محمد افتخار شفیع کے اشعار
سنا ہے ایسے بھی ہوتے ہیں لوگ دنیا میں
کہ جن سے ملیے تو تنہائی ختم ہوتی ہے
ہجرت کی گھڑی ہم نے ترے خط کے علاوہ
بوسیدہ کتابوں کو بھی سامان میں رکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تھا کوئی وہاں جو ہے یہاں بھی ہے وہاں بھی
جو ہوں میں یہاں ہوں میں وہاں کوئی نہیں تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بجھتے ہوئے دیے کو بچا تو لیا مگر
دیکھی گئی نہ ہم سے ہوا کی شکست بھی
ہجرت کی گھڑی ہم نے ترے خط کے علاوہ
بوسیدہ کتابوں کو بھی سامان میں رکھا
اپنی باتوں کا جائزہ بھی لے
میرا لہجہ ہے کیوں کرخت نہ پوچھ
آؤ نکلیں شام کی ٹھنڈی سڑک پر افتخارؔ
زندگی سے کچھ تو اپنا رابطہ رہ جائے گا
ذرا سی دیر کو مدھم ہوئی چراغ کی لو
پھر اس کے بعد کا منظر مجھے نہیں معلوم
روز کہتا ہوں کہ دیوار کو اونچا کر لیں
میرا ہمسایہ مری بات سمجھتا ہی نہیں
کچھ پیڑ بہت دیر سے خاموش کھڑے ہیں
بستی میں مسافر نہ مکاں کچھ بھی نہیں ہے
اک یاد شب رفتہ کے مرقد پہ چڑھی یاد
ورنہ یہ چراغوں کا دھواں کچھ بھی نہیں ہے
اسی زندگی میں پلٹ کے آنا ہے ایک دن
سو میں کوئی سانس ادھر ادھر نہیں کر رہا
مجھے پکار کے دیکھو انہی اندھیروں سے
میں اپنے عہد کا روشن خیال آدمی ہوں
نہ جانے کون سی رت کی سفیر تھی وہ ہوا
درخت رو دئے جس کو سلام کرتے ہوئے
کمال اے دم وحشت کمال ہو گیا ہے
ہمارا خود سے تعلق بحال ہو گیا ہے
بانسری بج رہی تھی دور کہیں
رات کس درجہ یاد آئے تم
قصہ گو تو نے فراموش کیا ہے ورنہ
اس کہانی میں ترے ساتھ کہیں تھے ہم بھی
مجھ کو یہ علم تھا کہ وہ منظر نہیں رہے
میں پھر بھی ساہیوال بڑی دیر تک رہا
بارش کی ایک بوند کا گرنا تھا اور پھر
موسم میں اعتدال بڑی دیر تک رہا
میں نکل آتا ہوں بازار کے سناٹے میں
گھر میں تو خوف کا احساس نہیں رہتا ہے
حصار ریگ میں برسوں جلا تھا میرا وجود
سو ایک دشت مرا ہم خیال ہو گیا ہے