aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "sar-ba-sar"
سر رابرٹ بال
1840 - 1913
مصنف
فیضؔ تھی راہ سر بسر منزلہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
روشنی کر دے سر بہ سر مولااس کی آنکھوں میں نور بھر مولا
سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جاناکیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا
ہم اب اداس نہیں سر بہ سر اداسی ہیںہمیں چراغ نہیں روشنی کہا جائے
آج یوں ہی سر بہ سر دل بہت اداس ہےبات کچھ نہیں مگر دل بہت اداس ہے
تخلیق کارکی حساسیت اسے بالآخراداسی سے بھردیتی ہے ۔ یہ اداسی کلاسیکی شاعری میں روایتی عشق کی ناکامی سے بھی آئی ہے اوزندگی کے معاملات پرذرامختلف ڈھنگ سے سوچ بچار کرنے سے بھی ۔ دراصل تخلیق کارنہ صرف کسی فن پارے کی تخلیق کرتا ہے بلکہ دنیا اوراس کی بے ڈھنگ صورتوں کو بھی ازسرنوترتیب دینا چاہتا ہے لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتا ۔ تخلیقی سطح پرناکامی کا یہ احساس ہی اسے ایک گہری اداسی میں مبتلا کردیتا ہے ۔ عالمی ادب کے بیشتر بڑے فن پارے اداسی کے اسی لمحے کی پیداوار ہیں ۔ ہم اداسی کی ان مختلف شکلوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔
بیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ دنیا کے لئے اور بالخصوص بر صغیر کے لئے خاصہ ہنگامہ خیز تھا۔ نئی صدی کی دستک نے نئے افکار و خیالات کے لئے ایک زرخیز زمین تیّار کی اور مغرب کے توسیع پسندانہ عزائم پر قدغن لگانے کا کام کیا۔ اس پس منظر نے اردو شاعری کے موضوعات اور اظہار کےمحاورے یکسر بدل کر رکھ دئے اور اس تبدیلی کی بہترین مثال علامہ اقبالؔ کی شاعری ہے۔ اقبالؔ کی شاعری نے اس زمانے میں نئے افکار اور روشن خیالات کا ایک ایسا حسین مرقع تیار کیا جس میں شاعری کے جملہ لوازمات نے اسلامی کرداروں اور تلمیحات کے ساتھ مل کر ایک جادو کا سا اثر پیدا کیا۔ لوگوں کو بیدار کرنے اور ان کے اندر ولولہ پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ اقبالؔ کی شاعری نے عالمی ادب کے جیّدوں سے خراج حاصل کیا اور ساتھ ہی ساتھ تنازعات کا محور بھی بنی رہی۔ اقبال بلا شبہ اپنے عہد کے ایسے شاعر تھے جنہیں تکریم و تعظیم حاصل ہوئی اور ان کے بارے میں آج بھی مستقل لکھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے بچوں کے لئے جو شاعری کی ہے وہ بھی بے مثال ہے۔ان کی کئی نظموں کے مصرعے اپنی سادگی اور شکوہ کے سبب آج بھی زبان زد عام ہیں۔ مثلاً سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا یا لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری کا آج بھی کوئی بدل نہیں۔ یہاں ہم اقبالؔ کے مقبول ترین اشعار میں سے صرف ۲۰ اشعار آپ کی نذر کر رہے ہیں۔ آپ اپنی ترجیحات سے ہمیں آگاہ کر سکتے ہیں تاکہ اس انتخاب کو مزید جامع شکل دی جا سکے۔ ہمیں آپ کے بیش قیمت تاثرات کا انتظار رہے گا۔
सर-ब-सरسر بہ سر
entirely/ completely
بیس ہزار سال بعد
اظہار اثر
منشی بال مکند بے صبر
تقی عابدی
چھبیس سال بعد
امرتا پریتم
افسانہ / کہانی
تیس سال بعد
رضا علی عابدی
سفر نامہ
بے سروپا
سالک لکھنوی
زبان و ادب
بیس سال بعد
فلمی نغمے
معین الدین احمد
غالب بہ صد انداز
برجیندرا سیال
سو سال بعد
نسیم حجازی
کہانی
خواتین کی تحریریں
مونوگراف
بےسر کی فوج
ابن سعید
دو سال بعد
شرت چندر
داستان
تیغ فقیر بر گردن شریر حربہ سیفی بر سر کعفی
مولوی محمد حسین
مرثیہ
میر خلیق
سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہدشت اب اپنی جگہ باقی نہ گھر اپنی جگہ
ہمیں وقف غم سر بسر دیکھ لیتےوہ تم کچھ نہ کرتے مگر دیکھ لیتے
سر بہ سر ایک چمکتی ہوئی تلوار تھا میںموج دریا سے مگر بر سر پیکار تھا میں
سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھےاور پھر خود ہی تہ خاک چھپاتا ہے مجھے
سر بسر شاخ دل ہری رہے گیتا ابد آنکھ میں تری رہے گی
سر بسر پیاس میں ڈوبا نظر آتا ہے مجھےجس جگہ بھی کوئی دریا نظر آتا ہے مجھے
میں نے کب دعویٰ کیا تھا سر بسر باقی ہوں میںپیش خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں
گم کر دیا ہے دید نے یوں سر بہ سر مجھےملتی ہے اب انہیں سے کچھ اپنی خبر مجھے
بھرے ہیں اس پری میں اب تو یارو سر بسر موتیگلے میں کان میں نتھ میں جدھر دیکھو ادھر موتی
سر بسر بدلا ہوا دیکھا تھا کل یار کا رنگخوب پہنا ہے نیا اس نے بھی اس بار کا رنگ
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books