حارث بلال کے اشعار
کامیابی کی دعائیں مجھے دینے والے
میں ترے عشق میں ناکام ہوا جاتا ہوں
وہ اندھیرا ہے کہ بجھتی ہوئی آنکھیں مجھ سے
پوچھتی ہیں کہ وہ آئے گا سویرا ہوگا
ساری حسوں کی ڈور سماعت کو سونپ کر
اس دل پہ کان رکھ کہ خدا بولتا بھی ہے
یعنی دروازہ بھی اک اسم ہے جس کو پڑھ کر
لوگ دیوار کے اندر سے گزارے جائیں
یہ روایت ہے کتابوں میں اتارے جائیں
وہ جو خوشبو کے سفر میں کہیں مارے جائیں
فلک پہ بھیڑ لگی تھی شکستہ آہوں کی
دعا سے پہلے مجھے راستہ بنانا پڑا
ملی ہیں سوکھتے دریا کو بحر کی لہریں
ترے گلاس میں پانی پیا ہے شہزادی
پہلے کی بات اور ہے جب دل میں تھے مقیم
اب تم رگوں میں دوڑتے ہو خون کی طرح
پھر اس کے بعد سے مڑ کر بھی دیکھتا ہوں میں
کسی کرن سے ملایا تھا آئنے نے مجھے
میں چاہ کر بھی اسے کچھ نہ دے سکا حارثؔ
وہ بھاؤ پوچھ کے میری دکاں سے لوٹ گیا
تمہاری یاد کی شدت میں بہنے والا اشک
زمیں میں بو دیا جائے تو آنکھ اگ آئے
وہ مجھ کو دیکھنے میرے قریب آیا ہے
یہ دھند سارے مہینوں میں کیوں نہیں پڑتی
اندھیری شب کا سفر تھا ہوا تھی صحرا تھا
دیے کو میں نے بچایا تھا اور دیے نے مجھے
اچھا تری نظر میں بہت مختلف ہوں میں
یعنی تری نظر میں کوئی دوسرا بھی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ درمیان سے نکلا تو یہ کھلا مجھ پر
کہ ہو گئے ہیں مسلط کئی خدا مجھ پر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ