aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "taskiin-e-anaa"
یہ تو میں خود ہوں وہ احمق جس کیاپنی رسوائی میں تسکین انا ہوتی ہے
کچھ آج زلزلہ سا زمیں کو ہے گور میںتسکینؔ بے قرار مگر آرمیدہ ہے
اے اناؔ ہے یہی مرا شیوہاپنے دشمن کو بھی دعا دینا
اے اناؔ میری طبیعت میں ہے شوخی لیکندل شکن کوئی شرارت نہیں کرنے والی
کیسے وہ تلخ تر ہیں مرے شور عشق سےقسمت سے اپنا چاہنے میں بھی مزا نہیں
غزل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "محبوب سے باتیں کرنا" اصطلاح میں غزل شاعری کی اس صنف کو کہتے ہیں جس میں بحر، قافیہ اور ردیف کی رعایت کی گئی ہو۔اور غزل کا ہر شعر اپنی جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع اور آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہا جاتا ہے۔
بے نیازی زندگی کی ایک اہم ترین قدر ہے کہ آدمی اپنی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے اپنی ذات تک ہی محدود ہوجائے حالانکہ اس کی بھی کچھ حدیں اور کچھ خاص صورتیں ہیں ۔ شاعری میں بے نیازی کے مضمون کا بنیادی حوالہ معشوق ہے کہ وہ عاشق سے اپنی بے نیازی کا اظہار کرتا ہے اور اس کی طرف سے اپنی ساری توجہ پھیر لیتا ہے ۔ شاعروں نے بے نیازی کے اس مضمون کو اور زیادہ وسیع کرتے ہوئے خدا سے جوڑ کر بھی دیکھا ہے اور گہرے طنز کئے ہیں ۔
تحفے پر یہ شعری انتخاب آپ کے لئے ہماری طرف سے ایک تحفہ ہی ہے ۔ آپ اسے پڑھئے اور عام کیجئے ۔ عام زندگی میں تحفہ لینے اور دینے سے رشتے پروان چڑھتے ہیں ، تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور نئے جذبوں کی آبیاری ہوتی ہے ۔ لیکن عاشق اور معشوق کے درمیان تحفہ لینے اور دینے کی صورتیں ہی کچھ اور ہیں ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب آپ کو اور بھی کئی دلچسپ جہتوں تک لے جائے گا ۔
तस्कीन-ए-अनाتسکین انا
satisfaction of ego
باغ وبہارتحقیق وتنقیدکےآئینے میں
سلیم اختر
فکشن تنقید
امراؤ جان ادا
ابواللیث صدیقی
غالب تحقیق جدید كے آئینے میں
شفیع شیخ
سوانح حیات
تحقیق دھرم
بابو جگناتھ پرشاد
اخلاقیات
ادراک
شاہ اکبر داناپوری
نقشبندیہ
آئینہ تحقیق
عبدالقادر
اسلامیات
وغایۃ المرام فی تحقیق المولد والقیام لتعظیم سید الانام
محمد رؤف احمد
آئینہ تنقید
محبوب احمد صدیقی
درۂ فاروقی
محمد ناظر علی ناظر
مغرب میں تنقید کی روایت
عتیق اللہ
تحقیق
التلویح الیٰ اسرار التنقیح
ناز و ادا و غمزہ سے یوں دل لیا مرالے جائیں جیسے مست کو ہشیار کھینچتے
تسکینؔ کروں کیا دل مضطر کا علاج ابکم بخت کو مر کر بھی تو آرام نہ آیا
پوچھے جو تجھ سے کوئی کہ تسکیںؔ سے کیوں ملاکہہ دیجو حال دیکھ کے رحم آ گیا مجھے
نام تسکیںؔ پہ یہ مضمون تپش نازیباتھا تخلص جو سزاوار تو بیتاب مجھے
تسکیںؔ نے نام لے کے ترا وقت مرگ آہکیا جانے کیا کہا تھا کسی نے سنا نہیں
سو طرح کی فکر میں تسکیںؔ پڑےدل لگا کر اس بت عیار سے
نظر صاف آئے نہ تصویر جس میںمیں وہ آئنہ توڑنا چاہتی ہوں
تسکیںؔ یہ جان و دل تھے ہمیں بھی کبھی عزیزاب زندگی ہے کس کی بدولت نہ پوچھیے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books