aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گمشدہ لوگ

مبین مرزا

گمشدہ لوگ

مبین مرزا

MORE BYمبین مرزا

    مسلسل شور ہو رہا تھا۔

    آخر تنگ آکر انجلی نے آنکھیں کھول دیں۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھا الارم کلاک بج رہا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی کل دبائی اور پھر الکساہٹ سے ہاتھ وہیں چھوڑ دیا۔ الارم کلاک کی ٹررن۔۔۔ ٹرررن تو بند ہوگئی لیکن شور ابھی تھما نہیں تھا۔ آوازیں مسلسل انجلی کے سر میں دھمک رہی تھیں۔ وہ اوندھی لیٹی ان آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔ ہاتھ وہیں الارم کلاک پر دھرا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہے۔ بس اک شور تھا، ایک واویلا تھا، ایک ہنگامہ تھا جو اس کے سر میں برپا تھا۔

    اکتاہٹ کے بڑھتے ہوئے احساس نے آخر اسے اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے ٹکڑوں میں بکھرے جسم کو اکٹھا کیا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ مسہری کے بائیں طرف رکھے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے شفاف آئینے میں اسے ایک جھاڑ جھنکاڑ عورت کا عکس دکھائی دیا۔ عکس پر نظریں جمائے وہ مسہری سے اتری اور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ برش اٹھا کر بال درست کیے تو آئینے میں سے وہ جھاڑ جھنکاڑ عورت یک لخت غائب ہو گئی۔ اب وہ خود اپنے روبرو تھی۔ اس نے سر سے پاؤں تک اپنے سراپے کو بغور دیکھا، پہلے سامنے سے اور پھر گھوم کر اس عکسی بدن کو ٹٹولا۔ نائٹی کے جھول کو ایک طرف نکال کر اسے جسم پر چست کیا تو عکس کے نسوانی خطوط نمایاں ہو گئے۔ چھتیس چھبیس چھتیس۔ ابھی تک تو کچھ نہیں بگڑا، اس نے خود سے کہا۔ وہ ابھی پینتیس کی نہیں لگتی تھی۔ لمبی نیند، پھلوں کے استعمال اور یوگا کی مشقوں نے ابھی اس کی عمر کو روکا ہوا تھا۔ نین نقش بھی کچھ ایسے ہیں کہ وہ پچیس چھبیس سے زیادہ کی دکھائی نہیں دیتی ہوگی، اس خیال کے ساتھ ہی اطمینان اور سکون کا ایک سایہ اس کے پورے وجود پر اتر آیا، مگر یہ اطمینان بہت مختصر تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے سوچا، لیکن کب تک؟ یہ بناؤ کساؤ آخر کب تک رہےگا؟ بس چند برس اور۔۔۔ پانچ سات برس۔۔۔ یا شاید دس برس! پینتالیس کے بعد تو عورت ویسے بھی دھیرے دھیرے پانی بھرے مٹی کے تودے میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ بس اس گمان کے ساتھ ہی سر میں دھمکتی آوازوں نے چکرا دینے والے شور کا روپ دھار لیا۔ تب اس نے سر جھٹکا جیسے اس شور کا مطلب اسے سمجھ آ گیا ہو۔ انھی خیالوں اور سوالوں سے الجھتے ہوئے رات نجانے کب اس کی آنکھ لگی تھی۔ جسمانی تھکن اور الکساہٹ کو محسوس کرتے ہوئے اس نے سوچا، یہی خیالات شاید اسے رات بھر خواب میں بھی ستاتے رہے ہیں۔ سر میں جو دُکھن ہے وہ بھی انھی کے کارن ہے۔ اس نے چہرہ آئینے کے بالکل قریب کرکے جائزہ لیا، کیا واقعی چہرے کی ترو تازگی ابھی پوری طرح برقرار ہے؟ آئینے کا جواب اثبات میں تھا۔ اس کی نظریں خود بخود سامنے کی دیوار پر آویزاں کیلنڈر پر جا رکیں۔ یہ مارچ کے مہینے کا آخری دن تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کھڑکی کے سامنے آئی، بروکیڈ کے دبیز پردے کی ڈوری کھینچی، پردہ سرعت سے ایک طرف سرکتا چلا گیا۔ بہار کی نرم اور روشن صبح پوری طرح کھل چکی تھی۔ دیواری گھڑیال نے منادی کی۔ انجلی نے پلٹ کر دیکھا، آٹھ بج رہے تھے۔ جہاز لگ بھگ نو بجے لاہور کے ایئرپورٹ پر لینڈ کرےگا، اس کا مطلب ہے وہ ساڑھے نو بجے تک ضرور یہاں پہنچ جائےگا، اس نے سوچا۔۔۔ ’’یعنی مجھے فوراً شاور لے کر تیار ہوجانا چاہیے۔‘‘ اس نے خود سے بلند آواز میں کہا اور فوراً ہی باتھ روم میں جا گھسی۔

    ٹن ن ن۔۔۔ ٹن ن ن۔۔۔ گھڑیال گیارہ بجے کی منادی کرکے چپ ہوا تو انجلی نے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی۔ وہ بھی گیارہ بجا رہی تھی۔ اسے لگا جیسے اندیشوں نے اس پر یکایک بوچھاڑ کر دی۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ وہ تو ساڑھے نو تک ضرور پہنچ جاتا ہے۔ انجلی سال بھر سے اس کی میزبانی کررہی تھی۔ مہینے کا آخری دن وہ اس کے ساتھ گزارتا تھا۔۔۔ صبح کی پہلی فلائٹ لے کر وہ پہنچ جاتا اور پھر اس کے ساتھ رہتا۔۔۔ صبح سے رات تک اور پھر رات سے اگلی صبح تک۔ اگلی صبح وہ پہلی فلائٹ سے لوٹ جاتا۔ پہلی ہی ملاقات میں انجلی نے خود کو اس کی طرف کھنچتا ہوا محسوس کیا تھا۔ یہ ملاقات سال بھر پہلے ایک بڑے افسر کی نجی محفل میں ہوئی تھی۔ یہی مارچ کا مہینہ تھا۔ ایک خوش گوار شام جب پرندے اپنے پروردگار کی تمجید کر رہے تھے اور سورج منڈیروں سے نیچے اتر آیا تھا، بڑے سے لان میں رنگین چھولداریوں تلے یہ محفل برپا تھی۔ رنگ برنگی خوش بوؤں اور جھلملاتے چہروں کے اس جمگھٹ میں انجلی نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں سگریٹ دبا ہوا تھا اور آنکھوں میں دودھیا دُھواں تیر رہا تھا۔ لیکن انجلی اس شام کسی اور کی میزبان تھی، اس لیے ہاتھ ملانے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے کے بعد انجلی نے اپنا کارڈ اسے دیا، اس نے جلد آنے کا کہا اور ملاقات ختم ہو گئی۔ اس کے بعد ایک روز اچانک اس کا فون آ گیا۔ وہ دو روز بعد لاہور پہنچ رہا تھا اور انجلی سے میزبانی کا خواہش مند تھا۔ وہ آیا، ایک دن اس کے پاس رکا اور جاتے ہوئے بولا، ’’اگلے مہینے کے آخری دن پھر ملاقات ہوگی۔۔۔ اسی طرح پورے دن کے لیے۔‘‘

    ’’جی آیاں نوں۔۔۔ سر آنکھوں پر۔‘‘ انجلی نے مسکرا کر جواب دیا۔

    اس کے بعد سال بھر سے یہ معمول جاری تھا۔۔۔ ہر مہینے کا آخری دن وہ انجلی کے ساتھ گزارتا تھا۔ لیکن آج وہ کہاں رہ گیا۔ آدمی کا دل بھی تو بھر جاتا ہے۔ اس نے پل بھر کے لیے سوچا۔ اس خیال کے ساتھ ہی ان گنت وسوسوں کی تیز بوچھاڑ انجلی کے چہرے پر پڑی۔ اس نے انٹرکام اٹھا کر ریسپشن پر رابطہ کیا۔

    ’’نہیں میڈم! ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔‘‘ ریسیپشن سے جواب ملا۔

    ’’اچھا، تم ذرا ایئرپورٹ فون کرکے فلائٹ کا کنفرم کرو اور مجھے بتاؤ۔‘‘ انجلی نے قدرے جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا۔

    فلائٹ تین گھنٹے لیٹ تھی۔

    یہ تین گھنٹے انجلی نے کوفت، بے چینی اور اداسی کے ملے جلے احساس اور ان گنت اندیشوں کے ساتھ گزارے۔ وہ بار بار اس خیال کو جھٹکنے کی کوشش کرتی جو اس کے ذہن میں نجانے کہاں سے اچانک آ گھسا اور اب کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ اس خیال سے چھٹکارا پانے کی ہر کوشش بے سود تھی۔ اس نے نیلم کی زبان میں خود کو سمجھانے کی کوشش کی، ’’دیکھو انجلی! ہر پروفیشن کی ایک اسپرٹ ہوتی ہے۔ ہمارے پروفیشن میں محبت نہیں کی جاتی، صرف محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور یہ اظہار سچ مچ کی محبت سے زیادہ ریئل ہوتا ہے۔ یہی ہمارے پروفیشن کی اسپرٹ ہے۔‘‘ انجلی نے نیلم کی بات کو ہمیشہ دھیان سے سنا تھا اور اس پر عمل بھی کیا تھا۔ نیلم تھی تو اس کی ہم عمر لیکن اس کام میں وہ اس سے پہلے آئی تھی۔ وہ بہت کچھ جانتی تھی، انجلی کو کام کی باتیں سمجھاتی رہتی تھی لیکن آج اس کی کوئی بات انجلی کے دل پر اثر نہیں کر رہی تھی۔ انجلی جانتی تھی، وہ بیوی نہیں ہے لیکن آنے والے کا انتظار وہ اسی طرح کر رہی تھی جیسے کوئی نئی نویلی دُلہن اپنے شوہر کا کرتی ہے۔ بے چینی اور اداسی کے گہرے سائے رہ رہ کر اس کے دل پر چھائے جا رہے تھے۔ ایک خیال تھا جو اس کے پورے وجود میں کلبلا رہا تھا۔ چھتیس چھبیس چھتیس۔۔۔ لیکن آخر کب تک!؟ میں اس سے کہہ دیتی ہوں۔۔۔ وہ مان جائےگا۔۔۔ اس نے اپنی ڈھارس بندھاتے ہوئے سوچا لیکن پھر خیال آیا اور اگر نہ مانا تو۔۔۔ کیا محبت اسے مجبور کر سکےگی؟ کون سی محبت؟ کیسی محبت؟ لیکن میری اس فرمائش پر کہیں وہ بِدک نہ جائے۔۔۔! انجلی کا دل مسلسل نہیں اور ہاں کے درمیان معلق تھا۔ اس طرف ہوتا تھا نہ اس طرف۔ نیلم کا ہیولا بار بار اس کے سامنے آ کھڑا ہوتا۔۔۔ ’’انجلی! جنھیں بیوی بن کر گھروں میں راج کرنا ہوتا ہے انھیں تقدیر دھکے دے کر بازار میں نہیں لاتی۔۔۔ وہ گھروں میں ہی رہتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کا عشق معشوقی کا شوق بھی گھر میں کزنوں کے ساتھ پورا ہو جاتا ہے۔ لیٹربازی، چمے جپھے ساری فیسی لٹیز گھر بیٹھے مل جاتی ہیں۔ جو ایک بار باہر آگئی وہ پھر ہمیشہ باہر ہی رہے گی، گھر وَر نہیں ملتا پھر اسے۔۔۔ اور مل جائے تو زیادہ دن نہیں چلتا۔ انڈے کو کسی کا ہاتھ لگ جائے تو مرغی کے بیٹھنے کے قابل نہیں رہتا۔ عورت بھی انڈے کی طرح ہوتی ہے، ایک بار گھر سے باہر آ جائے تو پھر کسی گھر کے قابل نہیں رہتی۔ ہمارے جیسی عورتوں کو گھر ور کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ لائف خراب ہو جاتی ہے۔ دیکھا ہے میں نے کئیوں کو۔‘‘ نیلم کی ساری تقریر اَکارت چلی جاتی ہے۔ انجلی اگلے ہی لمحے پھر سوچنے لگتی ہے کہ آج وہ اپنے من کی بات آنے والے سے کہہ ہی دےگی۔ وہ اپنی ڈھارس بندھاتی ہے، آنے والا اس کی بات مان لےگا۔ اس لیے کہ وہ پورے ایک سال سے اسے دیکھ رہی ہے۔ وہ اس کی کوئی بات نہیں ٹالتا۔ کتنا خیال رکھتا ہے اس کا۔ جتنے پیسے، جتنے تحفے وہ ایک دن میں اسے دے کر جاتا ہے اتنے تو آج تک اسے کسی نے نہیں دیے۔ وہ بھی ضرور اس سے محبت کرتا ہے۔۔۔ دل سے اسے چاہتا ہے ورنہ۔۔۔ اور پھر انجلی اس خیال کی انگلی تھامے دور نکل جاتی ہے، بہت دور۔

    دروازہ ایک نرم آہٹ کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔۔۔ انجلی جیسے خواب سے چونکی۔ مہمان دیوتاؤں کی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔ وہ ایکدم اٹھی جیسے اس کے بےجان جسم میں برقی لہر دوڑ گئی ہو اور دوڑ کر اس سے لپٹ گئی۔ پھر نجانے کہاں سے پانی اس کی آنکھوں میں امڈتا چلا آیا۔ وہ چہکو پہکو رو رہی تھی۔

    ’’ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ یہ کیا!‘‘ رئیس نے اس کی پیٹھ سہلائی۔

    ڈھارس بندھانے پر انجلی کی ریں ریں اور بڑھ گئی۔

    ’’ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ بھئی ہوا کیا ہے؟ ہیں۔۔۔ اچھا دیکھو۔۔۔ بھئی کچھ بتاؤ تو سہی۔‘‘ رئیس تھپک تھپک کر، سہلا سہلا کر اسے چپ کرا رہا تھا۔ لیکن وہ روئے چلی جارہی تھی۔ انجلی نے چپ ہونے کی کوشش کی لیکن اس سے چپ ہوا ہی نہیں جا رہا تھا۔ اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیوں روئے جارہی ہے۔ خدا جانے کون سا دکھ تھا جس نے اس وقت ظاہر ہونے کے لیے آنکھوں کا رستہ دیکھ لیا تھا۔ رئیس اسے یوں ہی اپنے سے لگائے کھڑا رہا۔ دیر بعد آنسو تھمے تو اس نے سپردگی کی۔۔۔ پیوستگی کی اس کیفیت کو محسوس کیا جو دھیرے دھیرے اس کے جسم پر رینگتی چلی آ رہی تھی۔ انجلی کو لگا، وہ برسوں سے۔۔۔ صدیوں سے رئیس سے جڑی کھڑی ہے۔ اس نے سوچا، کاش اس کی پوری زندگی اسی طرح گزر جائے، اسی کیفیت میں۔۔۔ وابستگی کے اسی احساس کے ساتھ۔ رئیس اسے تھامے ہوئے بیڈ پر جا بیٹھا۔

    ’’ہاں! اب بولو، کوئی پریشانی ہے، کوئی مسئلہ ہے؟‘‘

    ’’اوں ہوں۔‘‘ انجلی نے نفی میں گردن ہلائی۔

    ’’پھر یہ کیا تھا۔۔۔؟ میں تو پریشان ہو گیا۔‘‘

    ’’اور میں جو صبح سے آنکھیں دروازے پر لگائے بیٹھی ہوں۔۔۔ لگ رہا تھا صدیوں سے یوں ہی بیٹھی ہوں۔‘‘

    ’’اوہو۔۔۔ اچھا تو یہ بات تھی۔ بھئی اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ جہاز لیٹ ہو گیا تو میں کیا کر سکتا تھا۔۔۔ میرا بس چلتا تو اڑ کر آ جاتا۔‘‘

    ’’آپ مجھے اپنے پاس ہی رکھ لیں۔۔۔ ورنہ اس طرح تو میں گھل گھل کے ختم ہو جاؤں گی۔‘‘

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ تمھیں کچھ نہیں ہوگا۔ جب تک میں زندہ ہوں تمھیں بالکل کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ رئیس نے اس کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھاما۔ زندگی کی حلاوت اور گرمی کو انجلی نے اپنے ہاتھ کے ذریعے بدن میں سرایت کرتے محسوس کیا۔

    ’’چلو اٹھو۔ پہلے لنچ کرتے ہیں اور پھر کہیں گھومنے چلیں گے۔ آج کہاں لے کر چلو گی تم مجھے؟‘‘

    ’’میں نے سوچا تھا آج شالامار باغ چلیں گے۔۔۔ لیکن آدھا دن تو ایسے ہی گزر گیا۔‘‘

    ’’تو کیا ہوا؟ بس لنچ کرتے ہیں اور فوراً چلتے ہیں شالامار باغ کی طرف۔‘‘

    ’’لیکن اب وقت کہاں بچا ہے؟ پورا باغ ہم گھوم بھی نہیں پائیں گے۔‘‘

    ’’گھوم لیں گے، گھوم لیں گے۔ تم فکر نہ کرو۔ جو وقت بچا ہے، ہمیں اسے avail کرنا چاہیے۔ انجلی! حاصل کردہ لمحات زندگی کے سب سے قیمتی لمحات ہوتے ہیں۔ انھیں سمیٹ لینا چاہیے۔ یہ دنیا، یہ زندگی، یہ ساتھ، جو کچھ مل جائے بس غنیمت ہے۔۔۔ چلو اٹھو، فوراً چلتے ہیں، دیر نہیں کرتے۔‘‘ اس نے سہارا دے کر انجلی کو اٹھایا۔

    مال روڈ پر واپڈا ہاؤس کے سامنے سے نکل کر وہ چیئرنگ کراس پر آکر ٹھہر گئے۔ انجلی نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی، رات کا ایک بج رہا تھا۔ دن بھر کے سیر سپاٹے کا یہ آخری مرحلہ تھا۔ سارا دن لاہور کے کسی کونے میں گزرے، رات کو لوٹتے ہوئے، وہ دونوں مال روڈ سے ضرور گزرتے تھے۔ پہلی بار جب رئیس آیا تھا اور رات کو شیرپاؤ برج کے پاس کھانا کھانے کے بعد وہ واپس کمرے کی طرف آ رہے تھے تو رئیس نے گاڑی کو مال روڈ کے رستے پر ڈال دیا۔ انجلی کو حیرت ہوئی کہ آدھی رات کو مال روڈ پر اسے کیا ملے گا۔ لیکن رئیس نے بتایا کہ لینا وینا کچھ نہیں، بس یوں ہی مال روڈ سے چلتے ہیں۔ رات کو کمرے میں واپسی مال روڈ ہی سے ہوتی تھی۔ کبھی کبھی وہ کسی فاسٹ فوڈ سینٹر کے سامنے رک کر چائے، کافی یا بوتل پیتے، کبھی ویسے ہی چیئرنگ کراس، الفلاح، ریگل یا ہائی کوٹ کی عمارت کے سامنے کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاتے۔ کئی بار رات گئے رئیس کے ساتھ مال کا چکر لگانے کے بعد انجلی نے سوچا تھا، مال روڈ سے وابستہ کسی یاد کی یا کسی خواب کی پرچھائیں ہے جو رئیس کے اندر دوڑتی پھرتی ہے، اسی لیے وہ جب بھی لاہور آتا ہے، رات گئے اس پرچھائیں کو مال روڈ پر چھوڑنے ضرور آتا ہے۔ کوئی شے ہے، جس کے کارن رئیس یہاں مال پر کھنچا چلا آتا ہے۔ انجلی! کاش ایسا ہو جائے کہ تمھارے پیار کا، تمھارے جسم کا مقناطیس اسے ہر کشش سے آزاد کراکے اپنی طرف کھینچ لے، جذب کرلے، سب سے چھڑا کے اپنا بنا لے۔ کسی نے اس کے اندر سرگوشی کی۔

    اس وقت ان کی گاڑی اسمبلی ہاؤس کے مقابل سروس روڈ پر رکی ہوئی تھی۔ رئیس گاڑی کے بونٹ پر ٹکا ہوا تھا۔ اس کی نظریں دور کہیں گم تھیں۔ انجلی بھی اتر کر اس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ مال روڈ سنسان تھا۔ وقفے وقفے سے اکا دکا گاڑی گزرتی۔ الفلاح کے گیٹ کے ساتھ پان کی دکان بند ہو رہی تھی، پاس ہی ایک ٹھیلے والا کھڑا اپنے سامان پر ترپال ڈال کر اسے ڈوری سے باندھ رہا تھا۔ الفلاح بلڈنگ کے جالی دار مین گیٹ کے سامنے کی فٹ پاتھ پر کچرا چننے والے دو بچے اپنی بوریوں کو تکیے کی طرح سر کے نیچے رکھے گٹھری بنے پڑے تھے۔ ان کے قریب ہی بھورے رنگ کا ایک مریل سا کتا بیٹھا ہوا اونگھ رہا تھا۔ کسی گاڑی کے گزرنے پر کتا الجھن کے ساتھ آنکھیں کھول کر دیکھتا، پھر خطرہ محسوس نہ کرتے ہوئے فوراً ہی آنکھیں موند لیتا۔ انجلی کی نگاہ جیسے اس جگہ آکر ٹھہر سی گئی۔ کچرا چننے والے ان بچوں اور اونگھتے کتے سے اسے اپنائیت کے رشتے کا احساس ہونے لگا۔ وہ بھی تو زندگی کے گلی کوچوں، سڑکوں اور شاہراہوں پر جیون کا، سانسوں کا کچرا چنتی تھی اور پھر یوں ہی آنے والے کل کے لیے بےسدھ ہوکر جسم کو ڈال دیتی تھی۔ جسم اگر بےحال ہو، بےسدھ ہو تو فٹ پاتھ میں اور میٹریس میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ رگ رگ میں اتری ہوئی تھکن آنکھوں کو بے خوابی کی مشقت میں نہیں ڈالتی، پورا جسم نیند اوڑھ لیتا ہے۔ انجلی کی اپنی زندگی ان کچرا چننے والے بچوں اور اس کتے سے کتنی مشابہت رکھتی تھی۔ اس کے ساتھ بھی تو یہی ہوتا ہے کہ گھڑی کی گھڑی انسانی جسموں کا کوئی رسیا آتا ہے، وہ آنکھیں کھول کر دیکھتی ہے، بالکل سامنے بیٹھے اس کتے کی طرح۔۔۔ آنے والا خریدے ہوئے لمحے گزارتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ وہ آنکھیں موند لیتی ہے۔ کتنی مماثلت ہے اس دنیا کے سارے باشندوں میں، سب طرف سب کچھ ایک جیسا ہو رہا ہے۔ انجلی نے سوچا اور ایک مانوس مگر بےنام کوفت محسوس کی۔ اس کی نظریں خود بخود آگے کی طرف پھسلتی چلی گئیں۔ دکانوں کے لال، نیلے اور ہرے نیون سائن جگمگا رہے تھے۔ مسجدِ شہدا کے دائیں طرف رکشے بالکل سیدھی قطاروں میں کھڑے تھے۔ ریگل کے بغلی دروازے کے ساتھ دہی بھلے کی دکان پر ایک آدمی باہر رکھی کرسیاں میزیں جلدی جلدی اٹھاکر اندر رکھ رہا تھا۔ آگے مین گیٹ کے سامنے گل فروش کی دکان کے ساتھ ایک بینچ پر دو کانسٹیبل بندوقیں تھامے بیٹھے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں ٹارچ تھی جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیر میں جلا بجھا رہا تھا۔ انجلی نے بغور اس پورے منظر کا جائزہ لیا، پھر ایک نظر رئیس پر ڈالی اور سوچا، آخر ایسی کیا چیز ہے جو اس آدمی کو آدھی رات کو یہاں ضرور کھینچ لاتی ہے؟ اسے کہیں کوئی خاص شے نظر نہ آئی۔ یہ مال روڈ اس کی سوت ہے، انجلی نے سوچا۔ پھر خود ہی اپنے خیال کے بےتکے پن پر اسے ہنسی آ گئی۔ کوئی سڑک کسی عورت کی سوت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس نے سر جھٹکا۔

    ’’کیا ہوا؟‘‘ رئیس اس کے ہنسنے پر متوجہ ہوا۔

    ’’کچھ نہیں۔‘‘ وہ کھکھلاکر ہنس دی۔

    ’’میں سوچ رہی تھی۔۔۔ یوں ہی بس خیال آیا کہ یہ مال روڈ میری سوت ہے، میرے حصے کا وقت بھی یہ اڑا لیتی ہے۔‘‘

    رئیس ہنس دیا۔

    ’’چائے پیوگی؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’جیسے آپ کی مرضی۔‘‘ انجلی نے جواب دیا۔

    ’’پینی ہے تو بتاؤ۔‘‘

    ’’رہنے دیں۔۔۔‘‘ انجلی نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا، ’’ڈیڑھ بج رہا ہے، بس اب چلتے ہیں۔‘‘ آخر اپنی بات کہنے کا وقت اسے کب ملےگا، اس نے خود سے کہا۔

    ٹی وی پر جاسوسی فلم آ رہی تھی، صوفے پر نیم دراز رئیس اس فلم میں منہمک تھا۔ انجلی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی بالوں میں برش پھیر رہی تھی۔ تین بجے کا عمل تھا۔ اس بار اپنی بات کہنے کا وقت نہیں بچا، انجلی نے سوچا۔ ٹھیک ہے تو پھر اگلی بار۔۔۔ لیکن بستر تک آتے آتے ہر باریہی وقت ہو جاتا ہے، اگلی بار بھی یہی وقت ہو جائےگا۔ بات اسے کرلینی چاہیے۔ انجلی نے خود سے کہا۔ وہ انتظار کر رہی تھی کہ رئیس اٹھ کر بیڈ پر آ جائے لیکن رئیس ٹی وی میں مصروف تھا۔ عجیب آدمی ہے یہ۔ اس نے سوچا۔ اتنے پیسے خرچ کرتا ہے۔۔۔ جہاز کا کرایہ، اس گیسٹ ہاؤس کا بل، انجلی کے لیے قیمتی تحفے۔۔۔ یہ سب کچھ صرف ایک بار کی قربت کی قیمت ہے۔ اس نے اپنی زندگی میں آنے والے ان مردوں کو یاد کیا جو ایک رات میں کئی کئی بار اپنی خواہش کی گنتی پوری کرنے اس کے پاس آتے رہے تھے اور پھر ہمدردی اور محبت کے ساتھ رئیس کی طرف دیکھا، کیسی معصوم اور مہربان روح ہے اس شخص کی۔ اسے تفاخر اور طمانیت کا احساس بھی ہوا کہ وہ اب تک اتنی دل کش اور حسین تھی کہ کوئی جوان اور صحت مند مرد اس کی ایک بار کی قربت کے لیے اتنے بہت سارے روپے لٹا سکتا ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے یہ خوشی ماند پڑ گئی اور عمر کے جلد ڈھل جانے کا خوف اس کے اندر سرسراتا چلا گیا۔ اس نے آئینے میں جھانکا، رئیس اسی طرح صوفے میں دھنسا ہوا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ انجلی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے اٹھ کر اس کے پہلو میں جا بیٹھی۔

    ’’بڑے مزے کی فلم آ رہی ہے۔ یہ دونوں یہاں گولڈن آرک تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ رئیس نے اسے قریب کرتے ہوئے کہا۔

    ’’سب لوگ اپنی اپنی گولڈن آرک تلاش کرتے رہتے ہیں۔‘‘ انجلی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’ہاں، واقعی زندگی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی تلاش میں ہی رہتے ہیں۔ کسی شے کی کمی کا احساس ہمیں ساری عمر ایک کھوج میں لگائے رکھتا ہے۔‘‘ رئیس اسے بازوؤں کے حلقے میں لے چکا تھا۔

    ’’ہوں۔‘‘ انجلی نے اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹنا چاہا لیکن صوفے کی تنگی آڑے آ گئی۔

    ’’اب لیٹ جاؤ۔‘‘ رئیس نے اٹھ کر اس کے لیے پہلو میں جگہ بنائی۔

    ’’نہیں، آپ اَن ایزی ہو گئے۔ وہاں آجائیں نا بیڈ پر۔ ٹی وی کا رخ اس طرف کر لیتے ہیں۔‘‘

    ’’چلو۔‘‘ رئیس اس کے ساتھ بیڈ پر آ گیا۔

    انجلی اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی۔ رئیس کی نظریں ٹی وی کی اسکرین پر تھیں لیکن اس کا ہاتھ انجلی کے بالوں میں کنگھی کررہا تھا۔ ’’بس end آ گیا ہے فلم کا۔‘‘ اس نے انجلی کی طرف دیکھا اور جیسے اس کی تھکن کا احساس کرتے ہوئے کہا۔

    وہ آنکھیں موندے اس خیال میں کھوئی ہوئی تھی کہ اسے بات کہاں سے اور کیسے شروع کرنی چاہیے؟ اسے یقین تھا، رئیس اس کی بات مان جائےگا۔۔۔ لیکن ایک اندیشہ بھی تھا۔۔۔ شاید نہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں اس نے رئیس کا ہاتھ اٹھا کر اپنے دل پر رکھ لیا۔ اسے خود رئیس کی ہتھیلی پر دھک دھک کی دھمک محسوس ہو رہی تھی لیکن دھیرے دھیرے یہ دھمک سینے پر تیرتے مردانہ ہاتھ کے لمس میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ حدت اور نشے کا ملا جلا احساس تھا۔ انجلی نے آنکھیں کھولیں۔ رئیس کا دھیان ٹی وی سے ہٹ چکا تھا۔ اپنی بات کہنے کا یہ بالکل ٹھیک وقت ہے، انجلی کے اندر جیسے سرگوشی ہوئی۔

    ’’میں اگر آپ سے کچھ مانگوں تو۔۔۔‘‘ انجلی نے بےحد ملائم آواز میں کہا۔

    ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں؟ میں نے تو کئی بار پوچھا ہے تم سے، تم نے آج تک کوئی فرمائش ہی نہیں کی۔‘‘

    ’’اس لیے نہیں کی کہ آپ بغیر فرمائش کے ہی اتنا کچھ کر دیتے ہیں۔ لیکن اب جو میں کہہ رہی ہوں، وہ بہت خاص ہے۔۔۔ بہت بڑی فرمائش ہے۔‘‘

    ’’تم بتاؤ تو سہی۔‘‘

    ’’آپ۔۔۔ مجھے۔۔۔ یہاں۔۔۔ سے۔۔۔ اس جگہ سے۔۔۔ اپنے۔۔۔ ساتھ۔۔۔ لے چلیں۔‘‘ انجلی نے مشکل سے اپنی بات پوری کی۔

    ’’تم یہاں خوش نہیں ہو، لاہور میں رہنا نہیں چاہتیں؟‘‘

    ’’نہیں، میں اب۔۔۔ صرف آپ۔۔۔ بس اب آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔۔۔ سب کو چھوڑ کر۔۔۔ ساری دنیا سے الگ ہوکر۔‘‘

    ’’مطلب۔۔۔ مم۔۔۔ میں سمجھا نئیں۔‘‘ رئیس نے گومگو کی کیفیت میں اسے دیکھا۔

    ’’رئیس۔۔۔! آپ۔۔۔ آپ مجھے اپنا بنالیں۔‘‘

    اسے لگا اس کے سینے پر دھرا رئیس کا ہاتھ جیسے کھسک کر شانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انجلی کی نگاہیں رئیس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ اس نے خالی خالی نظروں سے انجلی کی طرف دیکھا، پھر نظریں ہٹالیں۔ ایک پھیکی سی مسکان اس کے چہرے پر آئی، لمبی سانس کھینچ کر لمحے بھر رکا، پھر دھیرے دھیرے بولا، ’’انجلی۔۔۔! تم نے وہ فرمائش کر دی۔۔۔ جو میں پوری نہیں کر سکتا۔‘‘

    انجلی ایک لمحے کے لیے سانس لینا بھول گئی۔۔۔ کوئی چیز جیسے اس کے حلق میں پھنس گئی۔ اس نے بولنے کے لیے اپنی ساری قوت جمع کی، ’’بس یہ بات مان لیں، اس کے بعد میں ساری عمر کبھی کوئی فرمائش نہیں کروں گی۔ کبھی کچھ نہیں مانگوں گی۔‘‘

    ’’نہیں انجلی! وہ نہ کہو جو میں نہیں کر سکتا۔‘‘

    ’’آپ کر سکتے ہیں۔۔۔ بہت آسانی سے۔۔۔ آپ جو کچھ مجھے ایک دن میں دے جاتے ہیں، میں اس میں پورا مہینہ۔۔۔ پورا سال گزار لوں گی۔ آرام سے، خوشی سے، آپ کے نام پر، آپ کی محبت کے سہارے۔‘‘ انجلی کی آواز بھیگ گئی۔

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں انجلی!‘‘

    ’’ہاں، ہاں میں سچ کہہ رہی ہوں۔‘‘ وہ چہکو پہکو رونے لگی۔

    ’’اچھا۔۔۔ اچھا سنو۔ اٹھ کر بیٹھو۔ میں بتاتا ہوں، میری بات سنو۔ میں تمھیں مسئلہ بتاتا ہوں۔‘‘

    انجلی نے اٹھ کر ٹیشو پیپر سے آنکھیں پونچھیں، ناک صاف کی اور سر جھکا کر بیٹھ گئی جیسے ہارا ہوا سپاہی اپنے غنیم کے سامنے بیٹھتا ہے۔

    ’’انجلی!‘‘ رئیس نے بولنا شروع کیا، ’’دیکھو انجلی! تم میری زندگی میں آنے والی پہلی عورت نہیں ہو۔ میں تم سے پہلے بھی کچھ عورتوں سے مل چکا ہوں۔ کسی سے ایک بار، کسی سے دو بار، کسی سے چار بار۔ لیکن میں جھوٹ نہیں بول رہا، یقین کرو، میں عیاش آدمی نہیں ہوں۔ عورتیں اور بھی آ سکتی ہیں میری زندگی میں۔ لیکن میں اپنے لیے کسی جسم کا نہیں بلکہ ایک روح کا متلاشی ہوں۔ ایسی روح کا جو میرے ساتھ کسی بندھن میں نہ بندھی ہو، جس سے کسی رشتے، کسی تعلق کی بیڑیاں میرے پاؤں میں نہ پڑی ہوں۔ اس سے میرا لاتعلقی کا تعلق ہو۔ اس سے میری دوستی ہو۔۔۔ بےنام دوستی، جو کچھ نہیں مانگتی، کوئی سوال نہیں کرتی، کسی الجھن، کسی آزمائش میں نہیں ڈالتی، کسی دوراہے پر لےکر نہیں آتی۔۔۔ جو صرف اپنی زبان میں بات کرتی ہے، دنیا کی زبان اسے آتی ہی نہیں۔ میں جس عورت سے بھی ملا ہوں، میں نے اس میں ایسی ہی روح کو تلاش کیا ہے، ایسے ہی تعلق کو ڈھونڈا ہے۔۔۔ لیکن مایوسی ہوئی سب سے۔۔۔ ہاں تم سے مل کر لگا، مجھے تمھاری ہی تلاش تھی لیکن نہیں۔۔۔ شاید۔۔۔ نہیں۔۔۔!‘‘ وہ چپ ہوگیا۔

    انجلی خاموشی سے سر نیہوڑائے بیٹھی رہی۔

    ’’انجلی!‘‘ رئیس پھر بولنے لگا، ’’میں مال دار آدمی ہوں اور ایک لمبا چوڑا خاندان ہے میرا۔ ماں باپ، بھائی بہن، بیوی بچے۔۔۔ سب ہیں۔ سب اچھے ہیں، بیوی بھی اچھی ہے۔ لیکن انجلی ہر رشتہ اپنی ضرورتوں اور تقاضوں کے ساتھ بندھا رہتا ہے۔۔۔ اپنے مطالبات کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ ضرورتیں اور تقاضے ہٹا دیے جائیں تو رشتہ ختم ہو جائےگا۔ اس کا مطلب ہے، اصل چیز رشتہ تو نہ ہوا۔۔۔ اصل چیز تو ضرورت ہوئی۔ انجلی! میں اپنی روح میں تنہائی محسوس کرتا ہوں۔ اسی لیے، صرف اسی لیے ایک ایسے رشتے کا متلاشی ہوں جس کی شناخت اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کے بغیر ہو سکے۔۔۔ لیکن شاید ایسا کوئی رشتہ اس دنیا میں کہیں بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔

    کمرے میں ہولناک سناٹا گونجنے لگا۔

    لمحے بھر تامل کے بعد وہ پھر بولا، ’’انجلی! مجھے افسوس ہے، اتنے عرصے میں تم نے ایک فرمائش کی اور میں وہ بھی پوری نہیں کرسکا۔ بات یہ ہے کہ میں کسی نئے چہرے پر کسی پرانے رشتے کا لیبل چسپاں کرکے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میں تو خود اپنی ایک بےتکی خواہش کی تکمیل کے چکر میں ہوں۔ ہو سکے تو میری مجبوری کو محسوس کرتے ہوئے مجھے معاف کر دینا۔‘‘ رئیس نے چند لمحے سکوت کیا، پھر انٹرکام پر ریسیپشن سے رابطہ کیا، ’’مجھے ایئرپورٹ کے لیے گاڑی چاہیے۔ ٹھیک ہے، میں دس منٹ میں آتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد وہ اپنی چیزیں سمیٹ کر بیگ میں رکھنے لگا۔ انجلی گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی رہی۔ بیگ بند کرکے وہ انجلی کے پاس آیا۔

    ’’اوکے انجلی۔۔۔! بائے!‘‘

    یکبارگی انجلی کا جی چاہا کہ وہ اٹھ کر رئیس سے لپٹ جائے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے، اس سے کہے کہ تم صرف ایک بے نام رشتے کی تلاش میں ہو اور میں ایسے ہی بے نام رشتوں میں جیون بتا رہی ہوں، لیکن دکھی ہوں، بے چین ہوں، میں ایک ایسے رشتے کی تلاش میں ہوں جسے میں شناخت کرسکوں، جس کے ذریعے اپنی شناخت حاصل کر سکوں، دنیا کے سامنے، دنیا کی زبان میں۔۔۔ لیکن اسے اپنا وہ فقرہ یاد آیا جو اس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے مذاق میں رئیس سے کہا تھا، سب لوگ اپنی اپنی گولڈن آرک کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ اس نے سوچا، رئیس اور وہ دونوں گم شدہ افراد ہیں اور دونوں کسی اپنے کی تلاش میں ہیں۔ دو گم شدہ لوگ جن کے سفر کی سمتیں بھی الگ الگ ہوں، ایک دوسرے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔۔۔ وہ تو شاید ایک دوسرے کی ہمت بھی نہیں بندھا سکتے۔ رئیس اس کے پاس ہی کھڑا تھا۔ انجلی نے ڈبڈباتی آنکھوں سے پل بھر کے لیے اس کی طرف دیکھا اور بہت ملائمت سے ’’بائے‘‘ کہہ کر پھر گھٹنوں میں سر دے لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے