مصنف: تعارف

نام مولوی محمد محسن، تخلص محسن۔ ۱۸۳۷ء میں قصبہ کاکوری مضافات لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ اپنے دادا کے دامن تربیت میں پرورش پائی۔ ان کے انتقال کے بعد اپنے والد اور مولوی عبدالرحیم سے تحصیل علم حاصل کی۔مولوی ہادی علی اشک جنھیں شاعری پر عبور حاصل تھا ، انہی سے محسن کاکوروی نے مشق سخن کی۔ محسن کاکوروی نے چند روز عہدہ نظامت پر کام کیا اور وہیں سے وکالت ہائی کورٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس زمانے میں صدر دیوانی عدالت آگرہ میں تھی۔ ۱۸۵۷ء تک آگرہ میں رہے۔ بعد ازاں مین پوری میں وکالت کرتے رہے۔شعروسخن کا شوق انھیں لڑکپن سے تھا۔ ابتدا میں کچھ غزلیں کہیں۔ اس کے بعد محض نعت میں طبع آزمائی کرتے رہے۔محسن کاکوروی کا کلیات ان کے بڑے صاحبزادے مولوی نورالحسن نے شائع کردی ہے۔ سب سے پہلے اس میں ایک نعتیہ قصیدہ’’گلدستہ کلام رحمت‘‘ ہے۔ اس کے بعد ’سراپا رسول اکرم ‘ ہے۔ ان کا وہ مشہور نعتیہ قصیدہ (سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل)بھی کلیات میں ہے جس نے تمام اہل علم ودانش سے خراج تحسین وصول کیا ہے۔کلیات میں ان کی مشہور مثنوی ’’چراغ کعبہ‘‘ شب معراج کے ذکر میں ہے۔ کچھ رباعیاں اور غزلیں بھی ہیں۔ محسن کاکوروی ۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو مین پوری میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔


بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:210

 

.....مزید پڑھئے

مرزا رفیع نام پیدائش مابین1118ھ و1120ھ مطابق1706ء و1708ء بزرگوں کا پیشہ سپہ گری تھا ۔ باپ سبیل تجارت ہندوستان وارد ہوئے تھے سوداؔ پہلے سلیمان علی خاں و داؤدبعد کو شاہ حاتمؔ کے شاگرد ہوئے خان آرزو کی صحبت سے بھی فائدے حاصل کئے ۔ خصوصاً اردو میں شعر گوئی انہیں کے مشورے سے شروع کی ۔ محمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں ان کی شاعری عروج پر تھی کئی روسا کے ہاں ان کی قدر ہوتی تھی ۔ خصوصاً بسنت خاں خواجہ سرا و مہربان خان زیادہ مہربان تھے ۔ جب احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے حملوں سے دہلی تباہ و برباد ہوگئی تو سوداؔ نے باہر کا رخ کیا ۔1134ھ مطابق1721ء میں عمادالملک کے پاس متھرا گئے ۔پھر اسی سال فرخ آباد میں نواب مہربان خاں امید کے یہاں تقریبا22برس رہے ۔ وہاں سے 1182ھ ،1770میں نواب کے انتقال پر شجاع الدولہ کے زمانے میں فیض آباد پہونچے پانچ سال بعد جب آصف الدولہ تخت نشیں ہوئے اور اپنا پایۂ تخت لکھنؤ میں منتقل کیا تو یہ بھی ان کے ہمراہ لکھنؤ آگئے یہاں ان کی زندگی با فراغت بسر ہوئی چھ ہزار (6000)روپے سالانہ مقرر تھے ۔ تقریبا 76برس کی عمر میں 4رجب (جمادی الثانی) 1195ھ1781میں انتقال ہوا ۔ مصحفی فخرالدین اور قمرالدین منتؔ نے تاریخیں کہیں۔ ان کی کلیات میں 43قصیدے رؤسا اور آئمہ اہل بیت وغیر ہ کی مدح میں ہیں ان کے علاوہ ہجویں ،مراثی ، مثنویاں، رباعیاں، مستزاد، قطعات، تاریخیں پہیلیاں ، و اسوحت وغیرہ سب چیزیں موجود ہیں ،نثر میں ایک تذکرہ اردو شعرا، کا لکھا تھا جواب نا پید ہے ۔ فارسی نثر میں ایک رسالہ عبرت الغافلین فاخر یکسن کی کارستانیوں کے جواب میں لکھا یہ چیزیں اس زمانے کے معیار تنقید شعر دکھانے کے لیے اہم چیز ہے ایک اور رسالہ سبیل ہدایت تقی کے مرثیے پر لکھا فارسی کا بھی ایک چھوٹا دیوان موجود ہے ۔ ’’سودا کا غزل گوئی میں کوئی خاص رنگ نہیں ہے وہ اس میدان میں طر ح طرح سے طبع آزمائی کرتا ہے غزل کی جان صفائی زبان اور سادگی بیان ہے ۔ سوداؔ نے غزل میں اس کا بہت کم خیال رکھا ہے اس نے غزل میں فارسی کے مشہور اساتذہ نظیریؔ صائب اور سلیم و کلیم کار نگ اختیار کیا ۔ یہ شعراء صاحب طرز ہوئے ہیں ان کی خصوصیات اردو میں آسانی اور سہولت سے نہیں نبھ سکتی تھیں ۔اور خصوصاً ایسے زمانے میں جب کہ اردو ابتدائی اور سیال حالت میں تھی اور اس کی تشکیل ہورہی تھی ۔ اس لیے سوداؔ نے غزلوں میں قصیدوں کی زبان استعمال کیہے جس میں عربی فارسی ترکیبوں کی بہتات ہے اور قصیدے کی طرح غزلوں میں بھی سنگلاخ زمینیں اختیار کی ہیں یہی وجہ ہے کہ غزل کے مضامین کے اصل جوہر کو پیچیدہ اور کسی قدر مشکل طرز نے چھپا دیا اور عام مقبولیت سے محروم کردیا جو لوگ سوداؔ کے اس انداز کو سہولت سے قبول نہیں کرسکتے تھے ، انہوں نے اس کی غزل کو قصیدے کے مقابلے میں پست کہہ دیا ہے ۔ سوداؔ نے خود اس طرف اشارہ کیا ہے ۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سوداؔ کا قصیدہ ہے خوب ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاؤں گا سوداؔ کو تم سمجھتے تھے کہہ نہ سکے گا یہ غزل آفریں ایسے وہم پر صدقے میں اس گمان کے آفریں ایسے وہم پر صدقے میں اس گمان کے سوداؔ کی غزل گوئی کے متعلق یہ غلط فہمی دراصل اس کے طرز بیان کی وجہ سے پیدا ہوئی ۔ اسی زمانے میں میرؔ جیسا بلند پایہ غزل گو استاد موجود تھا جس کی صاف و سلیس زبان میں نغمہ سرائی نے خاص و عام کو گرویدہ بنالیا تھا وہ نہایت مترنم بحریں بھی استعمال کرتا تھا ان بحروں میں اس کی جو غزلیں ہیں وہ خاص طور سے بہت دلچسپ ہیں اور خاص و عام کی زبان پر جاری سوداؔ اور میر کی غزل گوئی کا جو مقابلہ و موازنہ کیا جاتا ہے اس نے بھی سوداؔ کی غزل کے حق میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا کردی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کی غزل کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غزل میں میرؔ و سوداؔ کا موازنہ اصولاً صحیح نہیں ہوسکتا ۔ میرؔ کی الم پرست طبیعت کو سوداؔ کے ہمہ گیر مزاج سے کوئی مناسبت نہیں میرؔ کا ایک خاص رنگ ہے ۔ اس کی دنیا ہی الگ موازنہ کی خاطر اسے کسی اردو کے شاعر کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا اس کی توہین ہے ‘‘ عبدالسلام کے نزدیک سوداؔ کے کلام پر عمومی حیثیت سے جو رائے آزاد نے دی ہے وہ صائب ترین ہے اور اس پر کسی مزید اضافے کی ضرورت نہیں آزادؔ لکھے ہیں ۔ ’’اہل سخن کا اتفاق ہے کہ مرزا اس فن میں مسلم الثبوت تھے وہ اسی طبیعت لے کر آئے تھے جو شعر اور فن انشا ہی کے واسطے پیدا ہوئی تھی ۔ ان کا کلام کہتا ہے کہ دل کا کنول ہر وقت کھلا رہتا تھا ۔ اس پر سب رنگوں میں ہم رنگ اور ہر رنگ میں اپنی ترنگ جب دیکھو طبیعت شورش سے بھری اور جوش و خروش سے لبریز نظم کی ہر فرع میں طبع آزمائی کی ہے اور کہیں رکے نہیں چند صنعتیں خاص ہیں جن سے کلام ان کا جملہ شعراء سے مناز ہوتا ہے اول یہ کہ زبان پر حاکمانہ قدرت کھتے ہیں کلام کا زور مضمون کی نزاکت سے ایسا دست و گریباں ہے جیسے آگ کے شعلے میں گرمی اور روشنی بندش کی چستی اور ترکیب کی درستی سے لفظوں کو درد لست کے ساتھ پہلو بہ پہلو جڑتے ہیں گویا ولایتی طمنچے کی چاپیں چڑھی ہوئی ہیں اور یہ خاص ان کا حصہ ہے چنانچہ جب ان کے شعر میں سے کچھ بھول جائیں تو جب تک وہی لفظ وہاں نہ رکھے جائیں شعر مزا ہی نہیں دیتا خیالات نازک اور مضامین تازہ باندھتے ہیں مگر اس باریک نقاشی پر ان کی فصاحت آئینے کا کا م دیتی ہے تشبیہہ و استعارے ان کے ہاں ہیں مگر اس قدر کہ جتنا کھانے میں نمک یا گلاب کے پھول پر رنگ رنگینی کے پردے میں مطلب اصلی کو کم نہیں ہونے دیتے ۔ ان کی طبیعت ایک ڈھنگ ک پابند نہ تھی ، نئے نئے خیال اور چٹختے قافیے جس پہلو سے جمتے دیکھتے تھے جمادیتے تھے وار وہی ان کا پہلو ہوتا تھا کہ خواہ مخواہ سننے والوں کو بھلے معلوم ہوتے تھے، یازبان کی خوبی تھی کہ جو بات اس سے نکلتی تھی اس کا انداز نیا اور اچھا معلوم ہوتا تھا ۔ ان کے ہمعصر استاد تھے خود اقرار کرتے تھے کہ جو باتیں ہم کاوش اور تلاش سے پیدا کرتے ہیں وہ اس شخص کو پیش پا افتادہ تھیں ۔‘‘ سوداؔ فطرتا میرؔ ودردؔ سے مختلف تھے میرؔ و درد ؔ آپ بیتی بیان کرتے ہیں۔ سوداؔ جگ بیتی اسی لیے میرؔ ودردؔ کے یہاں وحدت سے اور سوداؔ کے یہاں کثرت سوداؔ کی تماشائی نظر میں دنیا وسیع اور بوقلموں نظر آتی ہے ۔ میرؔ کے یہاں محدود یک رنگ لیکن گہری سودا و میر کے فرق کلیم الدین صحیح لکھتے ہیں ۔ ’’میر ؔ کی آنکھیں دل کی طرف جھکی ہوئی تھیں وہ اپنے جذبات و کوائف کے نظارے میں مستغرق رہتے تھے ایسے ہمہ تن محو کہ دنیا و مافیہا کی اکثر خبر نہ ہوتی ۔ سوداؔ کی آنکھیں وا تھیں وہ دنیا کی بو قلمونی کا مشاہدہ کرتے تھے اس لیے ان کی دنیا میرؔ ودردؔ کی دنیا کی طرف محدودو تنگ نہ تھی ۔۔۔تاثیر سے معمور اشعار سوداؔ کے اشعار میں ملتے ہیں لیکن ان کی تاثیر دل کی گریباں گیر نہیں ہوتی ۔میرؔ کا ہر لفظ ایک مستقل درد ہے اور ہر شعر ایک ناسورؔ سوداؔ کے اشعار میں یہی بات موجود نہیں اس کے اشعار میں عالم کے مختلف رخ کی تصویریں ہیں ۔ سوداؔ کی تصویریں نگاہوں کو خیرہ کرتی ہیں۔ میرؔ کے شخصی جذبات کی حسرتؔ افزا تصویریں دل میں جاگزیں ہوتی ہیں ۔‘‘ سوداؔ اسی خارجی نقطۂ نظر کے باعث شعر کے ظاہری حسن پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اس حیثیت سے سوداؔ کی غزل اردو میں بہت اچھی ثابت ہوگی ۔ انتخاب لفظ، بندش ، ترکیب اور تشبہیوں میں بھی پختہ کاری اور ندرت موجود ہے ۔ میرؔ اور دردؔ کے یہاں جو سوز و گداز ہے اس کی بجائے سوداؔ کے یہاں زور کلام اور شور بیان نظر آتا ہے اور اسی باعث غزل ان کے لئے محدود نظر آتی ہے ۔باجود ے کہ وہ رواج زمانہ سے مجبور ہیں لیکن کبھی مسلسل غزلوں اور قطعوں اور زیادہ تر قصائد کو اپنے احساسات و تجربات کی افراط کے لیے ذریعہ اظہار بناتے ہیں ۔ قصائد میں سودا ؔ یہ نسبت غزل کے زیادہ آزاد ہیں ان کی ہنگامہ آرا اور پر زور طبیعت کے لیے یہ زیادہ موزوں بھی ہے ۔ ان کی جودت طبع اور ان کا زور تخیئل قصائد میں وسیع تر میدان پاتا ہے ۔ یہاں غزل کے قیود کی جکڑ بندیاں نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ غالباً یہ وسیع آزادی ان کو قصائد میں اکثر بے عناں بھی بنادیتی ہے ۔ طوالت کے باعث تشبیب میں ان کی تصویرں مکمل ہونے کے باوجود بھی دھندلی نظر آتی ہیں۔ مدح اور دعا کے حصوں کوچھوڑکر جن میں رسمی مبالغہ آمیزی موجود ہے )ان کی تشبیہوں پر نظر ڈالی جائے تو تازگی شگفتگی ، گرمئ تخیئل ، رنگینئ جذبات ، غرض کہ طرح طرح کے تنوع نظر آئیں گے ساتھ ہی فن کارانہ خصوصیات بھی اپنی جگہ پر ہیں پر شکوہ الفاظ دل کش اور نادر بندشیں ، نرالی تشبیہیں اور استعارے علو خیاں کے ساتھ نزادک خیال اور پھر ان کا زور بیان جس سے بہ قول کلیم’’سامعہ مرعوب اور دماغ متحیر ہوجاتا ہے ‘‘ ان تمامچیزوں نے سوداؔ کو قصائد میں انورؔ بنادیا۔ سوداؔ ہجو گوئی میں بھی اردو میں اول درجہ رکھتے ہیں لیکن ذاتیات کا عنصر غالب ہے ۔ مبالغہ آمیزی فحش کلامی بے جا طوالب اور تکرار لطف کم کردیتی ہے ورنہ بے دریغ طنز اور ظرافت کا مادہ ان میں بدرجۂ اتم موجود تھا بجائے ذاتی انتقام کے کسی عام کمزوری کو لے کر اور اپنے شکار کو اس میں مثال کے طور پر پیش کرتے تو ان کی ضرب اور بھی کاری پڑتی ظرافت کا لطف بھی دونا ہوجاتا اسی لیے جہاں کہیں تخلیقی کردار پیش کیے ہیں (مثلاً مثنوی در ہجو امیر دولت مند بخیل) وہاں تصویر زیادہ اچھی کھینچی ہے اور جہاں انہوں نے موضوع عام رکھا ہے کوئی خاص شخصیت پیش نظر ہے ۔(مثلاً قصیدۂ شہر آشوب ، مخمس شہر آشوب ، مثنوی در ہجر ، شیدی فولاد خاں کو توال ) وہاں ان کی قوت بیانیہ اپنا موزوں ترین اسلوب اختیار کرتی ہے ۔قصیدے کی شان و شوکت کے برخلاف ایک دلکش سادگی اور روانی کے ساتھ اپنے تنوع خیال کو رنگ رنگ سے اور نہایت آزادی کے ساتھ پیش کرتے جاتے ہیں اور جزوی باتیں بھی نہیں چھوڑتے ان کے قصائد میں فارسی کا پرتو ہے لیکن ان کی ہجویں ان کے خاص اپنے ڈھنگ کی ہیں اگر وہ بیانیہ نظم پر اور زیادہ توجہ دیتے تو اردو ادب مالا مال ہوجاتا۔

.....مزید پڑھئے

اردو زبان اور محاورے پر زبردست گرفت رکھنے والے شاعر اور نثر میں محمد حسن آزاد اور غزل میں داغ جیسے استادوں کے استاد، محمد ابراہیم ذوق ایک مدت تک بے توجہی کا شکار رہنے کے بعد ایک بار پھر اپنے منکروں سے اپنا لوہا منوا رہے ہیں مغلیہ سلطنت کے برائے نام بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں، ملک الشعراء کے خطاب سے نوازے جانے والے ذوق اپنے زمانہ کے دوسرے اہم شاعروں، غالب اور مومن سے بڑے شاعر مانے جاتے تھے لیکن زمانہ کے مزاج نے اس تیزی سے کروٹ لی کہ ان کو اک معمولی شاعر کہہ کر مسترد کر دیا گیا یہاں تک کہ رشید حسن خاں نے کہہ دیا کہ غزل میں غالب اور مومن کے ساتھ ذوق کا نام لینا بھی گناہ ہے۔ یہ غالب پرستی کا عہد تھا۔ ذوق کو جب غالب کا مد مقابل اور حریف سمجھ کر اور غالب کو اچھی شاعری کا حوالہ بنا کر پڑھنے کا چلن عام ہوا تو ذوق کی شکست لازمی تھی۔ دونوں کا میدان الگ ہے، دونوں کی زبان الگ ہے اور دونوں کی دنیا بھی الگ ہے۔ 

شیخ محمد ابراہیم ذوق کے والد محمد رمضان ایک نو مسلم کھتری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا گھرانہ علم و ادب سے دور تھا ذوق کو حافظ غلام رسول کے مدرسہ میں داخل کر دیا گیا۔ غلام رسول خود بھی شاعر تھے اور شوق تخلص کرتے تھے۔ ان ہی کی صحبت میں ذوق کو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ شوق سے ہی وہ اپنی ابتدائی غزلوں پر اصلاح لیتے تھےاور تخلص ذوق بھی انہیں کا تجویز کردہ تھا۔ کچھ عرصہ بعد ذوق نے مولوی عبدالرزاق کے مدرسہ میں داخلہ لے لیا۔ یہاں ان کے بچپن کے دوست میر کاظم علی بیقرار ان کے ہم سبق تھے۔ بیقرار نواب رضی خاں، وکیل سلطانی کے بھانجے اور بہادر شاہ ظفر کے ملازم خاص تھے۔ جو اس وقت تک محض ولی عہد تھے، بادشاہ اکبر شاہ ثانی تھے۔ بیقرار کے ہی توسط سے ذوق کی رسائی قلعہ تک ہوئی۔ 

شاعری ایک فن لطیف ہے اور شاعری کی طرف رغبت ذوق کی شرافت نفس کی دلیل ہے۔ ذوق نے بہرحال طالب علمی کے زمانہ میں اس شوق کو اپنی طبیعت پر حاوی نہیں ہونے دیا، انہوں نے اپنے شوق اور محنت سے مروجہ علوم مثلاً نجوم، طب، تاریخ وغیرہ میں دستگاہ حاصل کی اور ہر فن میں طاق ہو گئے۔ "قسمت سے ہی مجبور ہوں اے ذوق وگرنہ*ہر فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا"۔ شاعری کا سلسلہ بہرحال جاری تھا اور وہ اپنی غزلیں شوق کو ہی دکھاتے تھے۔ لیکن جلد ہی وہ شوق کی اصلاح سے غیر مطمئن ہو گئے اور اپنے زمانہ کے مشہور استاد شاہ نصیر کی شاگردی اختیار کر لی۔ 

قلعہ تک رسائی حاصل کرنے کے بعد ذوق باقاعدہ درباری مشاعروں میں شرکت کرنے لگےان کے ایک قصیدے سے خوش ہو کر اکبر شاہ ثانی نے ان کو خاقانیٔ ہند کا خطاب دیا۔ شہر میں اس کے بڑے چرچے ہوئے ایک نو عمر شاعر کو خاقانیٔ ہند کا خطاب ملنا ایک انوکھی بات تھی۔ بعد میں ذوق کو سودا کے بعد اردو کا دوسرا بڑا قصیدہ نگار تسلیم کیا گیا ان کے قصائد کی فضا علمی اور ادبی ہے اور فنی اعتبار سے بہت لائق تحسین ہے۔ جلد ہی ان کی شہرت اور مقبولیت سارے شہر میں پھیل گئی یہاں تک کہ ان کے استاد شاہ نصیر ان سے حسد کرنے لگے۔ وہ ذوق کے شعروں پر بیجا نکتہ چینیاں کرتے لیکن ذوق نے کبھی ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا، ذوق کی عوامی مقبولیت ہی تمام نکتہ چینیوں کا جواب تھی۔ ولی عہد مرزا ابو ظفر (بہادر شاہ) کی سرکار سے ان کو چار روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا (خیال رہے کہ اس وقت تک خود ظفر کا وظیفہ 500 ماہانہ تھا)۔ جو بعد مدت 100 روپے ہو گیا۔ ذوق مال و جاہ کے طلبگار نہیں تھے وہ بس دہلی میں محترم رہنا چاہتے تھے۔ ان کو اپنے دیار سے محبت تھی۔ سادگی اتنی کہ کئی مکانات ہوتے ہوئے بھی عمر بھر ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے رہے۔ دہلی سے اپنی محبت کا اظہار انہوں نے اپنے شعروں میں بھی کیا۔ "ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بہت قدر سخن*کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر"۔ نہ خدا سے شکوہ، نہ بندوں سے شکایت۔ ان کی عمر بھر کی پونجی بس شعر گوئی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا پورا کلام بھی ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ غزل کے مسودے وہ تکیہ کے غلاف، گھڑے یا مٹکے میں ڈال دیتے تھے۔ وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے کلام ترتیب دیا اور کام پورا نہ ہونے پایا تھا کہ 1857 کا غدر ہو گیا ذوق کی وفات کے تقریب چالیس سال بعد ان کا کلام شائع ہوا۔ 

ذوق کی زندگی کے واقعات زیادہ تر ان کی شاعرانہ زندگی اور سخنورانہ معرکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ذوق سے پہلے شہر میں شاہ نصیر کی استادی کا ڈنکا بج رہا تھا، وہ سنگلاخ زمینوں اور مشکل ردیفوں جیسے "سر پر طرہ ہار گلے میں' اور " فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں" کے ساتھ غزلیں کہہ کر شہر کو مرعوب کئے ہوئے تھے۔ ذوق جب ان سے زیادہ مقبول اور مشہور ہو گئے تو انہوں نے ذوق کو نیچا دکھانے کے لئے بہت سے ہتھکنڈے اپنائے لیکن ہر معرکہ میں ذوق ظفر یاب ہوئے۔ ذوق نے کبھی اپنی جانب سے چھیڑ چھاڑ کی ابتدا نہیں کی اور نہ کبھی ہجو لکھی۔ 

غالب کبھی کبھی چٹکیاں لیتے تھے۔ شاعری میں ذوق کا سلسلہ شاہ نصیر سے ہوتا ہوا سودا تک پہنچتا تھا۔ ذوق کے کلام میں میر کی سی درد مندی اور کسک کے فقدان پر پھبتی کستے ہوئے غالب نے کہا، "غالب اپنا بھی عقیدہ ہے بقول ناسخ*آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں"۔ غالب نے اپنے مقطع میں ناسخ کا نام لے کر یہ بھی اشارہ کر دیا کہ تمہارے استاد معنوی ناسخ بھی میر سے متاثر تھے اور تمہارے کلام میں میر کی کوئی جھلک تک نہیں۔ اس کے جواب میں ذوق نے کہا، "نہ ہوا پر نہ ہوا میرکا انداز نصیب*ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا" یعنی تمہارے یہاں کب میر جیسا سوز و گداز ہے بس خیالی مضمون باندھتے ہو۔ شہزادہ جوان بخت کی شادی کے موقع پر غالب نے اک سہرا لکھا جس میں شاعرانہ تعلی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے کہا، " ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں*دیکھیں کہہ دے کوئی اس سہرے سے بہتر سہرا"یہ بات بہادر شاہ کو گراں گزری۔ گویا ان پر چوٹ کی جا رہی ہے کہ وہ سخن فہم نہیں تبھی غالب کو چھوڑ کر ذوق کو استاد بنا رکھا ہے۔ انہوں نے ذوق سے فرمائش کی کہ اس سہرے کا جواب لکھا جائے۔ ذوق نے سہرا لکھا اور مقطع میں غالب کے شعر کا جواب دے دیا۔ "جن کو دعوائے سخن ہے یہ انہیں دکھلا دو*دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا"۔ بہر حال غالب ذوق پر چوٹیں کس ہی دیا کرتے تھے مگر اس خوبی سے کہ نام اپنا ڈالتے تھے اور سمجھنے والے سمجھ جاتے تھے کہ روئے سخن کس طرف ہے۔ "ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا*وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے"

ذوق نے غزل کے بنے بنائے دائرہ میں میں شاعری کی لیکن پامال مضامین کو فنکارانہ جدت سے پیش کر کے استادی کا حق ادا کر دیا۔ ان کے ان گنت شعر آج تک ضرب المثل بن کر لوگوں کی زبان پر ہیں۔ "پھول تو دو دن بہار جاں فضا دکھلا گئے*حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے"/اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا*بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے"/بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو*زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو"/اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر*آرام سے ہیں وہ جو تکلف نہیں کرتے"/ "اے ذوق اتنا دختر رز کو نہ منہ لگا*چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی"وغیرہ۔ اخلاقی اور ناصحانہ باتوں میں ذوق نے خاص چابکدستی سے کام لیا ہے اور تمثیل کا پیرایہ ان کے اشعار میں تاثیر بھر دیتا ہےزبان کی صفائی، محاورہ کی صحت اور بندش کی چستی ذوق کی غزل کی عام خوبیاں ہیں۔ ان کے شعر کسی گہرے غور و فکر کی دعوت نہیں دیتے اور وہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو روزمرہ کےمطابق ہو اور سننے والے کو کسی الجھن میں نہ ڈالے۔ فراق گورکھپوری ذوق کے اعلانیہ منکر ہونے کے باوجود لکھتے ہیں، "آرٹ کے معنی ہیں کسی چیز کو بنانا اور فن کے لحاظ سے ذوق کا کارنامہ بھلایا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کارنامہ کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ ذوق کے یہاں چیزیں، جو ہمیں محبوب و مرغوب ہیں، نہ پاکر ہمیں بے صبری سے ذوق کا دیوان الگ نہیں پھینک دینا چاہیے۔ اگر ہم نے ذرا تامل اور رواداری سے کام لیا تو اپنا الگ مذاق رکھتے ہوئے بھی ذوق کے مذاق سخن سے ہم لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔" فراق ذوق کی شاعری کو" پنچایتی شاعری" کہتے ہیں لیکن ان کے شعر "رخصت اے زنداں جنوں زنجیر در کھڑکائے ہے*مزدہ خار دشت پھر تلوا مرا کھجلائے ہے" کو شعری معجزہ بھی ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح شمس الرحمان فاروقی ذوق سے کچھ زیادہ متاثر نہ ہونے کے باوجود ان کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کا اعتراف کرتے ہیں/یہاں ذوق کا یہ شعر بڑا بر محل نظر آتا ہے۔ "بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے رکتا ہے دل/اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے۔


.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے