Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Wali Mohammad Wali's Photo'

ولی محمد ولی

1667 - 1707 | گجرات, انڈیا

رجحان ساز کلاسیکی شاعر۔ دہلی میں اردو شاعری کے فروغ کا بنیادی محرک

رجحان ساز کلاسیکی شاعر۔ دہلی میں اردو شاعری کے فروغ کا بنیادی محرک

ولی محمد ولی کے اشعار

3.8K
Favorite

باعتبار

جسے عشق کا تیر کاری لگے

اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت

جا تماشا دیکھ اس رخسار کا

یاد کرنا ہر گھڑی تجھ یار کا

ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا

مفلسی سب بہار کھوتی ہے

مرد کا اعتبار کھوتی ہے

دل عشاق کیوں نہ ہو روشن

جب خیال صنم چراغ ہوا

پی کے بیراگ کی اداسی سوں

دل پہ میرے سدا اداسی ہے

گل ہوئے غرق آب شبنم میں

دیکھ اس صاحب حیا کی ادا

خوب رو خوب کام کرتے ہیں

یک نگہ میں غلام کرتے ہیں

پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا

شاید کہ مرا حال اسے یاد نہ آیا

کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ

کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا

ہے مطالعہ مطلع انوار کا

آج تیری بھواں نے مسجد میں

ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا

تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا

جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا

شغل بہتر ہے عشق بازی کا

کیا حقیقی و کیا مجازی کا

راہ مضمون تازہ بند نہیں

تا قیامت کھلا ہے باب سخن

تیرے لب کے حقوق ہیں مجھ پر

کیوں بھلا دوں میں دل سے حق نمک

اے نور جان و دیدہ ترے انتظار میں

مدت ہوئی پلک سوں پلک آشنا نئیں

ہر ذرہ اس کی چشم میں لبریز نور ہے

دیکھا ہے جس نے حسن تجلی بہار کا

کشن کی گوپیاں کی نئیں ہے یہ نسل

رہیں سب گوپیاں وہ نقل یہ اصل

آرزوئے چشمۂ کوثر نئیں

تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا

جامہ زیبوں کو کیوں تجوں کہ مجھے

گھیر رکھتا ہے دور دامن کا

رشک سوں تجھ لباں کی سرخی پر

جگر لالہ داغ داغ ہوا

آج تجھ یاد نے اے دلبر شیریں حرکات

آہ کو دل کے اپر تیشۂ فرہاد کیا

نہ ہو کیوں شور دل کی بانسلی میں

ملاحت کا سلونا کان پہنچا

چھپا ہوں میں صدائے بانسلی میں

کہ تا جانوں پری رو کی گلی میں

مرے دل کی تجلی کیوں رہے پوشیدہ مجلس میں

ضعیفی سوں ہوا ہے پردۂ فانوس تن میرا

تشریح

ولیؔ کے لیے اگرچہ اس شعر کا مضمون نیا نہ تھا مگر ’’پردۂ فانوس‘‘ کی ترکیب نئی ضرور تھی۔ اگرچہ یہ ترکیب ہمیں سراجؔ اورنگ آبادی کے یہاں بھی نظر آتی ہےمگر چونکہ سراجؔ کا زمانہ ولیؔ سے ذرا آگے کا ہے اس لیے اس بات کا زیاہ امکان ہے کہ ولیؔ کو اس قدر استعاراتی اور محاکاتی تخیل سے پیچیدہ پیکر تخلیق کرنے والی ترکیب کو برتنے میں اولیت حاصل ہے۔ مضمون کی مناسبت سے سراجؔ کے یہ دو شعر اگرچہ ولیؔ کے شعر سے قدرے مماثلت رکھتے ہیں تاہم ولیؔ کے یہاں جو خیال کی تجریدی شکل بن گئی ہے وہ سراجؔ کے اشعار میں تجسیم سے آگے نہ بڑھ سکی ہے۔ سراجؔ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں: ؎

شمعِ جنوں دل میں جلایا سراجؔ

کام نہیں پردۂ فانوس کا

سراجؔ اس شعلہ رو کی تنگ پوشی کوں کہاں پہنچے

کہ ہے جامہ بدن میں شمع کے فانوس کا ڈھیلا

پہلے شعر میں مضمون اکہرا تو ہے ہی دوسرے شعر میں جنسی تلازمے نے تجسیم کی صورت اختیار تو کی ہے البتہ تجرید ی شکل صورت پذیر نہ ہوسکی ہے۔ ولیؔ کے شعر میں دل کی تجّلی، پوشیدہ، مجلس، ضعیفی، پردۂ فانوس اور تن کی مانسبتوں سےجو غیر مرئی محاکاتی فضا تیار ہوئی ہے اس میں کسی بھی طرح اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ گویا ایک پیچیدہ شعری تجربہ پردۂ فانوس کی ترکیب سے ادراکی بن گیا۔ مضمون کی مناسبت سے صائبؔ اور حزیںؔ کے اشعار کا حوالہ اس لیے ضروری ہے کہ جن رعایتوں سے انہوں نے مناسبتیں پیدا کرکے پردۂ فانوس کی ترکیب کے لیے تلازمے خلاقانہ شان کے ساتھ برتے ہیںان کو نظر میں رکھ کر ولیؔ کے یہاں نہ مضمون اور نہ تشکیلی سطح پر تہی دامنی کا احساس ہوتا ہے: ؎

غافل ز بیقراریٔ عشاق نیست حسن

فانوس پردہ داریٔ پروانہ می کنند

(صائب)

در سینہ حزیں، آہ من سوختہ پیداست

چوں شمع کہ درپردۂ فانوس نہاں نیست

( شیخ علی حزیں)

ولیؔ کی بات چھوڑیئے، سبکِ ہندی کو بے اعتنائی کی نظر سے دیکھنے والے اہل فارس غالبؔ کے اس شعر کے آگےہیچ دکھائی دیتے ہیں: ؎

نیم رنگی ہائے شمع محفل خوباں سے ہے

پیچکِ مہ ، صرفِ چاکِ پردۂ فانوس و بس

زیرِ بحث شعر میں ’’ضعیفی‘‘ وہ تلازمہ ہے جس پر پورے مضمون کی بنیاد رکھی کئی ہے اور اسی کی مناسبت سے ولیؔ نے پردۂ فانوس جیسی ترکیب استعمال کرنے کا جواز پیدا کیا ہے۔ ضعیفی/ضعف یا لاغری کے تلازمات سے قدما نے مضمون آفرینی کے جوہر دکھائے ہیں۔ ولیؔ نے ضعیفی کے تلازمے سے جو مبالغہ قائم کیا ہے وہ اگرچہ فارسی شعرا میں عام تھا مگر ولیؔ نے اپنے تخیل کی قدرت سے معنی کی کیفیت میں جان ڈال دی ہے۔ ذوقؔ کے یہاں لاغری کے تلازمے سے عمدہ مضمون پیدا ہوا ہے: ؎

ہوائے کوئے جاناں لے اڑے اس کو تعجب کیا

تنِ لاغر میں ہے جاں اس طرح جس طرح بُو خس میں

مصحفیؔ کے اس شعرمیں کمال کا مبالغہ ہے: ؎

کانٹا ہوا ہوں سوکھ کے یاں تک کہ اب سنار

کانٹے میں تولتے ہیں مرے استخواں کا بوجھ

اب ناسخؔ کی طباعی لاحظہ فرمائیں:؎

لاغر ایسا ہوں کہ میرے لیے

ہے ہر اک خار، سایہ دار درخت

ان تینوں اشعار میں کوئی شاعر مبالغے سے آگے نہیں بڑھا ہے۔ کسی تلازمے سے مبالغہ پیدا کرنا اگرچہ اپنی جگہ پر کمال ہے مگر غلو پیدا کرنے کے لیے جس تجریدی تخیل کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب کے حصّے میں نہیں آتا۔ غالب کو یہ امیتاز حاصل ہے۔ غضب کا شعر ہے: ؎

لاغر اتنا ہوں کہ گر تُو بزم میں جا دے مجھے

میرا ذمہ دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے

غالبؔ مبالغہ، تبلیغ اور اغراق کی حدیں پار کرکے سیدھا مبالغے تک پہنچ گئے۔ یعنی کس خوبصورتی سے کہا ہے کہ میں اس قدر لاغر ہوا ہوں کہ میرا وجود ہی ختم ہوگیا ہے اور اگر تم مجھے بزم میں آنے کی اجازت دوگے تو تمہیں دوسروں کے سامنے میری موجودگی کے تعلق سے کوئی خفت نہیں اٹھانا پڑے گی ۔

کیونکہ ضعیفی کی مناسبت سے ولیؔ نے پردۂ فانوس کی ترکیب استعمال کرکے مضمون پیدا کیا ہے لہٰذا س کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ پردۂ فانوس سے مراد ، فانوس میں شمع کے گرد بنایا گیا محفظہ ہے جو شمع کو ہوا کے جھونکوں سے محفوظ رکھتا ہے اور عام طور پر شیشے کا بنا ہوتا ہےلیکن کئی بار لکڑی اور دوسری اجناس سے بھی بنایا جاتا ہے۔ اس سے شمع کی لو کی طرف کشش کی وجہ سے اڑنے والے پروانوں کو بھی روکا جاتا ہے۔

پہلے مصرعے میںدعویٰ ہے جبکہ دوسرے میں دلیل۔ شعر کے پہلے مصرعے میں دعویٰ پیش کرکے دوسرے مصرعے میں اس کی دلیل دینے کی روایت فارسی کے شعرا میں ابتدا سے ہی ہے۔ مثال کے طور پر حافظؔ کا یہ شعر لیجیے: ؎

مرا دل منزلِ جاناں چہ امن و عیش چوں ہر دم

جرس فریاد میں دارد کہ بر بندید محملہا

فارسی اور اردو شعرا نے خاص کر اس طریقے سے قصیدوں میں عمدہ مضامین پیدا کیے ہیں۔ زیرِ بحث شعر میںمتکلم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرے دل کی روشنی/نور یا جلوہ کیوں مجلس میں ڈھکا ہوا رہے۔ اس دعویٰ کی دلیل دوسرے مصرعے میں پیش کی ہے کہ ضعیفی سے میرا جسم فانوس کا پردہ ہوا ہے۔ شعر کی ترکیب کے اعتبار سے دعویٰ کو نہیں بلکہ دلیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔متکلم کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کا تن ضعیفی کی وجہ سے فانوس کا پردہ بن چکا ہے۔ یعنی ضعیفی سے اس کا تن اس قدر پتلا ہوگیا ہے کہ دل کا نور پوشیدہ نہیں رہ سکتا بلکہ تن سے چھن کر باہر آئے گا۔

شعر میں کیوں کا لفظ بہت اہم ہے۔ اگر کیوں کو محض کلمۂ استہفام کے طور پر لیتے ہیں تو شعر میں وہ چونکا دینے والی بات پیدا نہیں ہوگی جس کا التزام ولیؔ نے رکھاہے۔ دراصل یہاں کیوں استہفامِ انکاری کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے غالبؔ کے اس شعر میں ہوا ہے: ؎

کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

یا اس شعر میں : ؎

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

الغرض شعر کے مفہوم کی صورت یہ بنتی ہے کہ (جبکہ ) ضعیفی سے میرا جسم پردۂ فانوس بن گیا ہے کہ جس کے پار شمع کی روشنی جاتی ہے اس لیے میرے دل کی تجلی مجلس سے ہرگز پوشیدہ نہیں رہے گی۔ جسم کی جلد کےباریک ہونے کو پردۂ فانوس سے تشبیہ دینا ولیؔ کی طباعی کا کمال ہے۔ شعر کے بیانیہ میں عارفانہ تجربے کی تجسیم کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

شفق سوپوری

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے