aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رامیشگر

MORE BYسعادت حسن منٹو

    میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا آیا پرویز مجھے پسند ہے یا نہیں۔ کچھ دنوں سے میں اس کے ایک ناول کا بہت چرچا سن رہا تھا۔ بوڑھے آدمی، جن کی زندگی کا مقصد دعوتوں میں شرکت کرنا ہے، اس کی بہت تعریف کرتے تھے اور بعض عورتیں جو اپنے شوہروں سے بگڑ چکی تھیں اس بات کی قائل تھیں کہ وہ ناول مصنف کی آئندہ شاندار ادبی زندگی کا پیش خیمہ ہے۔ میں نے چند ریویو پڑھے جو قطعاً متضاد تھے۔ بعض ناقدوں کا خیال تھا کہ مصنف ایسا معیاری ناول لکھ کر بہتر ناول نگاروں کی صف میں شامل ہوگیا ہے۔ میں نے جان بوجھ کر یہ ناول نہ پڑھا۔ کیونکہ میرے ذہن میں یہ خیال سما گیا ہے کہ کسی ایسی کتاب کو جو ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دے، ایک سال ٹھہر کر پڑھنا چاہیے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ میعاد گزر جانے پر آپ اسے عموماً نظر انداز کر دیں گے۔

    میری پرویز سے ایک دعوت میں ملاقات ہوئی۔ میری میزبان دو ادھیڑ عمرکی عورتیں تھیں۔ دعوت میں ایک جوان لڑکی بھی شریک تھی، جو غالباً میزبان کی چھوٹی بہن تھی۔ اس کا نام عفت تھا۔ وہ خاصی تندرست اور قد آور تھی۔ وہ ذرا زیادہ توانا اور لمبی ہوتی تو اور بھی بھلی معلوم ہوتی۔ پرویز بھی میرے پاس بیٹھا تھا۔ عمر یہی کوئی بائیس تیئس سال ،درمیانہ قد جسم کی بناوٹ کچھ ایسی تھی کہ وہ ناٹامعلوم ہوتا۔ اس کی جلد سرخ تھی جو اس کے چہرے کی ہڈیوں پر اکڑی ہوئی سی دکھائی دیتی تھی۔ ناک لمبی ، آنکھیں نیلگوں اور سر کے بال بھورے رنگ کے۔ وہ بھورے رنگ کی جیکٹ اور گرے پتلون پہنے تھا۔ اس کے لب و لہجے اور حرکات میں کوئی دلکشی نہ تھی۔ اسے صرف اپنی زبان سے اپنی تعریف کرنے کی عادت تھی۔ اسے اپنے ہم عصروں سے سخت نفرت تھی۔ اس کی فطرت میں مزاح کی کمی نہ تھی لیکن میں اس سے پوری طرح محظوظ نہ ہوسکا۔ کیونکہ وہ تینوں عورتیں اس کی ہر ایک بات پر یونہی لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔ میں نہیں کہہ سکتا وہ ذہین تھا یا نہیں۔ اچھا ناول لکھ لینا کوئی ذہانت کی نشانی نہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ ظاہری طور پر عام انسانوں سے ذرا مختلف دکھائی دیتا ہے۔

    اتفاق کی بات ہے، دو تین دن بعد اس کا ناول میرے ہاتھ لگا۔ میں نے اسے پڑھا، اس میں آپ بیتی کا رنگ نمایاں تھا۔ کرداروں کا تعلق درمیانے طبقہ کے ان لوگوں سے تھا جو تھوڑی آمدن ہونے پر بھی شاندار طریقے سے رہنے سہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مزاح کا معیار بہت عامیانہ تھا۔ کیونکہ اس میں ان لوگوں کا صرف اس لیے منہ چڑایا گیا تھا کہ وہ غریب اور بوڑھے ہیں۔ پرویز کو اس بات کا قطعاً کوئی احساس نہ تھا کہ ان لوگوں کے مسائل کس درجہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ اس ناول کی مقبولیت کا سبب محبت کا وہ افسانہ ہے جو اس کے پلاٹ کی جان ہے۔ انداز بیان میں کوئی ایسی پختگی نہ تھی لیکن اس کے مطالعے سے پڑھنے والے کے ذہن میں جنسیت کے شدید احساس کا پیدا ہو جانا یقینی تھا۔

    میں نے پرویز کو کتاب کے بارے میں اپنی رائے لکھی اور ساتھ ہی لنچ پر بھی مدعو کیا۔

    وہ بہت شرمیلا تھا۔ میں نے اسے بیئر کا گلاس پیش کیا۔ اس کی گفتگو سے مجھے احساس ہوا کہ اس کے اندر ایک حجاب سا پیدا ہوگیا ہے جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے وہ آداب سے عاری نظر آیا۔ وہ فضول سی باتیں کہہ کر اپنی الجھن کو مٹانے کے لیے قہقہہ لگاتا۔ اس کا مقصد اپنے ہم عصروں کے خیالات کی شدید مخالفت کرنا تھا۔ وہ قابل نفرت انسان تھا۔ ایسے انسان دنیا سے کچھ لینا چاہتے ہیں۔ لیکن انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کے ہاتھ پھیلے نظر نہیں آتے۔ وہ شہرت حاصل کرنے کے لیے بےتاب ہوتے ہیں۔

    پرویز اپنے ناول کے متعلق خاموش تھا۔ پر جب میں نے اس کی تعریف کی تو مارے شرم کے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اسے اس کی اشاعت سے تھوڑے پیسے نصیب ہوئے تھے اور اب پبلشر اسے آئندہ ناول لکھنے کے لیے کچھ رقم ماہانہ دے رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی ایسے پرسکون مقام پر پہنچ کر اسے مکمل کرے جہاں زندگی کی ضروریات سستی میسر ہوسکیں۔ میں نے اسے اپنے پاس چند دن بسر کرنے کی دعوت دی۔ اس دعوت نے اس کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا کر دی۔

    ’’ میری موجودگی سے آپ کو تکلیف تو نہ ہوگی؟‘‘

    ’’قطعاً نہیں۔ میں تمہارے لیے خوراک اور ایک کمرے کا بندوبست کر دوں گا۔‘‘

    ’’شکریہ۔ میں آپ کو اپنے ارادے سے جلد مطلع کر دوں گا۔‘‘

    یہ سچ ہے کہ اس وقت میں نے اسے دعوت دے دی۔ لیکن چار ہفتے گزرنے پر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ فضول انسان ہے اور اسے اپنے پاس بلانا ٹھیک نہیں ،وہ یقیناًمیری خاموش زندگی میں مخل ہوگا۔ اس نے اپنے خط میں جو مجھے اس نے چار ہفتوں کے بعد لکھا تھا اس میں مایوس دورِ زندگی کا ذکر کیا تھا اور اسی کے زیرِ اثر میں نے اسے تار دے کر بلا لیا۔

    وہ آیا اور بہت مسرور ہوا۔ شام کو ڈنر سے فارغ ہو کر باغ میں بیٹھے۔ اس نے اپنے ناول کا ذکر چھیڑا۔ اس کا پلاٹ ایک نوجوان مصنف اور ایک مغنیہ کارومان تھا۔ وہی پرانا تخیل۔ یہ ٹھیک ہے کہ پرویز کا ارادہ اس افسانے کو ایک نئے انداز سے لکھنے کا تھا۔ اس نے اس کے متعلق بہت کچھ کہا، اسے ہرگز احساس نہ تھا کہ وہ اپنے ہی خوابوں کو افسانہ کی صورت دینا چاہتا تھا۔ ایک ایسے خیالی نوجوان کے خواب جو یونہی اپنے ذہن میں اپنی ذات سے محبت کرنے والی ایک حد درجہ حسین اور نازک محبوبہ کے تخیل کو پالتا ہے۔ مجھے یہ نا پسند نہ تھا کہ وہ اپنی قوتِ بیان سے خون کو گرما کر شاعرانہ رنگ دے رہا ہے۔

    میں نے اس سے پوچھا، ’’کیا تم نے کبھی کسی مغنیہ کو دیکھا؟‘‘

    ’’ نہیں میں نے بہت سی آپ بیتیاں ضروری پڑھی ہیں۔ اور اس کے ایک ایک نقطہ اور مختلف واقعات کوجانچنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

    ’’اس سے کیا تمہارا مقصد پورا ہوگیا؟‘‘

    ’’غالباً‘‘

    اس نے اپنی خیالی مغنیہ کو میرے سامنے پیش کیا۔ وہ جوان تھی، حسین تھی مگر بڑی کائیاں۔ موسیقی اس کی جان تھی۔ اس کی آواز اور اس کے خیالات موسیقی سے لبریز تھے۔ وہ آرٹ کی مداح تھی۔ اور اگر کوئی گانے والی اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی، وہ اس کے گیت سن کر اس کی خطا کو معاف کر دیتی، بہت فیاض تھی۔ اور کسی کی دکھ بھری داستان سن کر اپنا سب کچھ قربان کر دیتی۔ وہ گہری محبت کرنے والی تھی اور اپنے محبوب کی خاطر اگر ساری دنیا سے ٹھن جائے تو اسے پروانہ تھی۔

    ’’کیوں نہ تمہاری مغنیہ سے ملاقات کرادی جائے؟‘‘

    ’’کیسے؟‘‘

    ’’تم الماس کو جانتے ہو کیا؟‘‘

    ’’بے شک۔ میں نے اس کا ذکر اکثر سنا ہے۔‘‘

    ’’یہیں پاس ہی اس کا مکان ہے۔ میں اسے کھانے پر بلاؤں گا۔‘‘

    ’’سچ؟‘‘

    ’’اگر وہ تمہارے معیار پر پوری نہ اترے تو مجھے الزام نہ دینا۔‘‘

    ’’میں واقعی اس سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘

    الماس کس سے چھپی تھی۔ وہ فلموں کے لیے گانا ترک کر چکی تھی لیکن اب بھی اس کی آواز میں وہی لوچ تھی اور وہی ترنم۔ اس سے میری ملاقات چند سال پہلے ہوئی۔ جو شیلے مزاج کی عورت تھی۔ اور گانے کے علاوہ اپنے محبت کے رومانوں کے سبب مشہور تھی۔

    اکثر مجھے اپنی محبت کے انوکھے افسانے سُاتی اور مجھے یقین ہے کہ وہ سچائی سے خالی نہ تھے۔ اس نے تین چار دفعہ اپنی شادی رچائی۔ کیونکہ ہر بار چند ہی ماہ بعد یہ رشتہ ٹوٹ جاتا تھا۔ وہ لکھنؤ کی رہنے والی تھی، بہت شستہ اردو بولتی تھی، وہ مجرد آرٹ کی مداح تھی۔ لیکن اسے ایک فریب سے تعبیر کرتی۔ اس لیے کہ یہ اس کی آنکھوں میں بہت کھلتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس مغنیہ سے پرویز کی ملاقات میرے لیے تفریح کا باعث ہوگی۔ اسے میرے ہاں کا کھانا پسند تھا۔

    سبز رنگ کا نیم عریاں لباس پہنے آئی۔ گلے میں موتیوں کی مالا، انگلیوں میں جگمگاتی انگوٹھیاں اور بانھوں میں ہیرے جڑی چوڑیاں تھی۔

    ’’تم کتنی بھلی معلوم دیتی ہو، بہت بن ٹھن کے آئی ہو‘‘۔

    الماس نے کہا، ’’ضیافت ہی تو ہے۔ تم نے کہا تھا کہ تمہارا دوست ایک ذہین مصنف ہے اور حسن پرست ہے۔‘‘

    میں نے اسے شیری کا ایک چھوٹا گلاس پیش کیا۔ میں اسے لمی کے نام سے پکارتا اور وہ مجھے ماسٹر کہہ کر مخاطب کرتی۔ وہ پینتیس سال کی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے چہرے کے خطوط سے اس کی صحیح عمر کا اندازہ مشکل تھا۔وہ کبھی اسٹیج پر بہت حسین دکھائی دیتی تھی اور اب اپنی لمبی ناک اور گوشت بھرے چہرے کے باوصف خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔

    وہ بے وقوف تھی۔ البتہ اسے ایک خاص رنگ میں باتیں کرنے کا سلیقہ آتا تھا جس سے لوگ پہلی ملاقات میں بہت متاثر ہوتے۔ یہ محض ایک تماشہ تھا۔ کیونکہ در اصل اسے اس قسم کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ڈرائنگ روم میں ہم کھانا کھا رہے تھے۔ نیچے باغ میں سنگترے کے پودوں سے بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔ وہ ہمارے درمیان بیٹھی شیری کی تعریف کررہی تھی۔ بار بار اس کی نگاہیں چاند کی طرف اٹھتیں۔

    ’’اللہ رے قدرت کی رنگینی اس وقت گانا کسے سوجھ سکتا ہے‘‘

    پرویز نے خاموشی سے اس کے الفاظ سنے۔ شیری کے دو گلاس نے اس پر نشہ طاری کر دیا تھا۔ بڑی باتونی تھی۔ اس کی باتوں سے ظاہر تھا کہ وہ ایک ایسی عورت ہے جس سے دنیا نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ اس کی زندگی حوادث کے خلاف ایک مسلسل جدو جہدتھی۔ گانے کے جلسوں کے منیجر اس سے فریب کرتے رہے۔ مختلف گویوں نے اسے برباد کرنے کی کوشش کی۔ اس کے وہ محبوب جن کی خاطر اس نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اسے ٹھکرا کر چل دیے۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن اپنی چالاکی اور ذہانت سے اس نے سب کے منصوبے خاک میں مِلائے۔ میں حیران ہوں وہ کس طرح مجھے اپنے متعلق اپنی زبان سے یہ ہتک آمیز باتیں سناتی رہی۔ اسے ہرگز احساس نہ تھا کہ وہ خود اپنے عیار اور خود غرض ہونے کا اعتراف کر رہی ہے۔ میں نے نظریں چرا کر پرویز کی طرف دیکھا۔ وہ یقیناً اس کا اپنی خیالی مغنیہ سے مقابلہ کر کے دل ہی دل میں کوئی فیصلہ کر چکا تھا۔ اس عورت کا سینہ دل سے خالی تھا۔ جب وہ رخصت ہوئی تو میں نے پرویز سے کہا، ’’کہو پسند آئی ؟‘‘

    ’’بہت۔ بڑے کام کی چیز ہے۔‘‘

    ’’سچ؟‘‘

    ’’میری مغنیہ ایسی ہی ہے۔ اسے کیا خبر کہ اس ملاقات سے پہلے میں اس کا ذہنی نقش تیار کر چکا ہوں۔‘‘

    میں نے حیران نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’آرٹ کی پرستار ہے۔ اس کی روح میں کتنی پاکیزگی ہے۔ تنگ نظر انسان اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے ارادوں کی بلندی بالآخر اسے کامیاب بنا دیتی ہے۔ یقین جانو میری مغنیہ کی الماس زندہ تصویر ہے۔‘‘ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن لب تک آئی بات وہیں رک گئی۔ پرویز نے اس عورت میں اپنی خیالی مغنیہ کو اصل شکل میں دیکھ لیا تھا۔

    دو تین دن کے بعد وہ رخصت ہوگیا۔

    دن گزرتے گئے۔ پرویز کا دوسرا ناول شائع ہوا تو اسے وہ پہلی سی کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ نقاد ،جنھوں نے اس کے پہلے ناول کی بے جا تعریف کی تھی اب اسے یونہی کوسنے لگے۔ اپنی ذات یا ایسے انسانوں کے متعلق ،جنھیں ہم بچپن سے جانتے ہیں، ناول لکھنا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن اپنے تخلیق کیے ہوئے کرداروں کو ناول میں جگہ دینا بڑا کام ہے۔ اس کے ناول میں کافی رطب و یا بس تھا۔ لیکن اس کا رومان سے بھرا ہوا پلاٹ شدید جذبات کا مظہر تھا۔

    اس دعوت کے بعد۔۔۔ ایک سال تک الماس سے ملنا نہ ہوسکا۔ وہ کلکتے میں رقص و سرودکے دورے پر چلی گئی اور گرمیوں کے آخر میں لوٹی ۔ایک دفعہ اس نے مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ وہاں اس کی باورچن کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر اس پر برس پڑتی۔ لیکن اس کے بغیر اس کا گزارہ بھی نہ تھا۔ وہ ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ سر کے بال سفید ہو چکے تھے اور چہرے کی جھریوں نے بڑھاپے کو اور بھی نمایاں کر دیا تھا۔ وہ انوکھی وضع کی عورت تھی اور اپنی مالکن کی رگ رگ سے واقف تھی۔

    الماس نیلے لباس میں بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ گلے میں مالا اور ہاتھوں میں چوڑیاں۔۔۔ جھول جھول کر اپنے سفر کے حالات سنا رہی تھی۔ اس کی زبان میں لوچ تھی اور باتوں سے ظاہر تھا کہ اسے اس دورے میں کافی رقم ہاتھ لگی ہے۔ اس نے اپنی نوکرانی سے کہا،’’ میری باتیں سچی ہیں نا؟‘‘

    ’’ ایک حد تک۔‘‘

    ’’کلکتے میں جس شخص سے ملاقات ہوئی تھی اس کا کیا نام تھا؟‘‘

    ’’کون سا شخص؟‘‘

    ’’بے وقوف۔ جس سے میری ایک بار شادی ہوئی تھی۔‘‘

    نوکرانی نے منہ بنا کر جواب دیا، ’’وہ سیٹھ جوہری! ‘‘

    ’’ہاں وہی کوئی قلاش تھا۔ احمق انسان مجھے ہیروں کی مالا دے کر ،واپس لینا چاہتا تھا۔ صرف اس لیے کہ وہ اس کی ماں کی ملکیت تھی۔‘‘

    ’’بہتر ہوتا اگر تم سچ مچ لوٹا دیتیں۔‘‘

    ’’لوٹا دیتی! تم کیا پاگل ہوگئی ہو!‘‘ پھر اس نے مجھ سے کہا، ’’آؤ باہر چلیں۔ اگر میرے اندر کا جذبہ نرم نہ ہوتا تو میں اس بڑھیا کو کبھی کا نکال چکی ہوتی۔‘‘

    ہم دونوں باہر نکل کر برآمدے میں بیٹھ گئے۔ باغیچہ میں صنوبر کی شاخیں تاروں بھرے آسمان کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔ ایکا ایکی الماس بول اٹھی، ’’تمہارا وہ پگلا دوست اور اس کا ناول۔۔۔ ؟‘‘ میں اس کا مفہوم جلدی نہ سمجھ سکا۔

    ’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘

    ’’پگلے نہ بنو۔ وہی ہونق، جس نے میرے متعلق ناول لکھا تھا۔‘‘

    ’’لیکن ناول سے تمہارا کیا تعلق ؟‘‘

    ’’کیوں نہیں ۔۔۔میں کوئی پگلی تھوڑی ہوں، اس نے مجھے ایک نسخہ بھیجنے کی بھی حماقت کی تھی۔‘‘

    ’’لیکن تم نے اسے شرفِ قبولیت بخشا ہوگا۔‘‘

    ’’مجھے کیا اتنی فرصت ہے کہ ٹکے ٹکے کے مصنفوں کو خط لکھتی پھروں۔ تمھیں کوئی حق نہ تھا کہ دعوت پر بلا کر اس سے میرا تعارف کراتے۔ میں نے صرف تمہاری خاطر دعوت قبول کی تھی لیکن تم نے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ افسوس کہ اب پرانے دوستوں پر بھی اعتبار کرنا محال ہوگیا ہے۔ میں آئندہ تمہارے ساتھ کبھی کھانا نہ کھاؤں گی۔

    ’’یہ تم کیا چھیڑ بیٹھی ہو۔ اس ناول میں گانے والی کے کردار کا خاکہ وہ تمہاری ملاقات سے پہلے تیار کر چکا تھا اور بھلا تمہاری اس سے مشابہت ہی کیا ہے!‘‘

    ’’کیوں نہیں ،میرے دوستوں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ میری ہی تصویر ہے۔‘‘

    ’’پر تم کو اس کا یقین کیوں ہے؟‘‘

    ’’اس لیے کہ میں نے ایک دوست کو یہ کہتے سنا کہ یہ میری ہی کہانی ہے۔‘‘

    ’’لیکن ناول کی ہیروئین کی عمر تو صرف پچیس سال ہے۔‘‘

    ’’مجھ ایسی عورت کے لیے عمر کوئی چیز نہیں۔ ‘‘

    ’’وہ سراپا موسیقی ہے۔ فاختہ کی طرح خاموش اور بے غرض۔ کیا تمہاری بھی اپنے متعلق یہی رائے ہے؟‘‘

    ’’ اور تمہاری میرے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘

    ’’ناخن کی طرح سخت۔ ۔۔سنگدل۔۔۔‘‘

    اس نے مجھے ایک ایسے نام سے پکارا جسے عورتیں کسی شریف مرد کو مخاطب کرتے وقت بہت کم استعمال کرتی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی لیکن یہ ظاہر تھا کہ وہ ناراض نہیں۔

    ’’ہیرے کی انگوٹھی کی کہو۔ کیا میں نے اسے یہ قصّہ سنایا؟‘‘

    قصّہ یہ ہے کہ ایک بڑی ریاست کے شہزادے نے تحفے کے طور پر ایک ہیرا الماس کی نذر کیا۔ ایک شب دونوں میں تکرار ہوگئی اور گالی گلوچ تک نوبت پہنچی۔ اس نے وہ انگوٹھی اتار آگ میں پھینک دی۔ شہزادہ چھوٹے دل کا تھا۔ گھٹنوں کے بل ہو کر آگ میں انگوٹھی تلاش کرنے لگا۔ الماس بڑی نفرت آمیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔

    شہزادے کو انگوٹھی مل گئی لیکن وہ الماس سے چھن گئی۔ اس کے بعد وہ اس سے محبت نہ کر سکی۔ یہ واقعہ رنگین تھا۔ اور پرویز نے اس کا بڑے دلکش انداز میں ذکر کیا تھا۔

    ’’میں نے تمھیں اپنا سمجھ کر یہ واقعہ سنایا تھا۔ بھلا یہ کہاں کی شرافت ہے کہ اسے لوگوں کے پڑھنے کے لیے بیان کر دیا جائے۔‘‘

    ’’میں تو کئی بار یہی واقعہ دوسروں کی زبانی سن چکا ہوں۔ یہ تو بڑی پرانی حکایت ہے۔‘‘

    ایک لمحہ کے لیے اس نے حیران نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔

    ’’کئی بار ایسا ہوا ہے۔ میں غلط نہیں کہہ رہی۔ یہ ظاہر ہے کہ عورتیں غصیلی ہوتی ہیں اور مرد کمینہ فطرت ، وہ ہیرا میں اب بھی تمھیں دکھا سکتی ہوں۔ اس واقعہ کے بعد مجھے اسے دوبارہ چرانا پڑا۔ میں تمھیں اب اورواقعہ سناتی ہوں۔ بڑا دلچسپ ہے لیکن دیکھو کسی کو سنانہ دینا۔ ‘‘

    میں نے کہا ،’’سناؤ ضرور سناؤ۔ تمہاری زندگی کا ہر واقعہ دلچسپ ہوتا ہے۔‘‘

    ’’میں نے تمھیں کبھی موتیوں والا قصہ نہیں سنایا؟‘‘

    ’’میں یہ قصہ اس سے پیشتر سن چکا ہوں۔‘‘

    موتیوں کا ایک بڑا دولت مند عرب تھا۔ وہ ایک مدت تک الماس پر لٹو رہا۔ ہم جس مکان میں بیٹھے باتیں کررہے تھے اس کا دیا ہوا تھا۔

    الماس نے کہنا شروع کیا، ’’پون ہل پر بمبئی میں میرے راگ سے متاثر ہو کر ایک عرب نے موتیوں کی مالا میرے گلے میں ڈالی۔ تم تو شاید اسے نہیں جانتے!‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’وہ کوئی اتنا بڑا نہ تھا۔ لیکن بڑا حاسد۔ ایک برطانوی افسر کی بات پر اس سے ٹھن گئی۔ میں دنیا میں ایک ایسی عورت ہوں کہ ہر کسی کی رسائی ممکن ہے لیکن اپنی عزت کا کسے خیال نہیں۔ میں نے غصے میں وہ موتیوں کی مالا اتار کر دہکتی ہوئی انگیٹھی میں پھینک دی۔ وہ چیخ اٹھا کہ یہ تو پچاس ہزار روپوں کی چیز ہے۔ اس کا رنگ زرد ہوگیا۔ میں نے ذرا تنک کر کہا،’صرف تمہاری محبت کی وجہ سے مجھے یہ مالا عزیزتھی۔ ‘اور منہ پھیر لیا۔‘‘

    ’’تم نے کتنی حماقت کی۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’وبیس گھنٹے تک میں نے اس سے کلام نہ کیا۔ اور جب ہم شملے پہنچے تو اس نے فوراً ہی نئی موتیوں کی مالا خرید دی۔‘‘

    وہ زیر لب مسکرانے لگی۔

    ’’تم نے کیا کہا تھا کہ میں بیوقوف ہوں؟میں نے سچے موتیوں کی مالا تو وہیں بنک میں رکھ دی تھی اور ایک نقلی خرید کر لی۔ جسے میں نے انگیٹھی میں پھینک دیا۔‘‘

    وہ بچے کی طرح فرطِ مسرت سے ہنسنے لگی۔ یہ بھی اس کا ایک فریب تھا۔

    ’’مرد کتنے پگلے ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔

    وہ دیر تک ہنستی رہی۔ اور شاید اس وجہ سے اس پر ایک مستی سی چھانے لگی۔

    ’’میں گانا چاہتی ہوں، پیانو تو بجاؤ۔‘‘

    الماس دھیمے سروں میں گانے لگی اور جونہی اسے ہونٹوں سے نکلتی ہوئی آواز کا احساس ہوا وہ بے خود ہوگئی۔ گیت ختم ہوا۔ ماحول پر ایک سکوت چھانے لگا ۔وہ کھڑکی میں کھڑی ہو کر دریا کا نظارہ کرنے لگی۔ رات کا سماں دلفریب تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا میری رانوں پر ایک کپکپی طاری ہو رہی ہے ۔الماس پھر گانے لگی۔ یہ موت کا راگ تھا۔ وہ راگ رنگ کی محفلوں میں اکثر اس کی نمائش کر چکی تھی۔ اس کی سریلی آواز ساکن ہوا کو چیر کر پہاڑوں میں ارتعاش پیدا کررہی تھی۔ اس کی آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھ پر وجد طاری ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میری زبان گنگ ہوگئی۔ وہ بھی ابھی تک کھڑکی میں کھڑی باہر خلا میں دیکھ رہی تھی۔

    کتنی عجیب عورت تھی۔ پرویز نے اسے خوبیوں کا مجسمہ تصورکیا۔ لیکن مجھے وہ اپنی زندگی کی تمام تر نفرتوں سمیت پیاری تھی۔ لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ مجھے ایسے لوگ کیوں پسند ہیں جو ضرورت سے زیادہ برے ہوتے ہیں۔ وہ قابل نفرت ضرور تھی۔ لیکن اس کی ذات میں دلکشی اس سے کہیں سوا تھی۔

    مأخذ:

    باقیات منٹو

      • سن اشاعت: 2002

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے