Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جرم

MORE BYتبسم فاطمہ

    چھت ٹپک رہی ہے۔

    چھت سے ٹپکتی پانی کی بوندیں ایسے گرتی ہیں کہ دیپا اندرہی اندر ایک پل کو سب کچھ بھول کر عجیب سی لذت میں ڈوب جاتی ہے۔۔۔عجیب سی درد بھری لذت۔۔۔جسے مباشرت کے وقت چت لیٹی عورت ہی محسوس کر سکتی ہے۔

    کبھی اس موسم میں وہ کتنی رومانٹک ہو جاتی تھی۔۔۔کل جب وہ عورت نہیں تھی۔۔۔آج کی طرح۔۔۔عورت۔۔۔جانگھوں میں بسنے والی عورت۔۔۔ منیش بھی اکثر مذاق کے موڈ میں ہوتا ہے تو کہتا ہے۔۔۔عورت جانگھوں میں ہی تو بستی ہے۔

    عورت۔۔۔اسے خود سے شدید نفرت کا احساس ہوا۔۔۔ایسا کیوں ہے؟ عورت ہر معاملے میں زندگی کے ہر موڑ پر۔۔۔تقدیس کی گرد جھاڑتے ہی چت کیوں ہو جاتی ہے۔۔۔ایک دم سے چت اور ہاری ہوئی۔۔۔مرد ہی جیتتا ہے۔ عورت چاہے کتنی بڑی کیوں نہ ہو جائے۔۔۔اندرا گاندھی۔۔۔ مارگریٹ تھیچر۔۔۔سے لے کر۔۔۔عورت کی عظمت کہاں سو جاتی ہے اور صرف وہی جانگھوں والی عورت۔۔۔

    پانی کی بوندوں میں ٹپ سے منیش کا چہرہ ابھرتا ہے، جو اکثر منیش سکسینہ بن کر صرف ایک مرد بن کر اسے ٹوکتا ہے۔۔۔تم پھیل رہی ہو۔۔۔تم سوٹ مت پہنا کرو۔۔۔تمہارا جسم کافی پھیل گیا ہے۔۔۔کولہے۔۔۔سینہ۔۔۔پشت کا حصہ۔۔۔تم بہت بھدی ہوتی جا رہی ہو دیپا۔

    کچن کے پاس۔۔۔ذرا ہٹ کر جو بیسن ہے۔۔۔وہاں اس نے بڑا سا آئینہ لگا رکھا ہے۔۔۔اپنے سراپا کو روزانہ دیکھنے کے لیے۔۔۔بدن کی ان برائیوں کو جاننے کے لیے۔۔۔جسے شادی کے صرف چند سالوں بعد منیش کی آنکھوں میں بارہا محسوس کیا ہے دیپا نے۔۔۔آئینہ کے سامنے کھڑی ہو کر وہ عجیب عجیب حرکتیں کرتی ہے۔۔۔اپنے ہاتھ پاؤں پر چڑھے ہوئے گوشت کو باربار چھو کر دیکھتی ہے۔۔۔وہ فربہ ہونے لگی ہے۔۔۔اور منیش لمحہ لمحہ اس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

    ہوا کرے۔۔۔شٹ۔۔۔بڑے بڑے فلسفوں کے درمیان اصلی چہرے کو پہچاننے میں برسوں پہلے دھوکا ہو اہے اسے۔

    چھت ٹپک رہی ہے۔۔۔رات آہستہ آہستہ گھرتی جا رہی ہے۔۔۔ایلیشا ایک بار چیخ کر روئی ہے۔۔۔دیپا جب تک اس کے پاس دوڑ کر پہنچتی، کروٹ بدل کر وہ پھر گہر ی نیند میں سو گئی ہے۔ ایک ٹک وہ ایلیشا کو دیکھتی ہے۔۔۔یہاں اس جسم سے۔۔۔پورے نو ماہ گوشت پوست کے اس ٹکڑے کو۔۔۔سلائی کی طرح کھول کر باہر نکالا ہے اس نے۔۔۔اسی بدن سے جس کے نشان پر انگلیاں پھیرتا ہوا منیش ٹھہر جاتا ہے۔۔۔پوچھتا ہے۔۔۔تمہارے پیٹ پر یہ لمبے لمبے نشان کیسے آ گئے۔۔۔کیا سبھی کو ہو جاتے ہیں۔۔۔کسی ڈاکٹر سے کنسلٹ کیوں نہیں کرتیں۔۔۔یہاں اتنا گوشت کیسے آ گیا۔۔۔؟

    نشان۔۔۔گوشت۔۔۔چربی۔۔۔اسے لگتا ہے جسم کی ڈکشنری کے بس یہی لفظ رہ گئے ہیں، جسے اپنی انٹلیلکچوئل آنکھوں سے پڑھتا ہے وہ تھوڑا تھوڑا کرکے۔۔۔اسے کریدتا رہتا ہے۔۔۔چھیلتا رہتا ہے۔۔۔دیپا۔۔۔ تم یہاں۔۔۔یہاں اور یہاں سے بدصورت ہو رہی ہو۔۔۔تمہارا پیٹ کافی نکل گیا ہے۔۔۔چہرے پر جھائیاں پڑ رہی ہیں اور کبھی کبھی مذاق میں پوچھتا ہے۔۔۔دیپا تم عورت لگنے لگی ہو۔۔۔اماں جیسی عورت۔۔۔!

    بارش لگاتار ہو رہی ہے۔ جب سے بارش شروع ہوئی ہے ایک عجیب ساسناٹا باہر اور اس کے اندر اتر گیا ہے۔۔۔اس کے ایک دم اندر اندر۔۔۔اس نے دیوار گھڑی کی طرف دیکھا۔ گیا رہ بج گئے ہیں۔۔۔ایک ہمدرد، تشویش میں ڈوبی عورت چپکے سے اس میں سما جاتی ہے۔۔۔منیش اتنی دیر کہاں رہ گیا۔۔۔؟ آج ضرورت سے زیادہ دیر ہو گئی۔۔۔باہر کسی کام میں پھنس گیا ہوگا۔۔۔آخر کو پریس رپورٹر ہے نا۔۔۔جرنلسٹ۔۔۔ خود کو انٹلکچوئل سمجھنے والا۔

    بارش کی ہلکی ہلکی پھوہار اور چھت سے ٹپکتی پانی کی بوندوں میں کچھ گزری بسری یادیں بھی گھل مل گئی تھیں۔

    منیش سے اس کی لومیرج ہوئی تھی۔ تب ان دونوں کی شادی کو لے کر گھر میں کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ کتنا طوفان مچا تھا۔۔۔کمزور سامنیش۔۔۔بزدل سا۔۔۔گھر والوں کے سامنے بالکل سہما سہما اور اس کے سامنے پورے اعتماد کے ساتھ کھڑی تھی دیپا۔۔۔گھر، زمانہ، حالات۔۔۔اپنے فیصلے پر کمزوری اور بزدلی کی خاک مت ڈالو۔ فیصلہ کرو فوراً۔۔۔پھر پورے تیور اور اعتماد کے ساتھ وہ منیش پر کسی حکمراں کی طرح چھا گئی تھی۔

    ’’لاؤ تمہارا ہاتھ دیکھوں۔۔۔تھوڑی سی پامسٹری مجھے بھی آتی ہے۔۔۔غلطی تمہاری نہیں منیش۔ تمہارا نام ’’م‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔۔۔سنگھ راشی۔۔۔اس راشی کے لوگ، جن کی اگر بچپن سے ٹھیک پرورش نہ کی گئی تو وہ یا تو بہت بزدل بن جاتے ہیں یا پھر بہت خود سر۔۔۔اور پھر تمہارا انگوٹھا بھی جھکا ہوا ہے۔ ول پاور کی کمی ہے تمہارے یہاں۔ تم خود فیصلہ کر ہی نہیں سکتے۔۔۔چلو یہ فیصلہ اب مجھے ہی کرنا ہوگا‘‘۔

    منیش نے ہارمان لی تھی۔ ایک کمزور ہنسی کے ساتھ اس نے دیپا کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔ہاں! مجھ میں فیصلے کی بڑی کمی ہے دیپا۔۔۔وہ روہانسا ہو کر بولا تھا۔۔۔اعتماد کی رسی میرے ہاتھوں سے دھیرے دھیرے پھسل رہی ہے۔۔۔ پلیز دیپا۔۔۔

    وہ اور قریب آ گئی۔

    منیش کی آواز کسی گہرے کنوئیں سے آ رہی تھی۔۔۔ دیپا عورت کی ایک الگ سی تصویر ہے میرے اندر۔۔۔ایک دم سیتا۔۔۔مریم۔۔۔ساوتری کی داستانوں جیسی نہیں۔۔۔ان سے مختلف۔۔۔شانہ بشانہ میرے ساتھ چلتی ہوئی۔۔۔آج بھی اس دور میں بھی لڑکیوں کو مظلوم اور مرد کی جابر سلطنت کا ادنیٰ کھلونا کیوں تصور کیا جاتا ہے دیپا۔۔۔؟ بتا سکتی ہو۔۔۔ہم دونوں مرد عورت کی عام پریبھا شا بدل دیں گے دیپا۔۔۔ہمیشہ دوست رہیں گے جیسے دوست رہتے ہیں۔

    وہ بولتا رہا اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک ابھرتی رہی۔ تصور میں ست رنگے سپنوں کو بنتی رہی۔

    یہ سپنا اتنی جلدی کیسے ٹوٹ گیا تھا؟

    مسز منیش سکسینہ بن کر دلی کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں شامل ہوتے ہی یہ دوستی کیسے ٹوٹ گئی تھی۔

    دوست۔۔۔؟

    ہنسی آتی ہے۔۔۔دوستی تین سالوں تک نبھی۔۔۔ ہاں نبھی ہی کہا جا سکتا ہے۔۔۔دھیرے دھیرے فلسفوں کے کانٹے دار جنگل میں وہ کالے گھنے بادلوں کو دیکھتی رہی۔ خواب اتنے بدصورت کیوں ہوتے ہیں۔۔۔؟ اور فلسفے زندگی کی حقیقت کیوں نہیں بنتے۔۔۔؟ ذرا دور تک۔۔۔ایک دم پانی کے بلبلوں کی طرح پھوٹ جاتے ہیں۔۔۔پھوٹتے ہی سامنے والا ننگا کیوں ہو جاتا ہے۔

    وہ منیش میں اب ’’بھوت‘‘ دیکھتی تھی۔ تنہائی میں جبلت والا ایک درندہ اس میں سما جاتا ہے۔۔۔ Sadist کہیں کا۔۔۔ وہ اسے توڑتا تھا۔ چہرے پر پسینے کی بوندھیں چھلپھلا آنے تک اس کے پور ے وجود میں دیر تک گھناؤنی نفرت پیوست کر دیتا تھا۔

    وہ محبوبہ ارو دوست سے جانگھوں والی عورت بن جاتی تو جیسے خود پر شرم آتی۔ یہ مرد ہی کیوں جیتتے ہیں اور عورت چت کیوں ہو جاتی ہے۔۔۔ہمیشہ ہارنے والی۔۔۔مہینہ دو مہینے اور سال گزرتے ہی وہ منیش میں اپنے آپ سے اوبے ہوئے دوست کو محسوس کرنے لگی تھی۔

    جیسے اس کے لیے جو جذبہ یا احساس تھا اس کے اندر وہ بس سوتا جا رہا ہے۔۔۔جو احساس تھا وہ اسے نہیں اس کے جسم کو لے کر تھا۔ ایک سدا بہار غنچے کی طرح چٹکنے والے جسم کو لے کر۔۔۔جیسے ایک جابر بادشاہ کی نظریں بدلنے لگی تھیں۔ وہ بدل سا گیا تھا۔۔۔دھیرے دھیرے وہ پپٹ بنتا جا رہا تھا۔۔۔نہیں پپٹ نہیں۔۔۔کمپیوٹر یا مشین جو بھی کہیے۔۔۔بس ایک میکانکی عمل رہ گیا تھا ان دونوں کے درمیان۔۔۔باسی مکالمے۔۔۔ ’’کیسی ہو۔۔۔ کوئی خط آیا ہے۔۔۔کوئی آیا تھا آج ۔۔۔ ایلیشا سو گئی۔۔۔‘‘ نپے تلے جملے۔۔۔اور تھکان۔۔۔اسے دیکھتے ہوئے بھی اس کے اندر کوئی مسکراہٹ نہیں جنم لیتی تھی۔۔۔کوئی پیار۔۔۔ کوئی امنگ۔۔۔کوئی اضطراب۔۔۔کوئی ہلچل نہیں جاگتی تھی۔ بس ایک میکانکی عمل۔۔۔

    رات ہوتے ہی۔۔۔اندھیرا پھیلتے ہی۔۔۔اس کے ہاتھ دیپا کے بدن پر۔۔۔طوائف کے کوٹھے پر آئے عام گاہک کی طرح مچل اٹھے۔۔۔اسے لگتا ۔۔۔انجانے میں کوئی اور اس کے مقابل سو گیا ہے۔۔۔اسے نفرت ہوتی۔۔۔اسے لگتا یہ منیش نہیں ہے کوئی اور ہے۔۔۔جو اسے، اس عمل سے دیپا کو عورت ہونے کی رسوائی اور طعنوں سے لہو لہان کر رہا ہے۔۔۔لگاتار لہو لہان کیے جا رہا ہے۔۔۔

    اور۔۔۔اس نے محسوس کیا۔

    رات کے اندھیرے میں اسے محسوس کرتے ہیں۔۔۔منیش اندھیرا کیوں کر دیتا ہے۔۔۔اس کے بدن پر مچلتے ہوئے اس کے ہاتھ اسے بیگانے کیوں لگتے ہیں؟ اس کی آنکھیں رم جھم بارش کے وقت بند کیوں ہو جاتی ہیں۔

    نہیں۔۔۔تب وہ نہیں ہوتی ہے۔۔۔

    اس وقت دیپا نہیں ہوتی ہے۔۔۔

    کوئی اور ہوتا ہے منیش کے سامنے۔۔۔کوئی اور۔۔۔جو کم از کم دیپا نہیں ہے۔۔۔منیش کی بیوی نہیں ہے۔۔۔یہ کوئی اور ہوتی ہے۔۔۔کوئی بھی۔۔۔فلم ایکٹریس۔۔۔منیش کے دفتر میں کام کرنے والی کوئی لڑکی۔۔۔میگزین اور رسائل میں چھپنے والی کوئی ماڈل۔۔۔یا بس اسٹاپ پر کھڑی کوئی لڑکی۔۔۔کوئی بھی ہو سکتی ہے لیکن وہ نہیں ہوتی۔۔۔دیپا نہیں ہوتی۔

    اسے لگتا ہے وہ ہانپنے لگی ہے۔۔۔پہاڑ پر چڑھنے والے آدمی کی طرح۔۔۔وہ ایسا کیوں محسوس کرتی ہے۔۔۔منیش بدل رہا ہے۔۔۔بدلا کرے۔۔۔لیکن جب وہ اس کے ساتھ۔۔۔اس کے ساتھ رہتا ہے تو۔۔۔منیش کو اس میں دیپا کو ہی محسوس کرنا ہوگا۔۔۔ہاں دیپا کو یعنی مجھے۔۔۔مجھے ہی محسوس کرنا ہوگا۔

    کبھی کبھی وہ صدمے سے یا غصے سے زوروں سے چیخ پڑتی۔

    ’’نہیں منیش میں یو ں نہیں لیٹ سکتی‘‘۔

    اس کے ہاتھ سوئچ کی طرف بڑھ جاتے۔۔۔لائٹ آن کرو منیش۔۔۔مجھے وحشت ہو رہی ہے۔۔۔منیش نے لائٹ جلا دی۔۔۔چونک کر اسے دیکھا۔۔۔نائٹی پھینک کر وہ غصے سے اس کے سامنے تن جاتی۔۔۔

    ’’یہ میں ہوں۔۔۔میں ہوں منیش۔۔۔دیپا۔۔۔میں۔۔۔‘‘

    ’’ہاں تم ہی ہو۔۔۔میں نے کب کہا کہ۔۔۔‘‘

    ’’ہاں تم نے نہیں کہا۔۔۔لیکن میں جانتی ہوں۔۔۔میرے لیٹتے ہی میں مر جاتی ہوں۔ مجھ میں کوئی اور آ جاتا ہے۔ یہ سچ ہے منیش۔۔۔کوئی اور۔۔۔تم جسے بھوگتے ہو۔۔۔جسے محسوس کرتے ہو۔۔۔اور میرے وجود میں پگھلے شیشے کی طرح نفرت اتار دیتے ہو۔۔۔‘‘

    ’’کیوں پاگلوں جیسی باتیں کر رہی ہو دیپا۔۔۔‘‘

    منیش حیرانی سے دیکھتا ہے۔۔۔ ’’پتہ نہیں میری غیرموجودگی میں کیا کیا پڑھتی اور سوچتی رہتی ہو۔۔۔صبح دفتر جانا ہے۔۔۔ضد مت کرو۔۔۔اس وقت میں Relax ہونا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘

    وہ چیخ پڑتی ہے۔۔۔ ’’میں Relax ہونے کے لیے نہیں بنی ہوں منیش۔۔۔‘‘

    وہ بستر سے ایسے ہی اٹھ جاتی ہے۔۔۔’’مجھے دیکھو۔۔۔ مجھ میں بھی ایک آگ دہک رہی ہے۔۔۔ یہ میں ہوں۔۔۔ دیپا۔۔۔‘‘

    ہسٹریائی کیفیت کے تحت وہ رونا شروع کر دیتی ہے۔۔۔

    منیش دھیرے دھیرے اسے منانے کو آگے بڑھتا ہے تو وہ غصے میں ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔۔۔

    ’’پلیز ڈونٹ ڈسٹرب می۔۔۔لیومی الان۔۔۔پلیز۔۔۔سوجاؤ۔۔۔اور مجھے بھی سونے دو‘‘۔

    دیپا دیکھتی ہے۔۔۔ منیش کے چہرے پر الجھن کے آثار ہیں۔۔۔شکار کے پاس آکر بھی نامراد لوٹ جانے والے شیر کی طرح۔۔۔ وہ کروٹ بدل کر لیٹ گیا ہے۔۔۔ اور وہ محسوس کر رہی ہے۔۔۔ پلنگ مسلسل چیخ رہا ہے۔۔۔بج رہا ہے۔۔۔!

    شٹ منیش ایسے کیوں ہو جاتا ہے۔۔۔کیا سارے مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔؟

    صبح جب اس کا غصہ کافور ہوتا تو وہ نہائی ہوئی صبح کی طرح خوشگوار بن کر ایک گرم میٹھے چائے کے کپ کی طرح اس کی آنکھوں میں اتر جاتی ہے۔

    ’’منیش ڈئیر! معاف کر دو مجھے۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔ رات، بستر پر ایک خبطی عورت کہاں سے سما جاتی ہے مجھ میں۔۔۔ معاف کر دونا۔۔۔!

    ’’کر دیا۔۔۔ ‘‘ منیش ہنستا ہے۔۔۔جانتا ہوں۔۔۔ایبنورمل ہو تم۔۔۔تھوڑا تھوڑا میں بھی ہوں۔ تبھی تو تمہارے ساتھ مزہ آتا ہے۔۔۔دراصل تمہارے پانے کے سپنے میں بھی تھوڑی سی Abnormality شامل تھی۔

    آفس جاتے جاتے وہ جیسے اس کی دکھتی رگ پر پھر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔۔۔’’سارے مرد۔۔۔اس طرح بیوی سے ناراض ہو کر رات میں چارپائیاں کیوں توڑنے لگتے ہو۔۔۔کوئی تو ہوتا ہے نا۔۔۔مانو مت مانو۔۔۔ ہوتا ہے نا۔۔۔‘‘

    منیش پلٹتا ہے۔۔۔ اسے یاد ہے ایلیشا کی پیدائش کے دو ماہ بعد اس سوال کے جواب میں منیش نے کہا تھا۔

    ’’تم غلط جارہی ہو دیپا۔۔۔تمہاری سوچ غلط ہے۔۔۔تم سب کچھ غلط Angle سے کیوں دیکھتی ہو۔۔۔یعنی جو ہے وہ غلط ہے۔۔۔تم میں ایک دوسری عورت اندھیرے میں ہم بستری کے وقت آ سکتی ہے۔۔۔مگر ابھی نہیں۔۔۔جب ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے باسی اور بور ہو جائیں گے۔ بہت بور۔ تب اندر کے احساس کو جگانے کے لیے کسی چٹخارے کی ضرورت تو پڑےگی نا۔۔۔ابھی نہیں۔۔۔اور ایسا کیوں سوچتی ہو کہ اندھیرے میں ہی مردکے ذہن میں کوئی تصور بن سکتا ہے، بتی جلنے پرنہیں۔۔۔ذہن میں خاکے تو کبھی بھی بن سکتے ہیں۔۔۔لیکن عورت اپنے مرد کو اس کا موقع ہی کیوں دیتی ہے۔۔۔‘‘

    اور اسے لگا تھا منیش اس کے عورت ہونے کے نام پر ایک گندی سی گالی دے کر چلا گیا ہو۔۔۔ عورت اپنے مرد کو اس کا موقع ہی کیوں دیتی ہے۔۔۔کیوں دیتی ہے۔۔۔ہتھوڑے کی طرح یہ جملہ اس کے ذہن پر بجنے لگا تھا۔۔۔عورت۔۔۔کیونکہ وہ بھوگ بن جاتی ہے۔ مسلسل بھوگ کی چیز۔۔۔وہ نو ماہ اپنے مرد کی جبلت کو اپنی کوکھ میں سنجوتی ہے اور بدن پر بھدے نشان ابھار لیتی ہے۔۔۔عورت اگر بھدی ہوتی ہے تو اس میں کس کا ہاتھ ہوتا ہے۔۔۔کتنی صفائی سے مرد سارا الزام عورت پر ڈال دیتا ہے۔

    اسے لگتا ہے وہ ٹوٹ رہی ہے۔۔۔ایلیشا کے آنے کے بعد وہ لگا تار ٹوٹتی جا رہی ہے۔۔۔اس کے برابر بستر پر اس کے ساتھ ایک چھپکلی چل رہی ہے۔ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی چھپکلی اچانک اس کے بدن پر پھیل جاتی ہے۔۔۔اور اس پر اس لمحے صرف جسم سچ ہو جاتا ہے۔۔۔برسوں سے پوسا پالا پیار۔۔۔ایک میٹھے تیکھے وقتی احساس کے لیے۔۔۔اتنی دور تک ساتھ چلا یقین دھندلا کیوں ہو جاتا ہے۔۔۔کیوں؟

    ٹپ ٹپ بارش کے قطرے لگا تار گر رہے ہیں۔۔۔

    اسے خود سے نفرت ہوئی۔۔۔نہیں۔۔۔وہ بہت بری بنتی جا رہی ہے۔۔۔اس کے خیال۔۔۔اس کے حواس۔۔۔سب پر کوئی انقلابی حملہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔حملہ۔۔۔اور حملے کا پہلا وار منیش کی طرف سے کیا گیا ہے۔

    یہ مرد۔۔۔باہر سے آتے ہی فلسفوں کی تان عورت کے بدن پر کیوں ٹوٹتی ہے۔ وہ ایلیشا کو دھیرے دھیرے تھپک رہی ہے۔۔۔سوجا بیٹا۔۔۔سوجا۔۔۔

    نیچے منیش کی گاڑی رکنے کی آواز آتی ہے۔

    اس کی مٹھیاں بھنچ گئی ہیں۔۔۔نہیں۔۔۔وہ فاتح بننا چاہتی ہے۔۔۔کسی کمزور لمحے میں بھی۔۔۔فاتح۔۔۔جیسے زندگی کے ہر موڑ پر وہ ہے۔۔۔یہاں بھی وہ فتح جیسا احساس پیدا کرنا چاہتی ہے۔

    منیش کے پیروں کی چاپ زینے تک آ گئی ہے۔۔۔اور اسے محسوس ہو رہا ہے۔۔۔وہ ڈھال بن گئی ہے اور۔۔۔منیش تلوار ہے۔۔۔تلوار میں بجلی کی سی چمک ہے۔۔۔اور ڈھال میں زبردست قوت مدافعت۔۔۔چمکتی ہوئی برہنہ تلوار لہراتی ہوئی ڈھال کو زیر کرنا چاہتی ہے۔۔۔مگر زناٹے دار ناچتی ہوئی ڈھال کے آگے تلوارbکو سپر ڈالنی ہی پڑتی ہے۔۔۔ڈھال اچھل کر تلوار کی نوک پر گرتی ہے۔۔۔اور ڈھال کی وقت تمازت سے تلوار پگھل پگھل کر قبول کر لیتی ہے۔۔۔

    ڈور بیل لگا تار بج رہی ہے۔۔۔اور بالکنی پر بارش کے قطرے ٹپ ٹپ گرتے ہیں جا رہے ہیں۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے