Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aale Ahmad Suroor's Photo'

آل احمد سرور

1911 - 2002 | علی گڑہ, انڈیا

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں شامل ہیں

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں شامل ہیں

آل احمد سرور کے اقوال

562
Favorite

باعتبار

ادب انقلاب نہیں لاتا بلکہ انقلاب کے لیے ذہن کو بیدار کرتا ہے۔

غزل ہماری ساری شاعری نہیں ہے، مگر ہماری شاعری کا عطر ضرور ہے۔

شاعری میں واقعہ جب تک تجربہ نہ بنے، اس کی اہمیت نہیں ہے۔ خیال جب تک تخیل کے سہارے رنگا رنگ اور پہلودار نہ ہو، بیکار ہے اور احساس جب تک عام اور سطحی احساس سے بلند ہو کر دل کی دھڑکن، لہو کی ترنگ، روح کی پکار نہ بن جائے اس وقت تک اس میں وہ تھرتھراہٹ، گونج، لپک، کیفیت، تاثیر و دل گدازی اور دلنوازی نہیں آتی جو فن کی پہچان ہے۔

فن کی وجہ سے فنکار عزیز اور محترم ہونا چاہیے۔ فنکار کی وجہ سے فن نہیں۔

غزل عبارت، اشارت اور ادا کا آرٹ ہے۔

غزل کی زبان صرف محبوب سے باتیں کرنے کی زبان نہیں، اپنی بات اور اپنے کاروبار شوق کی بات کی زبان ہے۔ اور یہ کاروبار شوق بڑی وسعت رکھتا ہے۔

شاعری میں واقعہ جب تک تجربہ نہ بنے، اس کی اہمیت نہیں ہے۔

نثر میں الفاظ خراماں ہوتے ہیں۔ شاعری میں رقص کرتے ہیں۔ خرام دیکھا جاتا ہے۔ رقص محسوس بھی کیا جاتا ہے۔

حسن تو موزونیت کا دوسرا نام ہے۔

زبان جتنی ترقی کرتی جاتی ہے مجموعی طور پر وہ سادہ اور پرکار ہوتی جاتی ہے۔

اچھا نقاد پڑھنے والے کو شاعر سے شاعری کی طرف لے جاتا ہے۔ معمولی نقاد شاعر میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔

دہلی کی شاعری جذبے کی شاعری ہے، وہاں جذبہ خود حسن رکھتا ہے۔ لکھنؤ کی شاعری جذبے کو فن پر قربان کر دیتی ہے۔

اردو میں افسانہ اب بھی افسانہ کم ہے، مضمون یا مرقع یا وعظ زیادہ۔ افسانہ نگار اب بھی افسانوں میں ضرورت سے زیادہ جھانکتا ہے۔

تنقید کے بغیر ادب ایک ایسا جنگل ہے جس میں پیداوار کی کثرت ہے، موزونیت اور قرینے کا پتہ نہیں۔

کسی ملک کے رہنے والوں کے تخیل کی پرواز کا اندازہ وہاں کی شاعری سے ہوتا ہے مگر اس کی تہذیب کی روح اس کے ناولوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

سائنس اور ادب دونوں اب حقیقت کی تلاش کے دو راستے مان لئے گئے ہیں اور دونوں کے درمیان بہت سی پگڈنڈیاں بھی ہیں اور پل بھی۔

نقاد در اصل وہ مہذب قاری ہے جو مرتب اور منظم ذہن رکھتا ہے۔

بڑا نقاد وہ ہے جس سے اختلاف تو کیا جائے مگر جس سے انکار ممکن نہ ہو اور جس سے ہر دور میں بصیرت ملتی رہے۔

اچھا نقاد وہ ہے جو قاری کو تخلیق کے متعلق نئی بصیرت دے۔

اچھی عشقیہ شاعری صرف عشقیہ ہی نہیں کچھ اور بھی ہوتی ہے۔ عشق زندگی کی ایک علامت بن جاتا ہے اور بادہ و ساغر کے پردے میں مشاہدۂ حق ہی نہیں مطالعۂ کائنات پر اس انداز سے تبصرہ ہوتا ہے کہ شعر ایک ابدی حقیقت کا پرتو بن جاتا ہے اور ہر دور میں اپنی تازگی قائم رکھتا ہے۔

ادبی زبان نہ مکمل طور پر بول چال کی زبان ہو سکتی ہے نہ مکمل طور پر علمی۔ ہاں دونوں سے مدد لے سکتی ہے۔

محمد حسین آزاد ہوں یا ابو الکلام آزاد طرحدار ضرور ہیں مگر ایک تمثیل اور دوسرا خطابت کے بغیر لقمہ نہیں توڑتا۔ ہماری نثر کو ابھی جذباتیت سے اور بلند ہونا ہے۔

ہر ادب میں تجربے ضروری ہیں، مگر تجربوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صرف نئے فارم میں ظاہر ہوں۔ نئے موضوعات، نئے تصورات، نئے عنوانات میں بھی ظاہر ہونے چاہئیں۔

علامتی اظہار، اظہار کا وہ طریقہ ہے جو اس دور میں اس لئے مقبول ہوا کہ یہ دور کوئی سبق دینے یا کسی قصے کی زیبائش کرنے کا قائل نہیں بلکہ ان ننگے لمحوں کی مصوری کا قائل ہے جو کبھی کبھار اور بڑی کاوش کے بعد یا بڑے ریاض کے بعد ہاتھ آتے ہیں۔

ادیب زندگی سے، اس کی سچائی سے، اس کے حسن سے نہیں کٹا، بلکہ سیاسی اور سماجی حالات کی شکار پبلک اس سے کٹ گئی ہے۔

ادب وقتی اور ہنگامی واقعات کو ابدی تناظر میں دیکھنے کا نام ہے۔ ہر لمحے کے ساتھ بدل جانے کا نام نہیں۔

شاعری اور ادب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ وقتی سیاست کے اشاروں پر چلے اور سیاسی تحریکوں کے ہر پیچ و خم کا ساتھ دے۔

سادگی، شاعری کی کوئی بنیادی قدر نہیں ہے۔ بنیادی قدر شعریت ہے اور یہ شعریت بڑی پرکار سادگی رکھتی ہے اور ضرورت پڑنے پر مشکل بھی ہو سکتی ہے۔

تنقیدی شعور تو تخلیقی شعور کے ساتھ ساتھ چلتا ہے مگر تنقیدی کارنامے ہر دور میں تخلیقی کارناموں کے پیچھے چلے ہیں۔

دربار کی وجہ سے شاعری میں شائستگی اور نازک خیالی، صناعی اور ہمواری آئی ہے۔ عیش امروز اور جسم کا احساس ابھرا ہے۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے