Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بیک لین

جوگندر پال

بیک لین

جوگندر پال

MORE BYجوگندر پال

    کہانی کی کہانی

    ’’کہانی پسماندہ طبقے کے ایک کردار کے ذریعے ملک میں تیزی سے ابھر رہے متوسط طبقے کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک کباڑی کوٹھیوں سے بنی ایک کالونی میں روز کوڑا لینے آتا ہے۔ وہ کوٹھیوں کی ان پچھلی گلیوں میں جاتا ہے جہاں پر کوڑے کے ٹرم رکھے ہوتے ہیں۔ وہ ٹرم کو الٹتا ہے اور کوڑے میں سے اپنے کام کی چیزیں لے کر باقی کو واپس اسے ٹرم میں بھر دیتا ہے۔ ٹرم سے نکلنے والی طرح طرح کی چیزوں کو دیکھتے ہوئے وہ ان گھروں کے خاندانی، جسمانی رشتوں، کاروبار اور سماجی اخلاقیات کی پرتیں اگھاڑتا جاتا ہے۔‘‘

    لال پگڑی والے نے مجھے روک لیا ہے۔

    ’’کہاں جارہے ہو؟‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ اسے کیا بتاؤں۔

    ’’جاؤ، خبر دار، جو ادھر ادھر آنکھ اٹھائی۔ ناک کی سیدھ میں چلتے جاؤ۔‘‘

    چلو، چھٹی ہوئی۔ یہ لوگ نامعلوم کیوں مجھے روک روک کر خبردار کرتے رہتے ہیں۔ میں کوئی ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں۔ ہمیشہ اپنی ناک کی سیدھ میں چلتاہوں۔ کوئی کسی طرف بھی منہ کرے۔ چلنا تو اسے اسی طرف ہوتا ہے جدھر اس کی ناک منہ کیے ہو۔ موٹی سی بات ہے، پرغریب بے چارہ بولے تو کیا بولے؟ میں سرہلا ہلا کر گویا لال پگڑی والے کو بار بار سلا م کرتے ہوئے ناک کی سیدھ میں چل رہا ہوں اور شرمندہ ہوں کہ کچھ نہ کرنے پر بھی پکڑا گیا ہوں۔

    ’’ٹھہرو۔‘‘

    اس کی آواز پر میرے پیر چلتے چلتے میری مرضی یا نا مرضی کے بغیر ایک دم ٹھہر گئے ہیں۔ میں ہوں کیا، جو اپنی مرضی سے رکوں یا چلوں؟

    اس نے تیزی سے میرے قریب آکر پوچھا ہے، ’’اس جھولے میں کیا ہے؟‘‘

    میں اپنے کام پر نکلتا ہوں تو چادر کا جھولا بنا کر دائیں کندھے سے لٹکا لیتاہوں۔

    ’’بولو۔‘‘

    میں نے گھبرا کر جھولے کو پیٹھ کی طرف پھیر لیا ہے۔ اتنا پردہ تو بنا ہی رہنا چاہیے کہ دل پھوٹ پھوٹ کر کھال کے باہر نہ آنے لگے۔

    ’’بولتے کیوں نہیں؟ جھولے میں کیا چھپا رکھا ہے؟‘‘

    لال پگڑی والے نے جھپٹ کر جھولے کو تیز تیز ٹٹولا ہے اور پھر منہ لٹکا کر گویا ہوا ہے، ’’یہ تو خالی ہے۔‘‘

    ا س کا منہ غصے سے پھول کر پھٹا پرانا فٹبال سا بناہوا ہے، منو کباڑئیے کے پاس لے جاؤں تو اس حالت میں بھی چونی دے ہی دے گا۔ خوف زدہ ہونے کے باوجود میں شاید مسکرادیا ہوں۔

    ’’ہنس کیوں رہے ہو، مجھے بے وقوف سمجھتے ہو؟‘‘

    میں نے ’’نہیں‘‘کہنے کے لیے بڑے ادب سے سر ہلایاہے مگر کسی بے وقوف کو جھوٹ موٹ یقین دلایا جائے کہ وہ بے وقوف نہیں تو اسے اپنی بے وقوفی پر اور غصہ آنے لگتا ہے۔

    ’’تم بدمعاشوں کو میں خوب جانتا ہوں۔ خالی جھولا لٹکائے موقع کی تاک میں گھومتے پھرتے ہو۔‘‘

    یہ بات اس کی جھوٹی نہیں مگر سبھی لوگ یہی تو کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے دل میں جھولا لٹکائے اسی تاک میں مارے مارے پھرتے رہتا ہے، کیا معلوم کب کیا ہاتھ آجائے؟

    ’’بھاگ جاؤ، ورنہ خون پی جاؤں گا۔‘‘

    میں یہ سوچتے ہوئے آگے ہولیاہوں کہ ہزار غصے کے باوجود جنگلی جانور بھی پئیں تو پانی ہی پیتے ہیں۔ پھر آدمی کیوں اپنا پارہ چڑھتے ہی آدمی کے لہو کا پیاسا ہو جاتا ہے۔۔۔؟ آج سویرے کی بات ہے کہ کھانے کے لیے روٹی کی پوٹلی کھول کر میں نے جو ذرا پیٹھ موڑی تو فقیرے نے روٹی پر جھپٹا مارکر اسے منہ میں لے لیا اور بھاگ نکلا۔۔۔ فقیرا میرا کتا ہے جو میری غیر حاضری میں میری جھونپڑی کی رکھوالی کرتا ہے۔۔۔ اس کے پیچھے میں نے گالیوں کی پوری فوج چھوڑ دی مگر وہ سب سے بچ کر صاف نکل گیا۔ بتانے میں یہ جارہا ہوں کہ فقیرے کو گالیاں بکتے ہوئے میری زبان دانتوں میں آکر کٹ گئی اور لہو لہان ہو گئی اور۔۔۔ پتہ نہیں بھوک لگی ہوئی تھی یا کیا؟ لہو کا ذائقہ مجھے بڑا اچھا لگا اور میں کافی دیر انجانے میں اپنا لہوبڑے مزے سے حلق سے اتارتا رہا۔ اپنی خوراک کا بندوبست اگر اپنے ہی بدن سے ہوتا رہے تو سارے جھنجھٹ سے چھٹکارا ہو جائے۔۔۔

    اپنے خیال کی رو میں، میں یہاں کوٹھیوں کے آگے سڑک پر آگیا ہوں، میرا یہاں کیا کام ہے؟ سڑک کی دونوں طرف پالش کیے ہوئے پتھر کی خوبصورت کوٹھیاں ہیں اور ان کے آگے چار ایک فٹ کے باہری دیواروں تک پتھرہی کے فرش پرباغیچے لگے ہوئے ہیں جن کے رنگ برنگے پھولوں نے دیواروں سے سراٹھا کر میری طرف دیکھا ہے اور پھر آپس میں سرگوشیاں کرکے ہنسنے لگے ہیں۔

    میں نے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا ہے۔

    میرے پیروں کے نیچے سڑک اتنی صاف ہے کہ اس پر چلتے ہوئے اپنا بدن مجھے دھبہ سا لگا ہے۔ ہاں، اتنے صاف ستھرے آس پاس میں میر ا کیا کام؟ ایک میں ہی میں یہاں اس قدر گندا معلوم ہورہا ہوں، مانو کسی کوٹھی والے نے اپنا کوڑا کرکٹ کوٹھی کی پچھلی گلی کی بجائے آگے کی طرف پھینک دیا ہو۔ منو کباڑئیے سے میں نے کئی بار کہا ہے، کباڑ کم ہے تو مجھے بھی اس میں ڈال کر لے لو، پر دام پورے دو، مگر منو مجھے صاف جواب دیتا ہے، دام تو چیز کے ہوتے ہیں، تم کس کام کے؟ سو میں ان کوٹھیوں کی پچھلی گلیوں میں ان کے ڈھیروں گندمیں سے اس کے کام کی چیزیں چن چن کر اپنا جھولا بھرتارہتا ہوں۔

    میں پچھلی گلی میں داخل ہونے کے لیے مڑ گیا ہوں اور وہاں پہنچ کر نتھنوں میں مانوس بو باس گھستے ہی مجھ میں دم پیدا ہونے لگا ہے۔ ان جانی پہچانی بوؤں کے دھکم دھکا میں میرا جی چاہتا ہے کہ بے اختیار ہنستا چلا جاؤں۔ پچھلے ہفتے اسی کیفیت میں میری ہنسی تھمنے میں نہ آرہی تھی کہ ایک مرغ۔۔۔ وہ۔۔ ہاں، وہی ہے۔ وہ مرغ اپنی مرغی کے پیچھے بھاگتے ہوئے اچانک اچھل کر میرے کندھے پر آبیٹھا اور سانس کے سارے در کھول کر بانگ دینے لگا۔ اور مجھے لگا کہ اس پھڑپھڑاتی بانگ کے پروں تلے میں انڈے کا انڈا اپنے آپ پھوٹ گیا ہوں اور اندھیرے سے باہر آکر اجالے کی جل تھل میں نہانے لگا ہوں۔

    بابو کتا بھی میرے پیچھے پیچھے گلی میں آپہنچا ہے۔ بابوکو اس کا نام میراہی دیا ہوا ہے اور کچھ دینے کو میرے پاس ہے ہی کیا؟ یہاں کے نوکروں اورکتوں کو بابو کہہ کے بلاتاہوں تووہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ ایک بار چارنمبر والوں کے نوکر کا منہ اپنے گھر والوں کی گالیاں کھا کھا کے پھولا ہوا تھا کہ میں نے بڑے پیار سے اس سے کہا، دوائی کے دام نہ ہوں بابو، تو بیماری کو ہنسی خوشی جھیلنے سے بھی آدمی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ وہ بے چارہ رونے لگا۔۔۔

    روؤ نہیں بابو۔۔۔ بابو۔۔۔ بابو۔۔۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ بابو کتا بھی پاس ہی کھڑا ہے۔ اس نے مجھے اس کا نام اس لونڈے کے حوالے کرتے ہوئے پایا تو غصے میں چھلانگ لگا کر نردوش کی پنڈلی کو اپنے دانتوں میں لے لیا۔ بابو جہاں بھی ہو میرے یہاں پہنچتے ہی بو پاکر دم ہلاتے ہوئے چلا آتا ہے۔

    مجھے اپنی طرف متوجہ نہ پاکر وہ اپنے بند منہ سے غرایاہے۔

    ’’ہاں، ہاں، دیکھ لیاہے بابو، کہو کیسے ہو؟‘‘

    میں نے اس کی طرف سر اٹھایا ہے اور اس کے منہ میں ایک سالم ڈبل روٹی دیکھ کر میرا پیٹ خالی ڈھول کی طرح تھئی تھئی بجنے لگا ہے۔۔۔ آؤ۔

    میں گلی کے بیچ میں ہی بیٹھ گیا ہوں اور اس نے منہ کھول کر ڈبل روٹی میرے آگے مٹی میں گرا دی ہے۔

    ’’اوبے وقوف، مٹی میں کیوں گرا دی ہے؟ کھانے والی چیزوں کو تو آنکھوں میں اٹھا رکھتے ہیں۔‘‘

    میں نے ڈبل روٹی سے مٹی جھاڑ کر آدھی اس کے آگے ڈال دی ہے اور آدھی پر اپنا منہ مارتے ہوئے مجھے یاد آیا ہے کہ آج میں نے چھوٹو کے ہاتھ فقیرے کو روٹی بھیجی تھی۔ بھوکا آدمی ہے اس نے آپ ہی کھالی ہوگی۔ میں ہنسنے لگا ہوں، خالی پیٹ میں ڈبل روٹی اترنے سے یا اپنے اس خیال پر، کہ جسے ہم کتا کہتے ہیں اس کی تو بھوک سے جان نکل رہی ہوتی ہے مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ آدمیوں کی طرح پچھلی دو ٹانگوں پر کھڑا ہوجائے اور اگلی کو ہاتھوں کی طرح باندھ کرہم سے اپنی اجرت کی بھیک مانگتا رہے۔ میں نے گویا فقیرے کو پیار کرنے کے لیے بابو کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا ہے اور اس بے زبان نے بھونک کر مجھ سے پوچھا ہے، اور لاؤں؟

    مجھے معلوم ہے کہ باہر ی سڑک پر جب وہ چڑچڑا اور بڈھا حلوائی گدی پر بیٹھے اونگھنے لگتا ہے تو بابو موقع پاتے ہی اس کے تھالوں سے کچھ نہ کچھ اچک لیتا ہے۔ بڈھا بے چارہ ہر چیز گنتی سے رکھتا ہوگا مگر اس کے کم پڑ جانے پر اپنے بوڑھے حافظے اور جوان بیٹے کو کوستا ہوگا۔ حرام کی اولاد آوارہ گردی کرتا پھرتا ہے۔ سارا کام سنبھال لے تو میں کیوں ہڈیوں کوکوٹ کوٹ کر لڈو بناتا رہوں۔ تین چار دن پہلے میری جیب پیسوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں نے بابو سے کہا، آؤ آج بڈھے کو پیسے دے کر کھاتے ہیں۔ بابو میرے آگے آگے گویا سوٹ بوٹ پہن کر ہو لیا اور بڈھے کی دکان پر اس نے بڑی شان سے بھونک لگائی، دو ڈبل روٹیاں دو۔ جلدی!

    بابو نے پھر سے پوچھا ہے، ’’بس، یا اور لاؤں؟‘‘

    ’’نہیں، اتنی ہی بہت ہے، آؤ، اب اپنا کام کریں۔‘‘

    سب سے پہلے میں کوڑے کے ڈرم کو الٹ دیتاہوں اور بابو میری سہولت کے لیے پنجے مار کر کوڑے کو خوب پھیلا دیتا ہے اور پھر میں اپنے مطلب کی چیزیں چن کر کوڑا اکٹھا کر کے ویسے ہی ڈرم میں ڈال دیتا ہوں۔

    ہر کوٹھی کا ڈرم الٹتے ہی ان لوگوں کی ساری گندگی میری آنکھوں میں آجاتی ہے۔ خدا بچائے میرا دھندہ ہی یہی ہے۔ مجھے معلوم ہے اوروں کی گندگی کھجیارنا اچھا کام نہیں، گند ڈھنپا ڈھنپا نہ رہے تو روگ ہی پھیلتے ہیں مگر کیاکروں؟ ان کے کوڑے کے ڈھکنے نہ کھولتا رہوں تو بھوکوں مروں۔

    ’’آؤ۔۔۔!‘‘میں نے تین نمبر والوں کا ڈرم الٹ کر بابو سے کہا ہے۔ مجھے پہلے ہی سے پتہ ہے کہ اس ڈرم سے ردی کاغذ، شراب کے خالی ادھے اور پوے اور سگریٹ کے بے حساب ٹکڑے نکلیں گے۔ منو کباڑیا کہتا ہے کہ اخبار کا کاغذ لایا کرو۔ کہاں سے لے جاؤں اخبار کا کاغذ؟ گھر والے کو خبروں کی ٹوہ بھی تو ہو۔ اسے تو اتنا بھی علم نہیں کہ اس کے گھر میں کیا ہورہا ہے۔ پروفیسر صاحب جب رات دن اپنی الم غلم سوچوں سے کورے کاغذ کالے کر کر کے ردی کی ٹوکری بھررہے ہوتے ہیں تو ساتھ کے کمرے میں ہی ان کی بیوی جوان نوکر کو گرما رہی ہوتی ہے۔

    سب سے پہلے میں خالی بوتلوں کو اٹھا کر جھولے میں ڈالنے لگا ہوں، کیا مجال، کسی بوتل میں شراب کی ایک بوندبھی باقی ہو۔ سالا نوکر بوتل میں رہی سہی کو بھی پانی میں گھول کر غٹ غٹ چڑھا جاتا ہے۔ نہیں تو اتنی بوتلوں میں سے بوند بوند بھی جمع کر لیا کروں تو ہفتے میں ایک بار تو میرا جلسہ ہو ہی جایا کرے۔ ہاں، اس دن مجھے اس ڈرم سے ایک پورا ادھ کھلا ادھا مل گیا تھا۔ انجانے میں پھینک دیا ہوگا ورنہ اس ماں کے یار کے ہتھے چڑھ جاتی تو اسے کیا اپنے باپ کے لیے یہاں ڈال جاتا؟ میں اسی دم کام دھندا چھوڑ کے خوشی سے ہانپتے ہوئے سیدھا اپنی جھونپڑی میں چلا آیا اور خالی پیٹ بوتل خالی کر کے سارا دن اور ساری رات فرش پر اوندھا پڑا رہا۔ فقیرا غصے سے غراغرا کر میرا بدن کٹکٹاتارہا مگر نشے میں مجھے یہی لگتا رہا کہ میرے نصیب کھل گئے ہیں اور دودھیا چام سے لدی ہوئی گھر والی سچ مچ کہیں سے میرے ساتھ بسنے کو آگئی ہے او ر میرے بدن کو چوم چاٹ کر میری جنم جنم کی تھکان چوسے جارہی ہے۔

    دوسرے دن میری آنکھ کھلی تو فقیرے نے مجھے دل کھول کر سنائیں۔ میں پہلے تو اسے شرمندگی سے سنتا رہا پھر سر اوپر اٹھائے بغیر اس سے کہا، اب چھوڑو بھی باپ مورے، جوہوگیا سو ہو گیا۔۔۔ پروفیسر کی ردی سوچوں کا پلندہ باندھتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو بتایاہے کہ اتنا بوجھل ہو گیا ہے پر منو تو دس پیسے قیمت لگانے پر بھی راضی نہ ہوگا۔ اب میں نے سگریٹ کے ٹکڑوں پر آنکھیں لگالی ہیں۔ اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں کہ جب تک انگلیاں نہ جلتی ہوں گی، اپنے اردگرد دھوئیں کے غبار گہرے کرتا جاتاہوگا۔ ارے بھئی، کچھ سوچنا ہی ہے تو باہر آکے سیدھا سیدھا دیکھ کے سوچو، جس کے لیے سوچیں بنی ہوئی ہیں، یہ کیا کہ اپنی سوچوں کے بارے میں ہی سوچتے چلے جاؤ۔ میں نے دو چار سگریٹ کے ذرا بڑے ٹکڑے چن کر جیب میں رکھ لیے ہیں۔ ایک ایک دو دو کش تو نکل ہی آئیں گے۔۔۔ ارے بس۔۔۔ میں نے بابو سے کہاہے اور ملبے کو واپس ڈرم میں ڈالنے کے لیے اکٹھا کرنے لگاہوں۔

    ابھی تک میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میں آپ ہی اپنے دماغ میں بولے جارہا ہوں، دراصل ہو یہ رہاہے کہ کوئی مینڈک اگلے گھر کی ڈھنپی ہوئی نالی کی سڑانڈ میں پھدکتے ہوئے بے تحاشہ ٹرٹر کیے جارہا ہے۔ اتنے میں میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک سانپ کہیں سے سائیں سائیں وارد ہوکر اس کے پیچھے نالی میں جا گھسا ہے۔

    ’’کیوں بھونک رہے ہو بابو؟‘‘مینڈک کو جان پیاری ہے تو جو دیکھتا ہے اسے چپ چاپ دیکھتا رہے۔ دیکھ کر ٹرٹر کیوں کرنے لگتا ہے؟ ایک بات یاد رکھوبابو۔ یہ ساری دیواریں اس لیے حفاظت سے کھڑی ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے سدا چپ رہتی ہیں۔ بولنے لگیں تو اسی دم ڈھے جائیں۔ اچھا، یہ بتاؤاس گھر کی عورت رات کو اتنی دیر سے کہاں سے آتی ہے؟ جن کے ساتھ آتی ہے ان کی گاڑی ذرا فاصلے پررکوالیتی ہے اور بلی کی طرح پنجوں پر چلتی ہوئی پچھواڑے سے اپنے گھر میں داخل ہو جاتی ہے۔ نہیں، مورکھ، ا س کے شوہر کو سب کچھ معلوم ہے۔ وہی تواس کی غیر حاضری میں بچوں کو سنبھالتا سلاتا ہے۔ جب وہ لوٹتی ہے تو دروازہ کھولتے ہی وہ اس کا وہ ہاتھ اندر کھینچ لیتا ہے جس پر اس کابٹوا لٹک رہا ہوتا ہے۔ اتنی دیر تک راہ تکنے کے بعد اب کہیں بے چارے کی باری آتی ہے کہ بیوی کے ساتھ سوئے۔ نہیں، چپ، ہمیں کیا لینا دینا ہے؟ کلرک آدمی ہے تو کیا؟ کتنی آن بان سے رہتا ہے۔ ہاں، دفتر کی تنخواہ پر تو گزر بسر بھی نہ ہو۔ جو کرتا ہے ٹھیک ہی کرتاہے۔ اتنی شاندار کوٹھی میں رہتا ہے اور اپنا سارا کوڑا روز کے روز صاف کرکے باہر پھینک دیتا ہے۔ ہاں، تم ٹھیک ہی کہتے ہو بھائی، اس سے تو اچھا ہے کہ رال ٹپکاٹپکا کر اوروں کا کوڑا پھوڑتا رہے۔

    اس کوٹھی کا ڈرم اکثر خالی ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے پچھواڑے کا بھی آگاصاف دکھانے کے لیے اپنی گندگی آس پاس والوں کے ڈرموں میں ڈال دیتے ہیں۔ میں اس ڈرم کو کھولے بغیر آگے بڑھ جاتاہوں مگر پھر خیا ل آتاہے کہ ایک نظر دیکھ ہی لوں، ڈرم میں بالوں کے ایک سنہری کلپ نے مجھے دیکھ کر آنکھ ماری ہے، شاید سونے کا ہے۔ میں نے تیزی سے اسے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ نہیں تانبے کا ہوگا۔ مجھے سونے کی پہچان ہے، نہ تانبے کی۔ منو کباڑیہ تو کھرا سونا بھی لے تو تانبے کی دام پر ہی لے۔ میں نے کلپ کو اپنی جیب میں ڈال لیا ہے اور سوچنے لگا ہوں کہ رلدو کی جورو کے بالوں میں اس کی سج دھج کیسے لگے گی۔ اگر سونے کا ہے تو ایک نہیں، دس بار سودا پکا کر کے دوں گا۔ میرے قریب ہی ایک جھونپڑی میں رلدو بھی اپنی جورو سے پیشہ کرواتاہے۔ مگر اس کی یہ خوبی ہے کہ وہ کھلے کھلے سب کچھ کرتا ہے۔ ارے بھائی۔ ایک دن وہ مجے ے بتارہا تھا، جب مجھے شک ہونے لگا کہ میری عورت کے لچھن ٹھیک نہیں تو میں اسے ویشیا سمجھ کر ہی اس سے پیش آنے لگا۔ کسی دوسری کے پاس جاؤں تو پورا سولے کے بھی اتناخیال نہ رکھے۔ وہ تو کئی سو دیتی بھی ہے اور میرے پسینے پر خون بھی بہاتی ہے۔ سمجھے۔۔۔؟ میں نے اپنے آپ سے کہا ہے کہ میں کیا سمجھوں۔ کوئی مل جائے تو سمجھ میں بھی آجائے۔

    یہ دیکھ کرکہ میں اسی نالی کے منہ پر کھڑا ہوں جس میں وہ سانپ داخل ہوا تھا، میں ڈر کے مارے اتنا تیز تیز آگے ہو لیا ہوں کہ قریب ہی ایک مرغی میری ٹانگوں میں سے پھڑپھڑا کر میرے آگے نکل گئی ہے اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے لگا ہے کہ میں رلدو کی جورو کے پیچھے بھاگ رہا ہوں۔

    اگلے ڈرم کا کوڑا بھر بھر کے نیچے زمین پر بکھرا ہوا ہے۔ ڈرم کو الٹنے سے پہلے میں اس کے پہلومیں بیٹھ گیا ہوں۔ اور ابھی میری آنکھیں زمین پر اپنے مطلب کی چیز ڈھونڈ رہی ہیں کہ اس کوٹھی والوں کی نوکرانی یکلخت دروازے سے نکلی ہے اورمیرے سر پرگھر کا فضلہ اس طرح الٹ دیا ہے جیسے کوڑے کے ڈھیر پر ہی کوڑا پھینک رہی ہو۔ میں اس وقت تک سانس روکے ڈھیر کا ڈھیر پڑا رہا ہوں جب تک اس نے واپس اپنے دروازے میں داخل ہو کر اندر سے چٹخنی نہیں چڑھالی ہے اور پھر بدن جھٹک کر کھڑا ہو گیا ہوں اور ڈرم کو ٹیڑھا کرتے ہوئے بابوکو اشارہ کیا ہے کہ اپنا کام شروع کردے۔

    اس ڈرم کے گھر والے دو بھائی ہیں جو کپڑے کا بیوپار کرتے ہیں۔ بڑا بھائی دولت کے نشے میں کھویا ہوا ہے اور چھوٹا ہے ہی پاگل، بڑا نیچے رہتا ہے اور چھوٹا پہلی چھت پر، اور سب سے اوپری چھت پر ایک کمرہ ہے جس میں ان دونوں کی بوڑھی اور اپاہج ماں رہتی ہے۔ کئی بار بوڑھیا کی رونے کی آواز سن کر میں اپنا کام روک کرسراٹھائے اوپر دیکھنے لگتا ہوں اور میری نظر آنکھوں سے نکل کر بوڑھیا کے پاس جا پہنچتی ہے۔۔۔ یہ دیکھو، تمہارے لیے گڑ کے چنے لایا ہوں ماں۔ دانت نہیں ہیں تو گڑہی چوس لو۔ کھیر؟ کھیر کہاں سے لاؤں ماں۔۔۔۔؟ ان بھائیوں کے نوکر نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ بوڑھیا ہر وقت کھیر مانگ مانگ کر روتی رہتی ہے اور چپ ہوتی ہے تو آسمان کی طرف سر اٹھا کے اس طرح منہ کھول کر ہلارہی ہوتی ہے جیسے اوپر سے منہ میں کھیر ٹپک رہی ہو۔ اپنی ماں کو تو یہ بھائی ترسا ترسا کر ماررہے ہیں مگر ان کے ڈرم میں اتنی جھوٹن ہوتی ہے کہ دس لوگوں کا آرام سے پیٹ بھر جائے۔

    منو کباڑیا جس دن مٹھی گرم نہیں کرتا اس دن میں یہیں سے اپنے پیٹ کا ایندھن چن لیتا ہوں۔ منہ بنابنا کر کھانا شروع کرتاہوں مگر کھاتے ہوئے جو مزہ آنے لگتا ہے تو اس وقت تک بابو کو پاس نہیں پھٹکنے دیتا جب تک خوب سیر نہ ہوجاؤں۔ دونوں کی بیویاں آپ تو کھٹ مٹھی ہیں ہی، کھانا وہ اپنے سے بھی کھٹ مٹھا بنالیتی ہیں، اسی لیے دونوں بھائیوں کے پیٹ اتنے پھولے ہوئے ہیں۔ اپنے نوکر بیتا کو انہوں نے نکال دیا ہے۔ وہ مجھے بیڑیوں کے دھوئیں میں ان کی دھواں دھواں باتیں بھی سناتا تھا۔ اچھاہی ہوا جو وہ چلا گیا ورنہ میں اپنا کام دھندہ چھوڑ کر اس کے ساتھ بیٹھ جاتا تھا۔ بڑا بھائی اپنے پگلے بھائی کو اس طرح ڈانٹتا رہتا ہے جیسے اپنے بیٹوں کو، مگر اس کی بیوی کو جہاں تہاں اکیلا پالیتا ہے تو ہاتھ ڈالنے سے باز نہیں آتا۔ چھوٹی کے پانچوں کے پانچوں بچے بڑے بھائی کے ہیں۔ بیتا نے مجھے بتایا تھا۔۔۔ لو اور بیڑی پیو۔۔۔! اور سناؤں؟ بڑی بھی اپنے آدمی سے کم نہیں۔ اس نے اپنے باؤلے دیور کو ایسے رام کر رکھا ہے کہ اس کی سمجھ میں اور کچھ آئے نہ آئے وہ اپنی پیاری بھابی کی بات کو فوراً بھانپ جاتا ہے۔ بڑی کے دونوں چھوٹے بچوں کا منہ ماتھا ہوبہو اپنے باؤلے چچا کا سا ہے۔ اس بالی عمر میں بھی وہ اتنے گمبھیر اور سخت ہیں کہ انہیں دور سے دیکھ کر ہی پگلے کو دودو باپ نظر آنے لگتے ہیں اور خوف سے اس کا پیشاب نکل جاتا ہے۔

    بیتا کو بھائیوں نے اس لیے نکال پھینکا تھا کہ رن بھومی کے تیور دیکھ کر ایک دن اس بے چارے کی کھوپڑی الٹی ہوگئی اور وہ بڑی کو ماں کہنے کے باوجود اسے لوٹ کا مال سمجھ بیٹھا او اپنے باؤلے مالک کی طرح منہ میں انگوٹھا ڈال کر اس کی طرف بڑھتا ہی چلا گیا۔ پر چھوٹی ہو یا بڑی، مال تو بھائیوں کا ہی تھا۔ بیتا کو مارمار کر باہر نکال دیا گیا۔ شریفوں کے گھروں میں غنڈوں کا کیا کام؟ جاؤ۔۔۔ جاؤ، جو یہاں کرنا چاہتے تھے اپنی ماں بہن سے کرو۔

    میں ان کی گندگی کو پھوڑ پھوڑ کر دیکھ رہا ہوں۔ منو کباڑئیے نے مجھے بتایا تھا کہ بڑے دکانداروں کے ڈرم دھیان سے دیکھا کرو۔ یہ لوگ کالا دھندہ کرتے ہیں او ر جب پولیس کے چھاپے کاڈر ہو توجان بچانے کے لیے نوٹوں کی گڈیاں بھی کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ نامعلوم مجھے کیوں یقین سا ہے کہ کبھی نہ کبھی ضرور مجھے یہاں سے نوٹ ہی نوٹ ہاتھ آئیں گے مگر اتنے سارے نوٹوں سے میں کیا کروں گا؟ منو کباڑیے کے پاس لے جاؤں گا۔۔۔؟ وہ تو سارے نوٹوں کی کل قیمت بھی روپے دو روپے سے زیادہ نہیں لگائے گا۔۔۔ اب تو خوش ہو فجو؟ قیمت سے پورے پچیس روپے زیادہ دے رہا ہوں۔

    آج مجھے بھائیوں کے یہاں سے کچھ بھی نہیں مل رہا۔ چھوٹی اور بڑی کی ماہواری کی سوکھی کترنیں ان کی جھوٹن میں بھیگ رہی ہیں، یا پھر نرودھ کے چند ٹکڑے ہیں جنہیں میں نے صاف کر کے تھیلے میں پھینک لیا ہے، ہر گھر کے ڈرم سے چند ایک ٹھیک ٹھاک ٹکڑے مجھے ضرور مل جاتے ہیں۔ کئی بار تو کوڑی سے بھی اوپر ہو جاتے ہیں۔ میں انہیں بھی منو کوہی تھما آتاہوں۔ انہیں صابن سے دھو کر لایا کرو فجو۔ میں تو ایسے ہی لے جاتا ہوں۔ اتنے پیسے بھی نہیں دیتا کہ دیسی صابن کا ایک ٹکڑا ہی مل جائے۔ اپنے سر سے دھوؤں؟ چھوٹی اور بڑی کے بالوں کے گچھوں کو بھی صاف کرکے میں نے جھولے میں ڈال لیا ہے۔ منو بولتا ہے سنہری بال لایا کرو۔ سنہری بال لانے کے لیے ولایت جاؤں؟ جو ملتا ہے وہی لے کر شکر کرتے جاؤ منو بھائی۔ عورتوں کی بدھی بھرشٹ ہوتی جارہی ہے۔ یہی حالت رہی تو سب کی کھوپڑیاں گنجی ہوا کریں گی۔ پھر سنہری تو کیا، سفید بال بھی دیکھنے میں نہ آئیں گے۔۔۔ اچانک مجھے اوپر سے بھائیوں کی بوڑھیا کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی ہے۔ دونوں بیٹے چوری چوری ایک دوسرے کی بیوی کو لیے پڑے ہوں گے، بوڑھیا کی خبر کون لے؟

    میں سوچنے لگا ہوں کہ بوڑھیا اگر اپنے گھروالوں کے لیے کوڑا ہو کررہ گئی ہے تو اسے دھپ سے باہر کوڑے کے ڈرم میں کیوں نہیں ڈال دیتے؟ میں خیال ہی خیال میں بوڑھیا کو پونچھ پانچھ کر اپنی جھونپڑی میں لے آیا ہوں۔۔۔ لو بھائی فقیرے، دیکھو ہم دونوں کی ماں آئی ہے۔ میری جھونپڑی میں رکھا ہی کیا تھا جس پر پہرہ دیتے رہتے تھے؟ گھر تو اب بھرا ہے۔ جی بھر کے اب ماں کی دیکھ ریکھ کیا کرو۔۔۔ لو، ماں، تمہارے لیے یہ گڑ کے چنے لایا ہوں۔۔۔ گڑ کے چنے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں اور میں فقیرے پر اکثر اس لیے چڑنے لگتا ہوں کہ مجھے گڑ کے چنا کھاتے دیکھ لیتا ہے تو بے اختیار بھونکنے لگتا ہے۔ ارے بھئی، تمہیں اچھے نہیں لگتے مگر مجھے تو کھانے دو۔۔۔ کھاؤ ماں۔ دانت نہیں تو گڑ ہی چوس لو۔ اور لو۔

    ماں گڑ کے چنوں کا گڑ چوس رہی ہے اور اس کا ذائقہ میرے خالی منہ میں گھل رہا ہے اور فقیرے میرا مذاق اڑانے کے لیے بھونک رہا ہے۔۔۔ ارے چل ہٹ!کتے کی ذات، تمہیں کیا پتہ، آدمیوں کا کھانا کیا ہوتا ہے؟ تم کھاؤ، ماں۔ اور دوں۔۔۔؟ نہیں، میرے ماں نہیں ہے، کبھی نہ تھی۔۔۔ میرا باپ؟ ماں ہی نہ تھی تو کس نے اسے گلے لگا کر مجھے پیدا کیاہوگا؟ کسی ملبے میں سے آپ ہی آپ کلبلاتے ہوئے پھوٹ پڑا ہوں گا۔۔۔ لو ماں اور لو۔۔۔

    میں یونہی کوڑا رولے جارہا ہوں۔ وہاں کچھ ہو توملے۔ بڑی ٹھنڈی سانس بھر کر میں گھٹنوں کے سہارے اٹھ کھڑا ہوا ہوں اور ابھی چند ہی قدم چلا ہوں کہ کسی بچے کے رونے کی نحیف سی آواز سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔ میں نے بڑے دھیان سے اپنے آس پاس دیکھا ہے۔ کوئی بھی تونہیں۔۔۔ آواز پھر آئی ہے۔ اور ہم دونوں جانور، بابو اور میں۔ ایک دم ایک سمت ہو لیے ہیں اور ایک کھلے ڈرم کے پاس آکھڑے ہوئے ہیں جس میں کوڑے کی سیج پر ایک نوزائیدہ بچہ اپنی پیٹھ پر لیٹے ننھے منے ہاتھ پیر ماررہا ہے اور اسے دیکھ دیکھ کر مجھے لگا ہے کہ میری چھاتیاں دودھ سے بھر کر پھول گئی ہیں اورمیں نے اسے اپنی آنکھوں کی ساری نرمی سے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور سوچنے لگا ہوں کہ کیا سمے آگیا ہے۔ سنگ دل اپنی نسلوں کو پیدا ہوتے ہی کوڑے میں ڈال دیتے ہیں!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے