھ کر بیچنے جاتی۔ اس گاؤں میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو اس کے تلوؤں کے نیچے آنکھیں بچھاتے تھے۔ اس کی چتونوں کیلیے ترستے تھے جن سے اگر وہ ایک بات بھی کرتی تو نہال ہوجاتے لیکن ملیا کو آئے سال بھر سے زائد ہوگیا۔ کسی نے اسے مردوں کی طرف تاکتے نہیں دیکھا۔ وہ گھاس لینے نکلتی تو اس کا گندمی رنگ طلوع کی سنہری کرنوں سے کندن کی طرح دمک اٹھتا۔ گویا بسنت اپنی ساری شگفتگی اور مستانہ پن لیے مسکراتی چلی جاتی ہو۔ کوئی غزلیں گاتا۔ کوئی چھاتی پر ہاتھ رکھتا۔ پر ملیا آنکھیں نیچی کیے راہ چلی جاتی تھی۔ لوگ حیران ہوکر کہتے اتنا غرور اتنی بے نیازی مہابیر میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں ایسا جوان بھی تو نہیں۔ نہ جانے کیسے اس کے ساتھ رہتی ہے۔ چاند میں گہن لگ جاتا ہوگا۔
’’کیوں۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘ میں پریشان ہو گیا۔’’تو بنا ڈالا تونے اس پری رخ، شعلہ بدن، ماہ پارہ کو اپنی بیوی! لا یار، ملا ہاتھ گلاب جامن والا۔‘‘
’’دیکھا، بائی گاڈ، بے بی! ابی اور میں لائیٹ دیکھا۔ ام سے بھول ہوا۔ وہ دوسرا جیپ ہو گا۔‘‘مارگریٹ گالیاں بکتی پھر ڈرائنگ روم میں چلی گئی۔ حسرت سے بڈھا انکل نے ایک لمبا سانس لیا۔ ’’یسوع مسیح! بے بی کو بچاؤ۔ اپنا بے بی بہوت چھوٹا ہے۔ کچھ نہیں جانتا۔ بائی گاڈ وہ ہنڈ ریڈ تک گننا نہیں جانتا۔ وہ بہوت مشکل میں پھنسے جاتا۔ اس کا ہلپ کرو۔ یسوع مسیح اس کا ہلپ کرو....‘‘ وہ رونے لگا۔ سسک سسک کر رونے لگا۔ پھر وہ چپ ہو گیا، اور حسب عادت بیٹھا بیٹھا اونگھنے لگا۔
ہوا یوں کہ ایک ظالم دیونے اپنے حامیوں سمیت گاؤں پر قبضہ کر لیا، ظلم کی سیاہ رات چھا گئی تھی، سورج نکلتا تھا لیکن دن نہیں ہوتا تھا، کالی سیاہ رات میں جس میں کوئی اگر اجالا کرنا چاہتا تو اسے سزا دی جاتی، غریب ڈرے ہوئے لوگ اب آہستہ آہستہ گاوں چھوڑ کر جا رہے تھے، دیوارودر کو، اب دیمک چاٹ رہی تھی، وہ گاوں اور وہ گلیاں کہ جوسارادن بچوں کے شوروغل سے مسکرا...
گھر سے چلا تو گھر کی اداسی سسک اٹھیمیں نے اسے بھی رکھ لیا رخت سفر کے بیچ
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books