Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

مرزا محمد تقی ہوسؔ

1766 - 1855 | لکھنؤ, انڈیا

اودھ کے نواب ،آصف الدولہ کے ماموں زاد بھائی،کئی شاعروں کے سرپرست

اودھ کے نواب ،آصف الدولہ کے ماموں زاد بھائی،کئی شاعروں کے سرپرست

مرزا محمد تقی ہوسؔ کے اشعار

1.1K
Favorite

باعتبار

لطف شب مہ اے دل اس دم مجھے حاصل ہو

اک چاند بغل میں ہو اک چاند مقابل ہو

یا خفا ہوتے تھے ہم تو منتیں کرتے تھے آپ

یا خفا ہیں ہم سے وہ اور ہم منا سکتے نہیں

تیز رکھیو سر ہر خار کو اے دشت جنوں

شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد

دل میں اک اضطراب باقی ہے

یہ نشان شباب باقی ہے

نہ کافر سے خلوت نہ زاہد سے الفت

ہم اک بزم میں تھے یہ سب سے جدا تھے

نہ پایا وقت اے زاہد کوئی میں نے عبادت کا

شب ہجراں ہوئی آخر تو صبح انتظار آئی

سب ہم صفیر چھوڑ کے تنہا چلے گئے

کنج قفس میں مجھ کو گرفتار دیکھ کر

زاہد کا دل نہ خاطر مے خوار توڑیئے

سو بار تو یہ کیجیے سو بار توڑیئے

ماتھے پہ لگا صندل وہ ہار پہن نکلے

ہم کھینچ وہیں قشقہ زنار پہن نکلے

اے آفتاب ہادیٔ کوئے نگار ہو

آئے بھلا کبھی تو ہمارے بھی کام دن

آشنا کوئی نظر آتا نہیں یاں اے ہوسؔ

کس کو میں اپنا انیس کنج تنہائی کروں

رنگ‌ گل شگفتہ ہوں آب رخ چمن ہوں میں

شمع حرم چراغ دیر قشقۂ برہمن ہوں میں

صد چاک کیا پیرہن گل کو صبا نے

جب وہ نہ تری خوبیٔ پوشاک کو پہنچا

سنتا ہوں نہ کانوں سے نہ کچھ منہ سے ہوں بکتا

خالی ہے جگہ محفل تصویر میں میری

ہماری دیکھیو غفلت نہ سمجھے وائے نادانی

ہمیں دو دن کے بہلانے کو عمر بے مدار آئی

تلاش اس طرح بزم عیش میں ہے بے نشانوں کی

کوئی کپڑے میں جیسے زخم سوزن کا نشاں ڈھونڈھے

دیکھیں کیا اب کے اسیری ہمیں دکھلاتی ہے

لوگ کہتے ہیں کہ پھر فصل بہار آتی ہے

صحرا میں ہوسؔ خار مغیلاں کی مدد سے

بارے مرا خوں ہر خس و خاشاک کو پہنچا

ہوس ہم پار ہویں کیونکہ دریائے محبت سے

قضا نے بادبان کشتئ تدبیر کو توڑا

ہرگز نہ مرے محرم ہمراز ہوئے تم

آئینے میں اپنے ہی نظر باز ہوئے تم

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے