Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ملاقاتی

MORE BYسعادت حسن منٹو

    کہانی کی کہانی

    ’’میاں بیوی کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیکر ہونے والی بحث مباحثوں کی عکاسی اس کہانی میں کی گئی ہے۔ صبح آنے والے کسی ملاقاتی پر شک کرتی ہوئی بیوی شوہر سے پوچھتی ہے کہ ان سے صبح کون ملنے آیا تھا؟ بیوی کے اس سوال کے جواب میں شوہر اس کے سامنے ہر طرح کی دلیل پیش کرتا ہے، مگر بیوی کو کسی بات پر یقین نہیں آتا۔‘‘

    ’’آج صبح آپ سے کون ملنے آیا تھا؟‘‘

    ’’مجھے کیا معلوم، میں تو اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔‘‘

    ’’آپ تو بس ہر وقت سوئے ہی رہتے ہیں، آپ کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا، حالانکہ آپ سب کچھ جانتے ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’یہ عجیب منطق ہے۔ اب مجھے کیا معلوم کون صبح سویرے تشریف لایا تھا، کون آیا ہوگا۔۔۔ میرے ملنے والا یا کوئی اور شخص جسے سفارش کرانا ہوگی۔‘‘

    ’’آپ کی سفارش کہاں چلتی ہے۔ بڑے آئے ہیں گورنر کہیں کے۔‘‘

    ’’میں نے گورنری کا دعوی کبھی نہیں کیا، لیکن ادھر ادھر میری تھوڑی سی واقفیت ہے، اس لیے دوست یار کبھی کبھی کسی رشتے دار کو یہاں لے آتے ہیں کہ سفارش کر دو۔‘‘

    ’’آپ بات ٹالنے کی کوشش نہ کیجیے۔ میری اس بات کا جواب دیجیے کہ صبح سویرے آپ سے ملنے کے لیے کون آیا تھا؟‘‘

    ’’بھئی کہہ تو دیا ہے کہ مجھے علم نہیں۔ میں اندر اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔ تمھیں اتنا تو یاد ہونا چاہیے کہ رات بڑے بچے کو بخار تھا اور میں دیر تک جاگتا رہا ،اس کے بعد اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور نو بجے تک سوتا رہا۔‘‘

    ’’میں تواوپر کوٹھے پر تھی ۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اس سے اٹھ کر ملے ہوں۔‘‘

    ’’کسی سے کچھ پتہ بھی تو چلے۔‘‘

    ’’آپ کو پتہ چل جائے گا جب میں یہ گھر چھوڑ کر میکے چلی جاؤں گی۔‘‘

    ’’ میری سمجھ میں نہیں آتا، تمھیں ایکا ایکی کیا ہو جاتا ہے، تمہارے دماغ میں یقیناًفتور ہے۔‘‘

    ’’فتور ہوگا آپ کے دماغ میں۔ میرا دماغ اچھا بھلا ہے ،دیکھیے! میں آپ سے کہہ دوں آپ زبان سنبھال کر بات کیا کیجیے، مجھ سے آپ کی یہ بد زبانیاں برداشت نہیں ہوسکتیں۔‘‘

    ’’تم خود پرلے درجے کی بد زبان ہو، کیا عورت کو اپنے شوہر سے اس طرح سے بات کرنی چاہیے؟‘‘

    ’’جو شوہر اس قابل ہوگا۔ اس سے اس قسم کے لہجے میں گفتگو کرنا پڑے گی۔‘‘

    ’’بند کرو اس گفتگو کو۔ میں تمہاری اس روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ چکا ہوں ۔تم تو میکے جاتی رہو گی، میں اس سے پہلے اس گھر سے نکل کر چلا جاؤں گا۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’کسی جنگل میں۔‘‘

    ’’وہاں جا کر کیا کیجیے گا۔‘‘

    ’’سنیاسی بن جاؤں گا۔ تم سے چھٹکارا تو مل جائے گا۔ خدا کی قسم چند برسوں سے تم نے میرے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ بات بات پر نوک جھونک کرتی ہو، آخر یہ سلسلہ کیا ہے، جانے کون کم بخت صبح مجھ سے ملنے آیا تھا میرے دشمنوں کو بھی خبر نہیں، خود کہتی ہو کہ تم کوٹھے پر تھیں، تمھیں کیسے معلوم ہوگیا کوئی مجھ سے ملنے آیا ہے کبھی تک کی بات بھی کیا کرو۔‘‘

    ’’آپ تو ہمیشہ تک کی بات کرتے ہیں ،ابھی کل ہی کی بات ہے، آپ دفتر سے آئے تو میں نے آپ کی سفید قمیص پر لال رنگ کا ایک دھبہ دیکھا میں نے پوچھا یہ کیسے لگا آپ سٹپٹا گئے، مگر فوراً سنبھل کر ایک گڑھ دی کہ لال پنسل سے کھجا رہا تھا شاید یہ اس کا نشان ہوگا۔ حالانکہ جب آپ نے قمیص اتاری اور میں نے اس دھبے کو غور سے دیکھا تو وہ لپ اسٹک کا دھبہ تھا۔‘‘

    ’’میرا خیال ہے کہ تمہارا دماغ چل گیا ہے۔‘‘

    ’’جناب اس لال دھبے سے خوشبو بھی آرہی تھی۔ کیا آپ کے دفتر کی لال پنسلوں میں خوشبو ہوتی ہے۔‘‘

    ’’عورت کا دوسرا نام اپنے خاوند کی ہربات کو شک کی نظروں سے دیکھنا ہے۔‘‘

    کل صبح تم نے ہی میری اس قمیص پر سینٹ لگایا تھا۔‘‘

    ’’لگایا ہوگا مگر وہ داغ یقیناً لپ اسٹک کا تھا۔‘‘

    ’’یعنی لپ اسٹک لگے ہونٹ میری قمیص چومتے رہے۔‘‘

    ’’آپ کو باتیں بنانا خوب آتی ہیں، قمیص چومنے کا سوال کیا پیدا ہوتا ہے، کیا ہونٹ ویسے ہی قمیص سے نہیں چھوسکتے۔‘‘

    ’’چھو سکتے ہیں بابا۔۔۔ چھو سکتے ہیں تم یہ سمجھتی ہو کہ میں کوئی یوسف ہوں کہ لڑکیاں میرے حسن سے اس قدر متاثر ہوتی ہیں کہ غش کھا کر مجھ پر گرتی جاتی ہیں اور میں جھاڑو ہاتھ میں لےکر سڑکوں سے یہ کوڑا کرکٹ اٹھاتا رہتا ہوں۔‘‘

    ’’مرد ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں۔‘‘

    ’’دیکھو تم عورت ذات کی خود عورت ہو کر توہین کر رہی ہو۔ کیا عورتیں اتنے ہی کمزور کردار کی ہیں کہ ہر مرد کے آگے پاانداز کی طرح بچھ جائیں ،خدا کے لیے کچھ تو اپنی صنف کا خیال کرو میں نے تو ہمیشہ عورت کی عزت کی ہے۔ ‘‘

    ’’عزت کرنا ہی تو آپ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ،جو بے چاری بھولی بھالی عورت کو آپ کے جال میں پھنسا لیتا ہے۔‘‘

    ’’میں کوئی چڑی مار نہیں جو جال بچھاتا رہے۔‘‘

    ’’آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں ورنہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ چڑی ماروں کے گرو ہیں۔‘‘

    ’’یہ رتبہ آج تم نے بخشا ہے۔ آٹھ دس روز ہوئے مجھے کمینہ کہا گیا تھا آج چڑی ماروں کا گرو، پرسوں یہ ارشاد ہوگا کہ تم ہٹلر ہو۔‘‘

    ’’وہ تو آپ ہیں۔ اس گھر میں چلتی کس کی ہے، جو آپ کہیں وہی ہوگا۔ ہو کے رہے گا۔ میں تو تین میں ہوں نہ تیرہ میں۔‘‘

    ’’میں کہتا ہوں اب یہ فضول بکواس بند ہو جانی چاہیے، میرا دماغ چکرا گیا ہے۔‘‘

    ’’دماغ آپ کا بہت نازک ہے۔ ذراسی بات کر و تو چکرانے لگتا ہے۔ میں عورت ہوں میرا دماغ تو آج تک آپ کی باتوں سے نہیں چکرایا۔‘‘

    ’’عورتیں بڑی سخت دماغ ہوتی ہیں، یوں تو انھیں صنف نازک کہا جاتا ہے مگر جب واسطہ پڑتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ایسی صنفِ کرخت دنیا کے تختے پر نہیں۔‘‘

    ’’آپ حد سے بڑھ رہے ہیں۔‘‘

    ’’کیا کروں۔ تم جو میرا دماغ چاٹ گئی ہو، تم اتنا تو سوچو کہ میں دفتر میں آٹھ گھنٹے جھک مار کر گھر آیا ہوں ،تھکا ہارا ہوں ،مجھے آرام کی ضرورت ہے اور تم لے بیٹھی ہو ایک فرضی قصّہ کہ تم سے ملنے کے لیے صبح سویرے کوئی آیا تھا۔ کون آیا تھا یہ بتا دو تو سارا جھنجھٹ ختم ہو۔‘‘

    ’’آپ تو بس بات ٹالنا چاہتے ہیں۔‘‘

    ’’کون خر ذات بات ٹالنا چاہتا ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ کسی نہ کسی حیلے ختم ہو۔‘‘

    ’’لو اب بتا دو کون آیا تھا مجھ سے ملنے۔‘‘

    ’’ایک چڑیل تھی۔‘‘

    ’’وہ یہاں کیا کرنے آئی تھی۔ میرا اس سے کیا کام؟‘‘

    ’’یہ آپ اسی سے پوچھیے گا۔‘‘

    ’’اب تو مجھ سے پہیلیاں نہ بھجواؤ۔ بتاؤ کون آیا تھا۔ لیکن تم تو کوٹھے پر سو رہی تھیں۔‘‘

    ’’میں کہیں بھی سوؤں لیکن مجھے ہر بات کی خبر ہوتی ہے۔‘‘

    ’’اچھا بھئی، میں تو اب ہار گیا نہا دھو کر کلب جاتا ہوں کہ طبیعت کا تکدر کسی قدر دور ہو۔‘‘

    ’’صاف کیوں نہیں کہتے کہ آپ اس سے ملنے جا رہے ہیں۔‘‘

    ’’خدا کی قسم آج میرا دماغ پاش پاش ہو جائے گا۔ میں کس سے ملنے جارہا ہوں۔‘‘

    ’’اسی سے۔‘‘

    ’’تمہارا مطلب ہے اسی چڑیل سے۔‘‘

    ’’اب آپ سمجھ گئے۔ تو کلب جا کر آپ کو اور کس سے ملنا ہے۔۔۔ مجھ سے۔‘‘

    ’’تم تو ہر وقت میرے سینے پر سوار رہتی ہو۔‘‘

    ’’اسی لیے تو آپ اپنے سینے کا بوجھ ہلکا کرنے جارہے ہیں، کسی دن مجھے زہر ہی کیوں نہیں دے دیتے تاکہ قصہ ہی ختم ہو۔‘‘

    ’’اتنی دیر میں تو پاگل نہیں ہوا لیکن آج ضرور ہو جاؤں گا۔‘‘

    ’’اس لیے کہ میں نے آپ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔‘‘

    ’’میری تو ہر رگ آج دکھ رہی ہے ،تم نے مجھے اس قدر جھنجوڑا اور لتاڑا ہے کہ اللہ کی پناہ۔۔۔ تم عورت نہیں ہو۔۔۔ لندھور پہلوان ہو۔‘‘

    ’’یہ سننا آپ سے باقی رہ گیا تھا۔۔۔ نہ رہے وہ چڑیل اس دنیا کے تختے پر۔‘‘

    ’’پھر وہی چڑیل ۔۔۔دیکھو باہر ڈیوڑھی سے مجھے کسی عورت کی آواز سنائی دی ہے۔‘‘

    ’’آپ ہی جا کر دیکھیے۔‘‘

    ’’لاحول ولا قوۃ۔۔۔ عورتوں کو دیکھنا میرا کام نہیں۔۔۔ صرف تمہارا ہے!‘‘

    ’’نوکر سے کہتی ہوں۔‘‘

    ’’بی بی جی! وہی بی بی آئی ہیں جو آج صبح آئی تھیں۔‘‘

    ’’میں چلتا ہوں۔‘‘

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ آپ ہی سے تو وہ ملنے آئی ہے۔‘‘

    ’’اوہ ذکیہ۔۔۔ تم۔۔۔ تم۔۔۔ تم یہاں کب آئیں؟‘‘

    ’’ہوائی جہاز میں پہلے نیروبی سے کراچی پہنچی پھروہاں سے یہاں ہوائی جہاز ہی میں آئی۔ ابا جی باہر کھڑے ہیں۔‘‘

    ’’تم نے بھی حد کر دی ذکیہ۔ میں خود جاتی ہوں۔۔۔ اپنے ابا جی کو لینے، اتنی مدت ہوگئی ہے ان کو دیکھے ہوئے!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے