Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فریحہ نقوی کے اشعار

2K
Favorite

باعتبار

ہم تحفے میں گھڑیاں تو دے دیتے ہیں

اک دوجے کو وقت نہیں دے پاتے ہیں

تمہارے رنگ پھیکے پڑ گئے ناں؟

مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے

دے رہے ہیں لوگ میرے دل پہ دستک بار بار

دل مگر یہ کہہ رہا ہے صرف تو اور صرف تو

تمہیں پتا ہے مرے ہاتھ کی لکیروں میں

تمہارے نام کے سارے حروف بنتے ہیں

زمانے اب ترے مد مقابل

کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے

تمہیں پانے کی حیثیت نہیں ہے

مگر کھونے کی بھی ہمت نہیں ہے

رات سے ایک سوچ میں گم ہوں

کس بہانے تجھے کہوں آ جا

تم مری وحشتوں کے ساتھی تھے

کوئی آسان تھا تمہیں کھونا؟

اس کی جانب سے بڑھا ایک قدم

میرے سو سال بڑھا دیتا ہے

ہتھیلی سے ٹھنڈا دھواں اٹھ رہا ہے

یہی خواب ہر مرتبہ دیکھتی ہوں

مرے ہجر کے فیصلے سے ڈرو تم

میں خود میں عجب حوصلہ دیکھتی ہوں

لڑکھڑانا نہیں مجھے پھر بھی

تم مرا ہاتھ تھام کر رکھنا

عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو

دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے

ہم آج قوس قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں

مجھے تو پہلے سے لگ رہا تھا یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے

بھلی کیوں لگے ہم کو خوشیوں کی دستک

ابھی ہم محبت کا غم کر رہے ہیں

وہ خدا ہے تو بھلا اس سے شکایت کیسی؟

مقتدر ہے وہ ستم مجھ پہ جو ڈھانا چاہے

کھل کر آخر جہل کا اعلان ہونا چاہئے

حق پرستوں کے لئے زندان ہونا چاہئے

اے مجھے پھول بھیجنے والے

تو مری عادتیں بگاڑے گا

وہ ترے شہر میں آتے ہی دھڑکنا دل کا

ہر گلی یار مرے تیری گلی ہو جیسے

بھلا میں زخم کھول کر دکھاؤں کیوں

اداس ہوں تو ہوں تمہیں بتاؤں کیوں

کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے بولو!!!

یہ تو اس کی دین ہے جس کو چاہے وہ مہکائے

سوئی ہوئی تڑپ کو پھر سے جگا رہا ہے

کہتا تو کچھ نہیں ہے بس یاد آ رہا ہے

سن مرے خواب میں آنے والے

تجھ سے جلتے ہیں زمانے والے

دیکھ میں یاد کر رہی ہوں تجھے

پھر میں یہ بھی نہ کر سکوں آ جا

آپ جیسوں کو رعایا جھیلتی ہے کس طرح

آپ کو تو سوچ کر حیران ہونا چاہیے

اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ

جس نے دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے

آنکھ اور بادل دونوں ٹوٹ کے روتے ہیں

جانے ان کا آپس میں کیا رشتہ ہے

مرا دل جل رہا ہے روشنی سے

زمانہ فیض پاتا جا رہا ہے

شام ہوئی تو گھر کی ہر اک شے پر آ کر جھپٹے

آنگن کی دہلیز پہ بیٹھے ویرانی کے سائے

ہم اداسی کے اس دبستاں کا

آخری مستند حوالہ ہیں

مرے اشکوں کی لے کر روشنائی

زمانہ شعر لکھتا جا رہا تھا

دل میں سوئے سارے درد جگاتا ہے

بن موسم کی بارش ایسا نوحہ ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے