بانو سرتاج کی بچوں کی کہانیاں
دو باپ دو بیٹے
حسن اور روہن کی دوستی گاؤں بھر میں مشہور تھی۔ بچپن کے دوست تھے، جوانی میں بھی دوستی قائم تھی۔ دونوں کے مزاج میں اتنی ہم آہنگی تھی کہ ایک چیز ایک کو پسند آتی تو دوسرا بھی اسے پسند کرنے لگتا۔ کسی بات سے ایک ناراض ہوتا تو دوسرا بھی اس طرف سے رخ پھیر
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے!
راجستھان کے مہاراج پور میں ایک تاجر تھا رامنا وہ اونٹوں پر سامان لاد کر دوسرے شہروں میں لے جاتا، وہاں فروخت کرتا۔ اچھا خاصا منافع حاصل ہوتا۔ رامنا کئی برسوں سے تجارت کر رہا تھا۔ سفر اکثر ہی رات کو کیا جاتا۔ اونٹ سدھے ہوئے تھے۔ تمام رات چل کر وہ دوسرے
بڑا کون
وہ بڑی تیزی سے سپاٹ چکنی سڑک پر چلی جا رہی تھی۔ چل کیا رہی تھی۔ سمجھو اڑ رہی تھی۔ نئی نویلی۔ زرد سبز اور سفید رنگوں سے سجی۔ وہ ایک بس تھی۔ صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بس میں سوار مسافر نرم گدے والی سیٹوں پر نیم دراز میٹھی نیند کا مزا لے رہے
بن کانٹوں کا گلاب
وہ ایک چھوٹا سا، پیارا سا بچہ تھا۔ ایک دن وہ اسکول جانے کے لئے نکلا۔ ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔ جب وہ اس جگہ سے گزرا جہاں کیاریوں میں بیسیوں قسم کے گلاب کھلے ہوئے تھے تو گلاب کی خوشبو نے اس کے قدم روک لئے۔ اس کے دل میں گلابوں کے قریب جانے کی زبردست
ممی نا بولی
فاروق میاں گھر کی آنکھوں کا تارا تھے ددھیال، ننھیال دونوں کی پہلی اولاد۔ جتنا چاؤ ہوتا کم تھا۔ خیر سے تین سال کے تھے مگر خوب باتیں کرنے لگے تھے۔ لاڈ میں آتے تو تتلانے لگتے۔ ان کی ہر ہر ادا پر سب قربان جاتے۔ ان کی اکلوتی پھوپھی جان کہا کرتیں۔ ’’ہمارے
کمسن شہید ۔ نانی گوپال
کالا پانی انڈمان میں ایک جزیرہ تھا جو خوفناک ماحول، زہریلی ہواؤں اور ان سے ہونے والے امراض کی وجہ سے کالا پانی کہلاتا تھا۔ وہاں جنگ آزادی کے وہ مجاہدین بھیجے جاتے تھے جو آزادی حاصل کرنے کی کوششوں کے دوران زندہ گرفتار کر لیے جاتے تھے۔ بعد میں خطرناک
لو میں آیا
چین کے ہانگی چو شہر میں ایک مشہور ڈاکو رہتا تھا۔ اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا مگر سب اسے ’لومیں آیا‘ کے نام سے جانتے تھے۔ وہ جہاں بھی ڈاکہ ڈالتا چوری کرتا وہاں کسی دیوار پر’’لو میں آیا‘‘ ضرور لکھ دیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی سرگرمیاں اتنی بڑھی گئیں
بلیک بورڈ کی کہانی
اسکاٹ لینڈ میں ایک استاد تھے۔ ان کا نام جیمس ولین (James Vilen) تھا۔ وہ جغرافیہ پڑھاتے تھے۔ انہیں جغرافیہ پڑھانے یعنی بچوں کو سمجھانے میں اکثر مشکل پیش آتی۔ بچے اس موضوع میں دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ وہ کسی ایسے ذریعہ کی تلاش میں تھے جس سے پہاڑ، ندیاں،
سڑک اور پگڈنڈی
ایک گاؤں تھا۔ گاؤں کے قریب سے ایک سڑک گزرتی تھی جو گاؤں کو شہر سے جوڑتی تھی۔ سڑک پکی، ڈامر کی تھی۔ باقاعدہ پلان کر کے ماہر انجینئروں نے بنائی تھی۔ چھوٹی موٹریں، بیل گاڑیاں، تانگے، سائیکلیں سب اس پر سے گزرتی تھیں۔ سڑک کو اپنے کارآمد ہونے پر بہت غرور