Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اور سائیں بابا نے کہا

فکر تونسوی

اور سائیں بابا نے کہا

فکر تونسوی

MORE BYفکر تونسوی

     

    منہ مانگی موت
    ایک نحیف و نزار بوڑھا جھلنگی چارپائی پر پڑا کراہ رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا، ’’آہ! نہ جانے موت کب آئے گی؟‘‘ اتنے میں موت آگئی اور بولی، ’’بابا میں آگئی ہوں!‘‘ بوڑھا ناراض ہوکر بولا، ’’بڑی بےوقوف ہو۔ میں نے تو اپنے لڑکے کو بلایا تھا کہ وہ آکر میری خبر گیری کرلے۔‘‘

    موت نے کہا، ’’بابا! میں تمہارا لڑکا ہوں۔‘‘

    دو دوست، دو دشمن
    جنگل میں جاتے جاتے سائیں بابا نے دیکھا کہ ایک کوڑیالا سانپ مرا پڑا ہے۔ چند قدم کے فاصلے پر ایک نیولا بھی مرا پڑا تھا۔سائیں بابا نے نیولے کو اٹھایا اور سانپ کے پاس لاکر رکھ دیا۔ ان دونوں کی بانہیں ایک دوسرے کی گردن میں ڈال دیں۔ بالکل دو دوستوں کی طرح وہ ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالے پڑے رہے۔

    چند منٹ تک سائیں بابا انہیں دیکھتا رہا۔ اچانک ان دونوں میں ایک حرکت سی پیدا ہوئی۔ دونوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ دونوں نے آنکھیں کھول کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

    اور پھر دونوں آگ بگولا ہوکر ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔

    کامیاب یتیم خانہ
    یتیم خانے کے انچارج نے مجھے بتایا، ’’ان سب بچوں کے ماں باپ مرچکے ہیں۔‘‘

    ’’افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں۔ ہم انہیں پالیں پوسیں گے۔ انہیں کام سکھائیں گے، انہیں باروزگار بنائیں گے، ان کی شادیاں کریں گے۔ ان کے بچے پیدا ہوں گے۔‘‘

    ’’اور پھر ان میں سے کئیوں کےبچے یتیم ہوجائیں گے۔ افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ ہم انہیں پھر یتیم خانے میں داخل کردیں گے۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ ہمارا یتیم خانہ گزشتہ ایک سو سال سے قائم ہے اور بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔‘‘

    حسن کی قیمت
    ایک مشہور و معروف مصور نے ایک حسینہ کی تصویر بنائی۔ اس حسینہ کے خدوخال میں اتنی نزاکتیں اور جسم میں اتنی قوسیں تھیں کہ تصویر دیکھتے ہی ہر شخص اسے خریدلیتا اور اپنے سینے سے لگالیتا۔ اور جب یہ تصویر ایک بین الاقوامی نمائش میں پیش کی گئی تو اسے اعلیٰ درجہ کا حسن قرار دیا گیا۔۔۔ اور وہ تصویر ایک بھکارن کی تھی جو آج بھی سڑکوں پر ایک ایک پیسے کی بھیک مانگتی پھرتی ہے!

    حسین کون؟
    میں نے چکور سے پوچھا، ’’دنیا میں سب سے زیادہ حسین کون ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’چاند۔‘‘ میں نے ایک سیٹھ سے پوچھا، ’’سب سے زیادہ حسین کون ہے؟‘‘ وہ بولا، ’’روپیہ‘‘۔ میں نے ایک طوائف سے پوچھا، ’’سب سے زیادہ حسین کون ہے؟‘‘ وہ بولی، ’’گاہک‘‘۔ میں نے ایک ننھے سے بچے سے پوچھا، ’’سب سے زیادہ حسین کون ہے؟‘‘ کہا، ’’دودھ!‘‘

    اور پھر میں نے ایک پاگل سے پوچھا، ’’بتاؤ تمہارے خیال میں سب سے زیادہ حسین کون ہے؟‘‘ اس نے ہنس کر کہا، ’’خود میں۔‘‘

    حسینہ کی نگاہیں
    حسینہ نے درخت کی طرف دیکھا تو درخت پر پھول کھل اٹھے۔ حسینہ نے ایک کار کی طرف دیکھا تو مارکیٹ میں کاروں کا نرخ دوگنا ہوگیا۔ حسینہ نے ایک پتھر کی طرف دیکھا تو وہ سنگ مرمر بن کر محل میں جالگا۔ اور حسینہ نے شراب بوتل کی طرف دیکھا تو اس کی پرستش شرع کردی گئی۔

    لیکن حسینہ نےجب ایک انسان کی طرف دیکھا تو اس انسان کو انسانوں نے پھانسی پر لٹکا دیا۔

    بہادر عاشق
    ایک میاں بیوی ایک عاشقانہ فلم دیکھ کر آئے اور گھر آکر دونوں فلم کے ہیرو ہیروئن کی طرح عاشقانہ مکالمے بولنے لگے۔میاں نے کہا، ’’پیاری! یہ چاند اور ستارے گواہ ہیں کہ میں تمہاری خاطر اپنی جان تک دے دوں گا۔‘‘ بیوی نے کہا، ’’پیارے! میں تمہاری خاطر سارے سماج کو ٹھکرادوں گی اور تمہارے پاس آجاؤں گی۔‘‘

    اور پھر دونوں نے بیک آواز کہا، ’’یہ مکالمے تو شادی سے پہلے کے ہیں۔‘‘

    قحط کا مقابلہ
    شہر میں غذائی قحط پڑگیا۔ معززین شہر نے بڑی تیزی سے غلے کے اسٹاک کرلیے۔ لوگوں میں ہاہاکار مچ گئی۔ ا ناج کا دانہ دانہ بلیک مارکیٹ میں ملنے لگا۔ فٹ پاتھوں پر چلتے چلتے فاقہ کش اچانک گرپڑتے اور دم توڑدیتے۔ ہاتھ دعاؤں کو اٹھتے مگر نقاہت سے لٹک کر رہ جاتے۔

    اور پھر شہر کے بڑے حاکم نے صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ریلیف کمیٹی بنائی اور اس کمیٹی میں جتنے ممبر لیے گئے وہ سب غلے کے بلیک مارکٹیے تھے۔

    بے روح فقرے
    ایک معزز آدمی نے اپنے گھر کےاندر ایک نہایت خوبصورت فریم میں مندرجہ ذیل ماٹو لکھ کر لٹکا رکھا تھا،

    ’’بے ایمان آدمی جہنم میں جاتا ہے۔‘‘

    ’’امانت میں خیانت کرنا گناہ ہے۔‘‘

    ’’کسی کا حق چھیننا بزدلی ہے۔‘‘

    اور جس آرٹسٹ نے یہ ماٹو لکھا تھا، وہ اپنی اجرت حاصل کرنے کے لیے عمر بھر روتا رہا۔

    شہر کےکتے
    شہر کے دو معززین کلب میں بیٹھے مے نوشی میں مصروف تھے۔ ایک معزز شہر نے لہراتے ہوئے کہا، ’’اے اگر میں چاہوں تو شہر کے تمام کتے تم پر چھوڑ سکتا ہوں۔‘‘ دوسرا معزز بولا، ’’مگر کتے لاؤگے کہاں سے؟‘‘

    ’’میں شہر کے تمام کتے خریدلوں گا۔‘‘

    ’’وہ تو پہلے ہی خرید چکا ہوں۔‘‘

    ’’کس لیے؟‘‘

    ’’تم پر چھوڑنے کےلیے۔‘‘

    انوکھا مریض
    شہر کے مشہور و معروف ڈاکٹر چترویدی کے مطب میں ایک ہٹا کٹا مریض داخل ہوا اور ڈاکٹر کے قریب پڑی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور بولا، ’’ڈاکٹر صاحب! سنا ہے، آپ انسان کی ہر بیماری کا علاج کرتے ہیں۔‘‘

    ’’آپ نے ٹھیک سنا ہے۔‘‘

    مریض بولا، ’’ڈاکٹر صاحب! مجھے ایک نہایت خوفناک اور کہنہ مرض ہے۔ آپ میرا علاج کردیجیے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا، ’’فرمائیے، کیا مرض ہے آپ کو؟‘‘ 

    یہ سن کر ہٹے کٹے مریض نے منہ پر ایک گھونسا جمایا، میز پر پڑا ہوا ڈاکٹر کا ہیٹ اٹھایا اور ہنستے ہوئے باہر چلا گیا۔

    سائنس داں
    سائنس داں اچھلتا کودتا ہوا پنی لیباریٹری سے اچانک باہر نکل آیا اور جوش مسرت میں اپنے ننھے سے بچے کے دونوں کندھوں کو پکڑ کر بولا، ’’ننھے! ننھے! تم یہ جان کر خوش ہو گے کہ میں نے آخر وہ حیرت انگیز چیز ایجاد کرلی ہے۔‘‘ بچہ بولا، ’’کیا چیز؟‘‘ سائنس داں نے کہا، ’’ایک ایسی چیز جس سے میں دنیا کے ہر آدمی کو ایک سیکنڈ میں مارسکتا ہوں۔‘‘

    بچہ خوش ہوکر بولا، ’’تو ڈیڈی! پہلے مجھے مار کر دکھاؤ اس چیز سے۔‘‘

    ٹیچر
    ایک ٹیچر ہر روز گدھے پر سوار ہوکر مدرسے جایا کرتا تھا۔ ایک دن حسب معمول جب وہ گدھے پر سوار ہو کر جارہا تھا تو گدھے نے کہا، ’’کیوں جی، آپ ہر روز مدرسےمیں کیا کرنے جاتے ہیں۔‘‘ ٹیچر بولا، ’’میں لڑکوں کو علم سکھانے جاتا ہوں۔‘‘ گدھا بولا، ’’علم سیکھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘ ٹیچر نے کہا، ’’علم سیکھنے سے عقل آجاتی ہے۔‘‘ گدھا کہنے لگا، ’’تو پھر ماسٹر جی! مجھے بھی عقل سکھادو۔‘‘

    ٹیچر نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’نہیں، اگر میں نے تمہیں عقل سکھادی تو پھر سواری کس پر کروں گا؟‘‘

    لیڈر
    اسٹیج کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے لیڈر نے نہایت جذبات انگیز لہجے میں کہا، ’’پیارے حاضرین! میری زندگی کا واحد مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے۔ میرا ہر قدم عوام کے مفاد ہی کے لیے اٹھتا ہے۔میں نے جتنی قربانیاں کیں وہ صرف آپ لوگوں کے لیے کیں اور مجھے فخر ہے کہ میں عوام کی تمناؤں کا عکس بن گیا ہوں۔ کیا آپ میں کسی کو بھی میرے اس بات پر شک ہے؟‘‘

    حاضرین میں سے ایک شخص اٹھا اور بولا، ’’ہاں مجھے شک ہے۔‘‘

    یہ سن کر لیڈر نے اس شخص کو اسٹیج پر بلالیا اور اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھادیا۔

    کلرک
    کلرک کی بیوی نے ساتویں بچے کو جنم دیتے وقت درد سے کراہتے ہوئے کہا، ’’آہ بچے بڑھتے جارہے ہیں مگر ہماری تنخواہ نہیں بڑھ رہی۔‘‘

    کلرک نے اپنی بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’ہاں مگر بچے بھگوان دیتا ہے اور تنخواہ دفتر دیتا ہے۔‘‘

    وکیل
    عدالت میں ایک وکیل بطور ملزم پیش کیا گیا۔ جج نے اس سے کہا، ’’نہایت افسوس کی بات ہے کہ آپ نے قانون داں ہوکر بھی قانون توڑا ہے۔‘‘

    وکیل نے سنجیدگی سے جواب دیا، ’’مائی لارڈ، قانون توڑنے سے پہلے میں نے قانون کی کتاب اچھی طرح پڑھ لی تھی اور یہ تسلی کرلی تھی کہ اس قانون شکنی کے توڑکے لیے کون سا قانون موجود ہے۔‘‘

    گداگر
    ایک پڑھا لکھا گداگر گداگروں کا لیڈر بن گیا۔ چونکہ اس کا زیادہ تر وقت گداگروں کی تنظیم اور ان کے حقوق کی حفاظت پر صرف ہونے لگا۔ اس لیے گداگروں کی طرف سے اس کا ماہانہ وظیفہ مقرر کردیاگیا۔ ہر گداگر اس وظیفہ کے سلسلے میں ہر مہینے ایک روپیہ ادا کیا کرتا۔

    ایک مرتبہ گداگروں کے لیڈر سے کسی نے پوچھا، ’’استاد! یہ اچھا ہوا کہ تم سے گداگری چھوٹ گئی اور اب تم ایک معزز شہری بن گئے ہو۔‘‘ وہ زہریلے تبسم کے ساتھ بولا، ’’ گداگری کہاں چھوٹی ہے؟ میں ابھی تک بھیک مانگتا ہوں۔ پہلے راہگیروں سے مانگا کرتا تھا، اب گداگروں سے مانگتا ہوں۔‘‘

    ایڈیٹر
    اخبار کے ایڈیٹر سے اس کے ایک دوست نے پوچھا، ’’کیا یہ صحیح ہے کہ تمہاری معلومات بے حد وسیع ہیں؟‘‘ ایڈیٹر فخر سے بولا، ’’ہاں۔‘‘ دوست نے پھر پوچھا، ’’اور کیا یہ بھی صحیح ہے کہ تمہیں دنیا کی خبروں کا علم رہتا ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’معاف کرنا تمہیں دنیا کی خبروں کا علم ہے مگر اپنے بارے میں ایک چھوٹی سی خبر کا بھی علم نہیں؟‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘

    ’’وہ یہ کہ تمہارے سر کے بال اڑگئے ہیں۔‘‘

    بڑھئی
    بڑھئی نے ایک کرسی بنائی اور بازار میں جاکر بیچ دی۔ وہ روپے لے کر بازار میں آٹا لینے گیا۔ آٹا تولتے وقت دوکاندار نے ڈنڈی ماری جس پر بڑھئی کو تاؤ آگیا۔ اس نے دوکاندار کو برا بھلا کہا، دکاندار نے اسے گالی دی، بڑھئی نے مکہ مار کر دکاندار کا دانت توڑدیا۔ بڑھئی کو گرفتار کرلیا گیا۔ کئی مہینے اس پر مقدمہ چلتا رہا اور آخر عدالت نے اسے چھ ماہ کی سزا دے دی۔

    جس جج نے بڑھئی کو سزا کا حکم سنایا وہ اسی بڑھئی کی بنائی ہوئی کرسی پر بیٹھا تھا۔

    چور
    ایک چور رات کو کسی کے گھر میں داخل ہوا۔ جس کمرہ میں داخل ہوا وہاں اندھیرا تھا مگر بغل کے کمرہ میں روشنی ہو رہی تھی اور اندر سے میاں بیوی کی باتیں کرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میاں کہہ رہا تھا، ’’پیاری آج تو ہر گھر میں روشنی ہو رہی ہے، سارا شہر جاگ رہا ہے۔ اس لیے آج کہیں نقب نہیں لگا سکا۔‘‘

    بیوی بولی، ’’اس کا مطلب ہےآج تم خالی ہاتھ لوٹ آئے، کوئی بھی چیز چراکر نہیں لائے؟‘‘ میاں بولا، ’’نہیں نہیں، ایک گھر میں تھوڑا سا موقع ملا تو ایک گھڑی میرے ہاتھ لگ گئی۔ جو ساتھ والے کمرہ میں میز کی دراز میں رکھ آیا ہوں۔‘‘

    میاں بیوی کی یہ گفتگو سن کر پہلے چور نے میز کی دراز کھولی اور گھڑی اٹھاکر مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔

    شاعر
    شاعر کو خدا کے حضور میں پیش کیا گیا۔ خدا نے پوچھا، ’’شاعر! تم چونکہ ہمارے خاص آزاد منش بندے ہو، اس لیے تم خود ہی بتاؤ کہ تم جنت میں رہنا پسند کروگے یا دوزخ میں؟‘‘ شاعر بولا، ’’جہاں سامعین کی تعداد زیادہ ہو۔‘‘

    چنانچہ خدا نے اسے دوزخ میں بھیج دیا۔

    تربیت گاہ
    ننھے کی ماں ننھے کے ابا سے جھگڑا کر رہی تھی۔

    ’’ننھا گالیاں بکنے کا عادی ہوگیا ہے، اور تم نے اس بدمعاش کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔‘‘ ننھے کے ابا نے کہا، ’’بکواس کرتی ہو تم۔ تم ہی اسے الو کا پٹھا بنارہی ہو۔‘‘ ننھے کی ماں نے کہا، ’’اولاد تمہاری ہے۔ لفنگے کی اولاد بھی لفنگی بنے گی۔ اور کیا بنے گی؟‘‘ ننھے کے ابا نے کہا، ’’اور تم کون سے شریف خاندان سے آئی ہو۔ تمہارا باپ بھی تو چور اچکا ہی تھا!‘‘

    اور دونوں کا ننھا ایک کونے میں بیٹھا ہوا یہ نئی گالیاں سن رہا تھا اور ذہن میں نوٹ کر رہا تھا۔

    آئینوں کا فرق
    اپنی بیوی کو قدآدم آئینے کے سامنے کھڑے دیکھ کر شوہر نے بڑے مستانہ لہجے میں کہا، ’’پیاری! آج تو تم راجہ اندر کے اکھاڑے کی پری معلوم ہو رہی ہو۔‘‘ بیوی نے طعنہ دیتے ہوئے کہا، ’’کل تو تم کہہ رہے تھے کہ تم چڑیل ہو، ڈائن ہو۔‘‘

    ’’کل تم میرے سامنے کھڑی تھیں۔ مگر آج آئینے کے سامنے کھڑی ہو۔‘‘

    بے نیاز جوڑا
    سرکار کی طرف سے منادی کرائی گئی۔

    ’’ملک کی آبادی خطرناک حدتک بڑھ رہی ہے۔ اس لیے سرکار ملک کے ہرمیاں بیوی سے اپیل کرتی ہے کہ وہ کم سےکم بچے پیدا کریں۔‘‘

    ایک جوڑے نے بازار میں چلتے چلتے یہ منادی ایک کان سے سنی اور دوسرے سے اڑادی۔ کیونکہ ان کے ہاں گزشتہ بیس سال سے ایک بھی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا۔

    بیوی کا بھاگیہ
    بیوی آنسوؤں، ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان کہہ رہی تھی، ’’میں کہتی ہوں اس گھر میں آکر تو میرے بھاگ ہی پھوٹ گئے۔ آخر یہاں آکر مجھے کیا ملا؟‘‘

    نیچے سڑک پر سے ایک خوانچے والے کی آواز آئی، ’’پاپڑ کرارے!‘‘

    بھگوان کا فیصلہ
    مندر میں بھگوان کرشن کی مورتی کے سامنے ایک عورت آنکھیں بند کیے پرارتھنا کر رہی تھی، ’’اے مرلی منوہر! میرے خاوند کو بدھی عطا کر، تاکہ وہ دوسروں کے بہکاوے میں نہ آیا کرے۔‘‘

    بھگوان کی مورتی جیسے بول اٹھی، ’’ابھی دس منٹ پہلے ہی تیرا خاوند بھی مجھ سے یہی کہہ گیا ہے۔‘‘

    تعلیم کا مقصد
    ایک خدا ترس اور ایک نیک وکیل صاحب ہر روز ایک طوائف کے ہاں جاتے اور رات گئے لوٹ آتے۔ میں نےایک دن ان سے پوچھا، ’’آپ ہر روز طوائف کے ہاں کیوں جاتے ہیں؟ ایک مہذب آدمی کے لیے یہ بات نہایت نامناسب ہے!‘‘

    وہ گردن اکڑاکر بولے، ’’میں اس سے تہذیب سیکھنے جاتا ہوں۔‘‘

    بیٹے کا باپ
    طوائف کے ننھے سے معصوم بچے نے ایک دن ماں سے پوچھا، ’’ماں! یہ ہر روز ہمارے گھر میں اتنے آدمی کیوں آجاتے ہیں؟‘‘

    طوائف نے ایک سرد آہ بھر کر کہا، ’’بیٹا! میں خود ان آدمیوں کو یہاں بلاتی ہوں، تاکہ تم پہچان سکو کہ ان میں سے تمہارا باپ کون ہے؟‘‘

    رنگین مقولے
    جو لوگ طوائف سے نفرت کرتے ہیں، طوائف ان سے بھی نفرت نہیں کرتی۔ 

    جس سماج میں محبت کرنا جرم ہو، وہاں قحبہ خانے کھولنا کوئی جرم نہیں۔

    طوائفوں کے لائسنسوں سے جو رقم وصول کی جاتی ہے، وہ اخلاق سدھار نے والی سبھاؤں پر خرچ کی جاتی ہے۔

    زکام
    ایک مرتبہ ایک بڑے آدمی کو زکام ہوا۔ سات دن تک سات اعلیٰ ڈاکٹر اس کا علاج کرتے رہے۔ احتیاط، پرہیزاور علاج پر سات سو روپے خرچ ہوگئے۔ جب اسے زکام سے افاقہ ہوا تو اس نے اپنی صحت یابی کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت دی۔ شہر کے بہت سے معززین دعوت میں شریک ہوئے۔ دعوت، آرکسٹرا اور فقیروں کو خیرات پر ایک ہزار روپیہ اٹھ گیا۔

    قسمت کا دھنی
    ایک دن بڑے آدمی نے ایک جیوتشی کو بلاکر پوچھا، ’’کیا تم بتاسکتے ہو کہ کل ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘ جیوتشی نے ستاروں کا حساب لگاکر بتایا، ’’ہاں جناب! کل آپ کو دس ہزار روپے اچانک مل جائیں گے۔‘‘

    اور دوسرے دن بڑے آدمی کا کتا مرگیا، جو دس ہزار روپے میں بیمہ شدہ تھا۔

    پتلی کا تماشہ
    چھوٹے آدمی سے کسی نے کہا، ’’ٹھیرو۔۔۔!‘‘ وہ ٹھیر گیا۔ اس کے بعد چھوٹے آدمی سے کہا گیا، ’’چلو۔۔۔!‘‘ وہ چلنے لگا، پھر کہا گیا، ’’لوٹ آؤ۔۔۔!‘‘ وہ واپس آگیا۔

    اس سے پوچھا گیا، ’’تم نے میرے حکم کی تعمیل کیوں کی؟‘‘

    چھوٹے آدمی نےکہا، ’’اگر میں یہ جانتا ہوتا کہ میں نے آپ کے ہر حکم کی تعمیل کیوں کی، تو آپ کے حکم کی تعمیل ہی کیوں کرتا؟‘‘

    گالیوں کا نرخ
    چھوٹاآدمی ہانپتا کانپتا ایک سیٹھ صاحب کے پاس آیا اور گھبراتے ہوئے بولا، ’’آپ نے مجھے پانچ روپے دیے تھے تاکہ میں جاکر گپتے کو ایک گالی دے آؤں؟‘‘

    ’’ہاں دیے تھے!‘‘

    ’’تو میں اسے گالی دے آیا ہوں اور اس نے جواب میں مجھے دو گالیاں دی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں! میں نے اسے دس روپے دیے تھے، تمہیں گالی دینے کے لیے۔‘‘

    اپدیش کا اثر
    جلسے میں ایک بہت بڑا ودوان برہمن اپدیش دے رہا تھا، ’’وہ آدمی بہت بڑا ہے جو صدق دل سے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیتا ہے۔‘‘

    چھوٹے آدمی نےیہ اپدیش سنا اور قریبی تھانے میں جاکر اپنے تمام سابقہ گناہوں کی رپورٹ دے دی اور تھانہ دار نے اسے پکڑ کر جیل میں ٹھونس دیا۔
      
    کیوں؟

    چھوٹے آدمی کو سرکار کی طرف سے ’’عظیم فنکار‘‘ کا خطاب دے دیا گیا۔

    چھوٹے آدمی کو امیروں کے کلب کا اعزازی ممبر بنادیا گیا۔

    چھوٹے آدمی کی تعریف میں بڑے بڑے اخباروں نے مضامین شائع کیے۔

    چھوٹے آدمی کا شہرہ سارے ملک میں ہوگیا۔

    کیوں۔۔۔؟
     
    کیونکہ وہ اب چھوٹے آدمیوں سے نفرت کرنے لگا تھا۔
      
    چور
    ایک چھوٹے آدمی نے دوسرے چھوٹے آدمی کی قمیص چرالی۔ دوسرے نے پہلے کی پگڑی چرالی۔ پہلے نے دوسرے کا جوتا چرالیا۔ دوسرے نے پہلے کی دھوتی چرالی۔ پہلے نے دوسرے کا تہبند چرالیا۔ دوسرے نے پہلے کی۔۔۔

    ہفتہ بھر بعد دونوں ایک دوسرے کا لباس پہنے پھر رہے تھے۔

    دعا قبول
    ملک میں زبردست قحط پڑگیا تو چھوٹے آدمی نے صدق دل سے دعا مانگی، ’’بھگوان! بارش بھیج دے تاکہ ہم موت سے بچ جائیں!‘‘

    بھگوان نے دعا قبول کی اور موسلادھار بارش بھیج دی۔اور بارش میں چھوٹے آدمی کا مکان گر گیا اور چھوٹا آدمی اس کے نیچے دب کر مرگیا۔

    کچھ ملا
    رات کو چھوٹے آدمی کے گھر ایک چور گھس آیا۔ چھوٹےآدمی کی آنکھ کھل گئی اور اس نے چور سے کہا، ’’کیوں بھیا کچھ ملا؟‘‘ چور نے کہا، ’’کچھ بھی نہیں ملامگر ہاں ایک سبق ضرور ملا۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’یہی کہ تم مال و دولت سے محروم ہو اور میں عقل سے!‘‘

    ایک ماتمی خط
    ایک تجارتی فرم کے مالک کو صبح ڈاک سے ایک خط ملا۔

    میسرز ڈنگامل گونگامل جی! میں نہایت افسوس کے ساتھ آپ کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ آپ کے پرانے اور گہرے دوست مسٹر سرجیت کل رات انتقال کرگئے۔ ان پر اچانک نمونیہ کا حملہ ہوا اور وہ باوجود فوری طبی امداد کے جانبر نہ ہوسکے۔

    آپ کا
    شام ناتھ برادر حقیقی سرجیت

    فرم کے مالک نے خط پڑھ کر میز کے نیچے پھینک دیا اور اپنے خزانچی کو آواز دے کر کہا، ’’منیم جی! ذرا دیکھنا مسٹر سرجیت کے نام ہمارے کتنے روپے نکلتے ہیں۔‘‘

    رزق دینے والا
    ایک طوائف خدا کی بہت زیادہ قائل تھی۔ برابر اس کی عبادت کیا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے پوچھا، ’’اری تو طوائف ہوکر خدا کی عبادت کرتی ہے۔ تجھے کیا پڑی ہے خدا کی؟‘‘

    وہ بولی، ’’سائیں بابا! میں نے جس وقت بھی خدا سے دعا مانگی ہے، اسی وقت اس نے کوئی نہ کوئی گاہک بھیج دیا۔۔۔ اس لیے رزق دینے والے کی عبادت کرنی ہی چاہیے۔‘‘

     

    مأخذ:

    فکر نامہ (Pg. 184)

    • مصنف: فکر تونسوی
      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے